آئی جی کی رپورٹ پھر مسترد‘ گرفتاری میں ملوث ایف سی کمانڈنٹ کی طلبی‘ لاپتہ افراد جس کے پاس ہیں بتا دے ورنہ کارروائی کرینگے : چیف جسٹس

آئی جی کی رپورٹ پھر مسترد‘ گرفتاری میں ملوث ایف سی کمانڈنٹ کی طلبی‘ لاپتہ افراد جس کے پاس ہیں بتا دے ورنہ کارروائی کرینگے : چیف جسٹس

Aug 23, 2013

اسلام آباد (وقائع نگار + آن لائن) سپریم کورٹ نے مصطفی اعظم لاپتہ کیس میں آئی جی ایف سی کی رپورٹ دوسری مرتبہ مسترد کرتے ہوئے گرفتاری میں مبینہ طور پر ملوث ایف سی کمانڈنٹ کو طلب کیا ہے۔ آئی جی سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے بم دھماکے کے دوران گرفتار ہونے والے مصطفی اعظم کی ویڈیو طلب کی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ ایک طرف تو بے گناہ افراد کو اٹھا لیا جاتا ہے اوپر سے سونے پر سہاگہ یہ کہ اٹھانے والے ادارے اپنے فعل سے ہی انکار کر دیتے ہیں لاپتہ افراد کے معاملات کی وجہ سے بیرونی دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی نہیں ہونے دینگے جس کے پاس بھی لاپتہ افراد ہیں وہ عدالت کو تفصیلات سے آگاہ کر دے تو بہتر ہے یا پھر قانون کے مطابق کارروائی کریں گے لوگوں کی مزید مشکلات برداشت کرنے کیلئے اب ہم میں ہمت باقی نہیں رہی جب تک حساس اداروں کو مہلت دے سکتے تھے دے چکے اب مزید مہلت نہیں دینگے، ایف سی کے لوگ ایک شخص کو اٹھا کر اب کہتے ہیں وہ مصطفی اعظم ہی نہیں بلکہ حمزہ جاوید ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آئین و قانون کی حکمرانی کے علاوہ کچھ نہیں چلے گا بہت ہو گیا لاپتہ افراد کی اب بازیابی ہو جانی چاہئے ایک کیس نمٹاتے ہیں تو پھر پتہ چلتا ہے کہ چند اور لوگ غائب ہیں بلوچستان سے لاپتہ افراد کی نعشیں کراچی سے مل رہی ہیں آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو عدالت کو مصطفی اعظم کے حوالے سے ایف آئی آر درج کی گئی تھی حیات آباد میں بم پھٹا جس میں اس نوجوان کو پکڑا گیا تھا ایف سی کے پاس یہ نوجوان تھا اس کی تحقیقات کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ فرسٹ ایئر کا طالبعلم تھا جو اس دوران ہوٹل میں رہ ر ہا تھا جہاں دھماکہ ہوا تھا سندھ پولیس اس کیخلاف ایک مقدمے کی تحقیقات کر رہی تھی کہ اس دوران پشاور کے بم دھماکے میں اسے پکڑ لیا گیا والد اس کو پہچانتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ والد بیٹے کو پہچان رہا ہے آپ ہمارے سامنے مصطفی اعظم کو پیش کریں پولیس نے بتایا ہمارے ریکارڈ کے مطابق حمزہ جاوید ہے ہم کمشن کے روبر پیش کر چکے ہیں وزارت داخلہ کے روبرو بھی پیش کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں پیشی کے حوالے سے وہ کنفرم نہیں ایف سی کی جانب سے جسٹس جواد نے کہا کہ اس حوالے سے ویڈیو موجود ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ریسٹورنٹ میں بم بلاسٹ 2013ءمیں ہوا یہ تو 2006ءسے لاپتہ ہے 2007ءمیں اس کی بازیابی کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔ استدعا کی کہ بہتر ہو گا کہ حمزہ جاوید کی بھی فرانزک رپورٹ طلب کریں کیونکہ مصطفی اعظم کے حوالے سے فرانزک رپورٹ اس بات کو کنفرم کر رہی ہے کہ یہ مصطفی اعظم ہیں حمزہ جاوید نہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ نے کب اس شخص کو پیش کیا تھا طارق کھوکھر نے کہا کہ حمزہ اور اس کی بہن تہمینہ کو پیش کیا گیا تھا یہ بندہ ہمارے پاس نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا آپ جب لوگوں کو پکڑتے ہیں تو بغیر بیانات اور دیگر قواعد و ضوابط پورے کئے آپ نہیں چھوڑ سکتے۔ عدالت نے اپنے حکمنامے میں تحریر کرایا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے بتایا ہے کہ جن تصاویر میں انسپکٹر بشیر ڈار موجود تھا نے اپنا بیان دیا تھا کہ تصویر میں موجود نوجوان کو ایف سی والے لے گئے تھے والدہ کے مطابق تصویر اس کے بیٹے کی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ نوجوان پشاور میں ایف سی کے پاس ہے اس لئے یہ عدالت میں پیش کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ ہم چاہتے ہیں اس کیس کو جلد سے جلد نمٹا دیں کیونکہ 2007ءسے زیر سماعت ہے 22 اگست کو نوجوان کو پیش کیا جائے آئی جی ایف سی عدالت کے حکم پر عملدرآمد کریں۔ بعدازاں عدالت نے آئی جی ایف سی کو حکم دیا کہ وہ اس کمانڈنٹ کو عدالت میں پیش کریں جس نے بم دھماکے میں نوجوان کو گرفتار کیا اور بعدازاں رہا کر دیا تھا۔ آئی جی سندھ نوجوان کی گرفتاری کے حوالے سے ویڈیو عدالت میں پیش کریں۔ مزید سماعت دس ستمبر تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے اٹھانے والے ایف سی اہلکاروں اور گرفتار نوجوان سے برآمد ہونے و الا کیمرہ بھی پیش کرنے کا حکم دیا ہے جس کے ذریعے ایف سی کرنل کے مطابق وہ دھماکے کی جگہ کی تصاویر اتار رہا تھا۔آئی جی نے کہا کہ مصطفی اعظم کے باپ کی جانب سے جو تصویریں پیش کی گئی ہیں وہ مصطفی اعظم کی نہیں بلکہ حمزہ جاوید کاظمی کی ہیں جسے دھماکے کی جگہ سے پکڑا ضرور گیا تھا مگر ابتداءبیان کے بعد چھوڑ دیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ کا بیان درست نہیں، حمزہ جاوید اپنی بہن کے ساتھ عدالت میں پیش ہوا تھا جو تصویریں دکھائی گئی ہیں وہ حمزہ کی نہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ مصطفی اعظم کی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کے بیان کے مطابق اسے چھوڑ دیا گیا تھا تو کوئی تحریر دکھائیں۔ تصویروں میں تو ایف سی اہلکار نوجوان کو پکڑ کر لے جا رہے ہیں۔ کرنل عامر سلطان نے کہا کہ دھماکے کی جگہ سے لوگوں کو ہٹایا جا رہا تھا اس کو بھی ایف سی اہلکار ہٹا رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کی آنکھوں پر تو پٹی بندھی ہے اور اہلکار اسے باقاعدہ پکڑ کر لے جا رہے ہیں۔ عامر سلطان نے پھر کہا کہ وہ دراصل جگہ کی تصویریں بنا رہا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر وہ کیمرہ پیش کریں جس سے تصویریں بنا رہا تھا۔ مصطفی اعظم کے والد نے بتایا کہ ان کا بیٹا کراچی کی بچہ جیل میں تھا جہاں سے اسے رہا کرنے کا فیصلہ ہو گیا تھا مگر جب مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو یہ فیلہ تبدیل کر دیا گیا۔ ڈی ایس پی محمد احسن نے بتایا کہ انہوں نے پوری تفتیش کی ہے مصطفی جیل میں نہیں رہا۔ عدالت نے آئی جی سے مفصل رپورٹ طلب کر لی ہے۔
لاپتہ کیس

مزیدخبریں