وزیراعظم میاں نوازشریف نے قومی اسمبلی کی گزشتہ روز کی متفقہ قرارداد کی روشنی میں اپنے منصب سے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا اور کہا ہے کہ اگر انہوں نے استعفیٰ دے دیا تو ملک بحران کا شکار ہو جائیگا۔ جمعرات کے روز اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات کیلئے ہم پہلے بھی تیار تھے‘ اب بھی تیار ہیں‘ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ لاشیں گریں مگر ہم دھرنوں پر طاقت کا کبھی استعمال نہیں کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تیسری قوت کی مداخلت کی سوچ اپنے ذہن میں نہیں لانا چاہتے‘ وہ فوجی اور سول تعلقات پر مطمئن ہیں۔ 12 میں سے 11 جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں اس لئے بیشک دھرنا جاری رہے‘ حکومت کو اس سے کوئی فرق پڑتا ہے نہ ہم طاقت استعمال کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ مظاہرین میں بچے اور خواتین ہیں جن کا ہمیں بہت خیال ہے‘ ہم صورتحال کا پرامن حل نکالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دھرنوں کی سیاست سے حکومت کو نہیں بلکہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔ ان حالات کے باعث ہی مالدیپ اور سری لنکا کے صدور کا دورہ ملتوی ہو چکا ہے۔ اب چین کے صدر کا دورہ قریب آرہا ہے‘ اگر یہی صورتحال رہی تو ان کا دورہ بھی ملتوی کرنا پڑیگا۔ انکے بقول اگر اپوزیشن کی جانب سے انکے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جاتا تو وہ اس پر غور کر سکتے تھے مگر ماورائے آئین مطالبات نہیں مانے جا سکتے۔
دریں اثناء صدر مملکت ممنون حسین سے وزیراعظم کی ملاقات کے موقع پر بھی اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ملک میں جمہوریت کو کسی صورت پٹڑی سے نہیں اترنے دیا جائیگا اور نہ ہی وزیراعظم کسی غیرآئینی مطالبے پر مستعفی ہونگے۔ حکمران مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنمائوں کی وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کے موقع پر بھی دوٹوک الفاظ میں باور کرایا گیا کہ وزیراعظم کے استعفیٰ اور اسمبلیوں کی تحلیل سمیت کوئی غیرآئینی اور غیرقانونی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائیگا۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جمہوری قوتیں پارلیمنٹ اور سسٹم کو گزند تک نہ پہنچنے دینے کے عزم پر کاربند ہو چکی ہیں‘ جس کی واضح جھلک قومی اسمبلی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد میں موجود ہے‘ جو جمہوریت کیخلاف سازشوں کے تانے بانے بننے والے عناصر کیلئے ایک واضح پیغام بھی ہے کہ اب ماضی کی طرح کوئی پارلیمانی جماعت ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کو اپنا کندھا پیش کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس تناظر میں قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد کو ایک نیا میثاق جمہوریت بھی کہا جا سکتا ہے جو قوم کے نمائندہ منتخب فورم پر طے پایا ہے اس لئے بظاہر تو عمران خان اور طاہرالقادری کی غیرمنطقی احتجاجی تحریک سے سسٹم کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا کوئی اندیشہ لاحق نہیں اور وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی اسی تناظر میں فوجی اور سول تعلقات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تاہم عمران خان نے جمعرات کی شب ڈی چوک پر دھرنا دینے والے اپنے کارکنوں سے اپنے جلالی خطاب میں وفاقی سیکرٹری داخلہ اور قائم مقام آئی جی پولیس اسلام آباد کو للکارتے ہوئے جس معنی خیز انداز میں اعلان کیا کہ ہفتے کی شام تک ’’امپائر‘‘ کی انگلی کھڑی ہو جائیگی‘ اس سے بادی النظر میں سیاسی حلقوں میں یہی تاثر پیدا ہوا کہ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنے کی سیاست کا کھیل کسی ایسے مشاق ڈائریکٹر کی زیر ہدایت ہی سٹیج پلے کیا جا رہا ہے جو اس سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ عمران خان نے بعدازاں اپنے بیان کی وضاحت کی کہ ’’امپائر‘‘ سے انکی مراد عوام ہیں‘ مگر چودھری شجاعت حسین نے اسی روز امریکی اور چینی سفیروں اور پاکستان بار کونسل کے وفد سے ملاقاتوں کے دوران بات چیت میں یہ دعویٰ کر دیا کہ فوج نے سیاسی بحران کے حل کیلئے حکومت کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ حساب کتاب سے یہ 48 گھنٹے ہفتے کی شام ہی کوپورے ہوتے ہیں جبکہ چودھری شجاعت حسین کے بقول آرمی چیف سمیت پوری فوج میاں نوازشریف سے ناراض ہے اور سیاسی بحران سے نکلنے کیلئے آئینی حل تیار کرلیا گیا ہے۔ ایسے ہی کسی آئینی حل کی جادو کی پڑیا عمران خان کی جیب میں بھی ڈالی گئی ہو گی جس کی بنیاد پر انکی زبان سے اسلام آباد پہنچنے سے قبل ہی ٹیکنوکریٹ حکومت کا لفظ پھسل گیا جس پر انکی پارٹی کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی ناراض ہو کر ملتان چلے گئے تو عمران خان نے ٹیکنوکریٹ حکومت کے لفظ کو غیرسیاسی حکومت میں تبدیل کر دیا۔ اسی تناظر میں تین روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر کے ازخود جاری کئے گئے بیان کا جائزہ لیا جائے تو دال میں کچھ کالے کا شائبہ گزرتا ہے چنانچہ اس فضا میں ہی سیاسی پنڈت کڑیاں ملاتے ہوئے جمہوریت کو لاحق کسی خطرے کی نشاندہی کررہے ہیں جبکہ گزشتہ 9 روز سے عمران خان اور طاہرالقادری دھرنے پر بیٹھے اپنے مرد و خواتین ورکرز کو مسلسل ہلہ شیری دے رہے ہیں‘ ان میں انقلاب کی پڑیا بانٹ رہے ہیں اور آزادی کا جشن منانے کا سامان کئے بیٹھے ہیں اور اب تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفے سپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرکے سسٹم کے کھوکھلا ہونے کا تاثر مزید پختہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انکے سراسر ماورائے آئین تقاضوں اور امن عامہ میں خلل ڈالنے والے اقدامات کی بنیاد پر تو ان پر قانون کی عملداری لاگو ہو جانی چاہیے تھی۔ ایسا نہ ہونے دے کر پارلیمنٹ اور حکومتی ریاستی اتھارٹی کے کمزور ہونے کا تاثر ہی پیدا کیا گیا ہے اس لئے یہ صورتحال تو وزیراعظم نوازشریف کے اظہار اطمینان کے باوجود جمہوریت پر خطرات کے گہرے بادلوں کے منڈلانے کی نشاندہی کررہی ہے اس لئے پارلیمانی لیڈران کو قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد پر ہی مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے بلکہ موجودہ سیاسی بحران سے عہدۂ برأ ہونے کیلئے بھی کسی سیاسی حل پر متفق ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بحران کے حل کا جو فارمولا پیش کیا ہے‘ وزیراعظم اس پر سنجیدگی پر غور کریں اور اسے قابل عمل اور دھرنا سیاست والوں کیلئے قابل قبول بنانے کی کوشش کریں۔ اس فارمولے کے تحت عمران خان کے مطالبات کی ترجیحات تبدیل کرکے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ آخری ترجیح میں رکھنے کی تجویز دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ عمران خان کے چھ مطالبات مان لئے جائیں اور عدالتی کمیشن میں انتخابی دھاندلیوں کا الزام ثابت ہو جائے تو میاں نوازشریف استعفیٰ دے دیں۔ اسی طرح انہوں نے عمران خان پر بھی زور دیا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین بن جائیں تو ہم ان کا ساتھ دینگے۔ چودھری شجاعت حسین کیلئے ان کا یہ مشورہ بھی درست ہے کہ وہ اپنی لڑائی کا بدلہ آئین سے نہ لیں‘ یقینی بات ہے کہ سید خورشید شاہ نے مفاہمت کا یہ فارمولا اپنی پارٹی قیادت کی مشاورت سے ہی پیش کیا ہو گا جس کا عندیہ سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری کے اس بیان سے بھی ملتا ہے کہ ہم سب کچھ بھلا کر جمہوریت کی بقاء کیلئے ’’چھوٹے بھائی‘‘ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ آج زرداری صاحب کو وزیراعظم نوازشریف نے کھانے پر بلا رکھا ہے‘ اس موقع پر وہ وزیراعظم کو مزید مشوروں سے نوازیں گے۔
پارلیمنٹ میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی جانب سے وزیراعظم نواشریف پر اعتماد کے اظہار کے بعد اب سیاسی بحران سے عہدہ برأ ہونے کیلئے گیند انہی کی کورٹ میں آگئی ہے۔ اگر وہ اپوزیشن لیڈر کے مفاہمتی فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کے اقدامات اٹھاتے ہیں تو اسکے بعد قوم بھی ماضی جیسے کسی ماورائے آئین اقدام کا کوئی عذر تسلیم نہیں کریگی۔ یقیناً آنیوالے لمحات انتہائی اہم ہیں جن میں بالخصوص حکومت کو فہم و تدبر کا مظاہرہ کرنا ہے۔ جمہوریت کی گاڑی ٹریک سے ہٹانے کی راہ ہموار کرنیوالوں کو تو شاید ابھی تک یہ احساس نہیں ہو پایا کہ فسادی سیاست کے ممکنہ نتیجہ میں انکے اپنے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئیگا مگر جو سیاست دان پہلے بھی متعدد بار ڈسے جا چکے ہیں‘ انہیں اب ممکنہ نئے جھٹکے سے جمہوریت کو بچانے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے‘ بے شک اس کیلئے انہیں کسی قسم کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
وزیراعظم کا فوجی اور سول تعلقات پر اطمینان کا اظہار‘عمران کی امپائر کی انگلی اٹھنے کی درفنطنی اور خورشید شاہ کا مفاہمتی فارمولا…سسٹم کو بچانے کیلئے گیند اب حکمرانوں کی کورٹ میں ہے
Aug 23, 2014