کل رات ”انقلاب“ لانے والوں اور ”نیا پاکستان“ بنانے والوں پر بارش کھل کر برسی‘ اور جو لوگ باقاعدہ طور پر اس دھرنے میں شریک نہیں ہیں ان باقی کے کروڑوں لوگوں کے ذہن و دل کو اس فکر مندی سے گھیرے رکھا کہ یہ لوگ اب کیا کرینگے اور کہاں قیام کرینگے کیونکہ اسلام آباد پارلیمنٹ کے سامنے سڑکوں کے درمیان فٹ پاتھوں کے آس پاس کے سبزے اور پھولوں کے بچھونے ان لوگوں کی شب بسری کے کام آتے رہے ہیں لیکن اس بارش کی زیادہ مشکلات ڈاکٹر طاہر القادری کی لائی گئی پبلک کو محسوس ہوئی ہوں گی کیونکہ وہ ہلا گلا نہیں کر سکتے ہیں اور اپنا وقت ہنس کھیل کر نہیں گزار سکتے۔ البتہ عمران کے ”پی ٹی آئی“ کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کیلئے بارش بھی ”زحمت“ نہیں تھی کیونکہ اسلام آباد کی شاہراہیں سبزہ زار اور پھولوں کی کیاریاں نئی تاریخ تو شاید نہ بنا سکیں مگر نئی کہانیاں ضرور بنا رہی ہیں اور پی ٹی آئی کے لوگ اس موسم کے مزے لینے میں اس فکر میں مبتلا نظر نہیں آئے کہ ہر طرف جل تھل ہو گئی تو کہاں بیٹھیں گے۔
مزہ برسات کا چاہو مری آنکھوں میں آ بیٹھو
سیاہی ہے سپیدی ہے شفق ہے ابرِ باراں ہے
عمران خان نے تو کہہ دیا ہے کہ ”ایمپائرز کی انگلی اٹھنے والی ہے اور یہ تماشہ ہفتہ کی شام تک ختم ہونیوالا ہے اس کا مطلب اس ”ویک اینڈ“ پر دھرنے میں بیٹھے عوام میں شامل بوڑھے بچے اور خواتین کے واپس گھروں کو جا کر لمبی تان کر سوئیں گے کیونکہ دھرنے میں موجود عوام نے تکلیف بہت اٹھائی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ عوام کی تکلیفوں اور دکھوں میں اضافہ ہمیشہ انکے لیڈروں کے فیصلوں کی وجہ سے کم یا زیادہ ہوتا ہے اور بدقسمتی سے قائداعظم کی رحلت کے بعد پاکستانی عوام کے دکھوں میں اضافہ ہی ہوا ہے کمی نہیں ہوئی ہے لیکن آج کے اس دن تک پہنچتے پہنچتے ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ پاکستانی قوم اور سیاستدان اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ نہ تو پاکستان کے ”آئین“ کیساتھ کھلواڑ کرنے پر تیار ہیں اور نہ ہی غیر آئینی انداز اختیار کرنے پر تیار ہیں حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ سب لوگ موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی اور فیصلوں سے خوش ہوں۔ موجودہ حکومت کے ساتھ گلہ گزاریاں بھی موجود ہیں مگر اسکے باوجود اس ملک کی نازک صورتحال کی وجہ سے مثبت سوچ اپنا کر اصلاح احوال کی گنجائش نکالی جا رہی ہے اور جمہوریت کی قربانی دینے پر کوئی بھی تیار نہیں ہے اور سب یہی چاہتے ہیں کہ اصلاحات کی طرف تو توجہ دی جائے۔ تاکہ سسٹم ٹھیک ہو سکے۔ مگر بحیثیت وزیراعظم نواز شریف اپنی آئینی مدت پوری کر لیں تاکہ اس ملک میں کسی قسم کی غلط روایت کی ابتدا نہ کی جائے۔ وزیراعظم نواز شریف کا آئینی عزم بھی اس ساری صورتحال میں قابل تعریف ہے کہ جس نے ملک میں کسی نئی اور بُری روایت کا آغاز نہیں ہونے دیا اب چاہیے یہ ”ایکٹویٹی“ ہَوا¶ں اور بادلوں کے ہمراہ گزر بھی جائے مگر وزیراعظم نواز شریف کے سبق حاصل کرنے کیلئے اس میں بہت کچھ ”چھپا“ ہوا ہے اب اگر وہ چاہیں تو اسی ”انقلاب اور دھرنے“ میں سے ہی بہت کچھ حاصل کر کے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں لیکن ایک نصیحت جس پر انہیں آج اور اسی لمحے سے عمل پیرا ہونا ہو گا وہ ان کے خاندان کے افراد اور ان کی کابینہ کے چند نالائق وزیروں کے ”بڑھکیں“ ہیں کیونکہ حکومت کیلئے موجود ”گلہ گزاری“ کے باوجود پاکستانی عوام کی اکثریت ماورائے آئین اقدامات کیخلاف انکے ساتھ کھڑی ہے تو یہ ایک معجزے جیسے تباہ کرنے کی اجازت انہیں ”اپنوں“ کو نہیں دینا چاہیے کیونکہ ”مبارک سلامت“ کا وقت ابھی دور ہے لہٰذا ”اوچھا پن“ اختیار کرنا خود نواز شریف کے خلاف بھی جا سکتا ہے اسکے علاوہ ہمارا میڈیا بھی بریکنگ نیوز کے چکر میں معاملات میچور کرنے سے پہلے اُچھال دیتا ہے ویسے تو پاکستانیوں کے بارے میں ”جذباتی“ ہونے کا ٹائٹیل دنیا بھر میں ہے جس کے رنگ ”انقلاب“ اور ”دھرنے “ میں بھی دکھائی دے رہے ہیں مگر اب اس قوم کو بھی اور اسکے لیڈروں کو بھی عقل پر ہاتھ مارنے کی ضرورت ہے۔ عوام کی اکثریت تو پھر بھی باشعور ہو چکی ہے مگر لیڈروں کا فی الحال اللہ ہی حافظ ہے اور اسی وجہ سے عوام ”اندھوں میں کانے“ تلاش کرتی رہتی ہے اب اسلام آباد کے ”دھرنیوں“ اور ان انقلابیوں کے لیڈروں کی فرمائش یہ ہے کہ شہر کے اردگرد کے ”کنٹینرز“ ہٹا دئیے جائیں۔ ایک تو یہ کنٹینر شہر کے حساس علاقوں اور افراد کی موجودگی میں ”حصار حفاظت“ بھی ہیں اور دوسری یہ بات بھی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری تو ذرا دھیمے بات بھی کر لیتے ہیں لیکن عمران خان نوجوانوںکو مشتعل کر دیتے ہیں اور اس معاملے میں ہمیشہ ”دوغلے پن“ کا شکار رہے ہیں اور پالیسی یہ اختیار کئے رکھتے ہیں کہ مکمل امن برقرار رکھنے کا کہہ کہہ کر آگے بڑھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر عوام کو اکسانے کا سلسلہ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اس ملک پر خداتعالیٰ کی ذات ہماری تمام تر غلطیوں کے باوجود ابھی تک مہربان ہے اور پھر سانحہ ماڈل ٹا¶ن سے نصیحت حاصل کرنے والی حکومت نے بھی معاملات کو خوش اسلوبی کیساتھ آگے بڑھنے دیا ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ آخر کب تک؟ لہٰذا ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان سے یہ اپیل کی جاتی ہے کہ اس ملک کے سسٹم میں موجود خرابیوں کی طرف آپ نے بھرپور نشاندہی کر کے قومی فریضہ انجام دے دیا ہے اور نواز حکومت نے بھی ”ٹف“ ٹائم دیکھ لیا ہے انکے ”انداز حکمرانی“ درست کرنے کیلئے یہ کافی ہے۔ آج اگر وزیراعظم نواز شریف سے پوچھیں تو وہ یقیناً اپنے رمضان کے عمرہ پر روانگی پر بھی پچھتا رہے ہوں گے اور اپنے اردگرد کے موجود معاملات پر بھی فکر مندی میں مبتلا ہو چکے ہونگے۔ دوسرے شہروں سے آنیوالے قافلوں کو باعزت واپسی کا راستہ اختیار کرنے دینا چاہئے اور یہ ”ڈھول ڈھمکا“ بند کر دینا چاہئے تاکہ فلسطین پر جاری اسرائیلیوں کے ظلم کیخلاف مشترکہ آواز اٹھائی جا سکے۔ جو جغرافیائی طور پر بھی ہم سے دور ہو کر بھی ہمارے دلوں کے قریب ہے ....
اتنا نہ تیز کیجئے ڈھولک کی تھاپ کو
رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں!
معزز مہمانوں کی واپسی کا اہتمام کیجئے!
Aug 23, 2014