جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے

بیرسٹر ظہور بٹ (لندن)
قارئین! محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کے خاوند آصف علی زرداری پر جب ان کی بےگم کے قتل کی شفاف تحقیقات کروانے اور ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کروانے کےلئے دباو¿ ڈالا گیا تو انہوں نے بڑی پُھس پُھسی سی تحقیقات کروائی یا یوں کہہ لیجئے کہ جیسے شلغم سے مٹی جھاڑی جاتی ہے چنانچہ حسب توقع نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا عام طور پر قتل کے معاملات میں سب سے اہم قدم لاش کے پوسٹ مارٹم سے کیا جاتا ہے مگر یہاں بھی زرداری صاحب کا اصرار تھا وہ نہیں چاہتے کہ بے نظیر کی لاش کی بے حرمتی ہو اس دوران 2007 والے عام انتخابات ہو چکے تھے مرکز میں پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن چکے تھے سندھ اور بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت بن چکی تھی اور خیبر پختون خواہ میں بھی انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی سے ملکر مخلوط حکومت بنا لی تھی کمال ہشیاری سے کام لےتے ہوئے آصف علی زرداری پاکستان کے صدر بھی بن چکے تھے باوجود اس کے کہ پاکستان آنے سے پہلے محترمہ اعلان کرچکی تھیں کہ اس دفعہ وہ اپنے خاوند آصف علی زرداری کو نہ تو پاکستان کے کسی بھی حلقے سے انتخابات میں حصہ لےنے کی اجازت دیں گی اور نہ ہی انہیں پاکستان میں آنے دیں گی اس کی وجہ ان کے دونوں ادوار اقتدار میں آصف زرداری کی مبینہ کرپشن اور ان پر مسٹر 10 فیصد وغیرہ کے الزامات تھے جس کی وجہ سے ان کی حکومت کی خاصی بد نامی ہوئی تھی لےکن ہم نے دےکھا کہ ان کی شہادت کے بعد زرداری صاحب نے کاغذ کے ٹکڑے پر لکھی ہوئی ایک تحریر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی وصیت ظاہر کرکے پہلے پیپلز پارٹی پر قبضہ کیا اور اس کے بعد وہ پاکستان کے صدر بن گئے گویا کہ محترمہ کی شہادت کا سب سے زیادہ فائدہ انہی کو ہوا شائد اس لئے وہ گڑھے مردے کھودنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ کچھ انگلیاں ان کی طرف بھی اٹھ رہی تھیں محترمہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم کروانے کی بجائے نہوں نے کہا کہ وہ کسی سے کوئی انتقام نہیں لےنا چاہتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ً جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے ً بے نظیر بھٹو کی شہادت کا سب سے زیادہ فائدہ بھی پیپلز پارٹی کو ہوا پنجاب کے سوا دوسرے تمام صوبوں میں ان کی حکومتیں ہیں سینٹ میں بھی یہی ہیں مرکز میں بھی یہی ہیں مرکزی کابینہ کے اجلاس بھی ایوان صدر میں ہوتے ہیں وزیر اعظم کی حیثیت ان کے ایک معمولی کارندے سے زیادہ کچھ بھی نہیں باقی وزراءتو کسی بھی کھاتے میں نہیں آتے گویا کہ اب ان کی ”موجاں ای موجاں“ ہیں اور ان کے نزدیک جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے کا مطلب بھی شاید یہی ہے کہ جناب صدر ہر طرف چھائے ہوئے نظر آتے ہیں نہ معلوم اس کا مطلب جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے یا یہ جمہوریت سے کوئی انتقام لے رہے ہیں ان کے مشیروں وزیروں اور گورنروں پر ایک نظر ڈالی جائے تو حد نظر تک سوائے گندگی اور کرپشن کے کچھ بھی نظر نہیں آتا یہ بھی پاکستان کے لوگوں سے ایک قسم کا انتقام ہے اور اب سب سے بڑا انتقام انہوں نے راجہ پروےز اشرف عرف راجہ رینٹل کو پاکستان کا وزیر اعظم بنا کر لیا ہے ان کی دیانتداری کی ایک جھلک دےکھنی ہے تو پارلیمنٹ کا ممبر بننے سے پہلے ان کے اثاثوں پر ایک نظر ڈالیں ان دنوں پہننے والے ان کے لباس کو دیکھیں ان کے سر پر ڈالے ہوئے سرسوں کے تیل کو ان کے کانوں تک بہتا ہوا دیکھیں اور آج ان کے اثاثوں پر ایک نظر ڈالیں تو پاکستان سے لےکر لندن اور ساو¿تھ ہال تک پھیلے ہوئے ہیں ان کے برطانیہ میں سلے ہوئے قیمتی سوٹ اور 100 پونڈ سے بھی زیادہ قیمتی ٹائیاں اور جوتے دےکھیں اب تو ان کی شکل میں بھی فرق نظر آنے لگاہے لےکن اس کے باوجود ان کی عقل اور فہم و فراست میں ذرا بھر بھی فرق نہیں آیا عام خیال یہی ہے کہ انہیں وزیر اعظم بنا کر صدر زرداری نے جمہوریت اور پاکستان دونوں سے انتقام لیا ہے اس ے تو کہیں بہتر تھا کہ اعتزاز احسن کو وزیر اعظم بنا دیا جاتا پاکستان کی کسی بھی بار ایسوسی اےشن میں تو وہ جا نہیں سکتے وزیر اعظم ہاو¿س میں ہی ڈےرہ جما لےتے آخر صدر محترم کےلئے ان کی خدمات بھی کسی سے کم نہیں یا ایک اور صاحب جن کا نام عرفان قادر بتایا جاتا ہے اور جو پاکستان کے اٹارنی جنرل بھی ہیں ان کے بارے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ اٹارنی جنرل کم اور سپریم کورٹ میں پیپلز پارٹی اور جناب صدر کے Spokesman زیادہ ہیں یہ بھی وزیر اعظم کے عہدے کےلئے موزوں امیدوار ہو سکتے تھے اسی طرح کے اور بھی بے شمار چمچوں سے پیپلز پارٹی لدی ہوئی ہے مگر نہیں! صدر محترم کی نظر شفقت اگر کسی پر پڑی تو وہ راجہ پروےز اشرف پر پڑی جن کے بارے میں مےرے سب سے محترم دانشور اور کالم نویس فرمایا کرتے ہیں کہ راجہ رینٹل کو وزیر اعظم بناکر صاحب صدر نے اپنے منہ پر نہیں تو پاکستان کے منہ پر ضرور کالک مل دی ہے اس لئے ان کےلئے یہ کہنا بہت بڑا جھوٹ ہے کہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے حالانکہ یہ انتقام وہ پاکستان کے 18 کروڑ عوام سے لے رہے ہیں۔ آخر میں صدر زرداری کا یہ دعویٰ کہ وہ قاتلوں کو جانتے ہیں لیکن تادم تحریر انہیں گرفتار نہیں کیا!

ای پیپر دی نیشن