جب ضد اور تکبر ایک ہو جاتا ہے؟

عمران خان آج کل للکارتا ہے اور پھنکارتا ہے۔ جو زبان اس نے استعمال کی ہے یہ سب بڑے سیاستدان کر چکے ہیں۔ بھٹو صاحب سے لے کے ن لیگ کے لوگوں تک؟ اب امریکہ بھی عمران کی زد میں ہے اور وہ ضد میں ہے۔ زد اور ضد میں فرق مٹ گیا ہے۔ بلکہ دونوں کی حد ہو گئی ہے۔ امریکہ کے لئے یہ پکار بھی کوئی نئی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھٹو صاحب بھی امریکہ پر گرجے تھے۔ انہیں امریکی وزیر خارجہ کسنجر نے عبرت کا نشان بنانے کا اعلان کیا تھا۔ پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ کے بہت دوست جنرل ضیاءکے ساتھ کیا ہوا۔ بے نظیر بھٹو نے امریکی معاہدے کی خلاف ورزی کا سوچا ہی تھا اور کیا ہوا؟ اب عمران خان کسی ڈیل یا گرانڈیل میں نہیں ہے تو وہ بھی سوچ لے کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اگر نہیں ہوتا تو پھر ثابت ہو گیا کہ وہ بھی امریکہ کا آدمی ہے۔ مولانا فضل الرحمن تو عمران کو یہودیوں کا آدمی کہتے ہیں۔ وہ جانیں اور فضل الرحمن۔ قادری صاحب بھی مولانا فضل الرحمن کا نام مذاق میں اور سخت مخالف کے طور پر لیتے ہیں۔ علامہ طاہر قادری نے انقلاب مارچ کے ”دھرنیوں“ کو نوید دی کہ یہ نفلی اعتکاف ہے۔ انہوں نے لاہور میں شہر اعتکاف بسایا تھا۔ وہ بھی مذہبی دھرنا ہی تھا۔ طاہر قادری کی ناکامی سے مذہب کو بھی دھچکہ لگے گا مگر میں عشق رسول کے سلامت رہنے کی دعا کرتا ہوں۔ عشق رسول ہی مسلمانوں کے لئے آخری ہتھیار ہے۔ دشمن بھی اس جذبے سے ڈرتے ہیں۔
ممتاز صحافی برادرم خوشنود علی خان نے بڑی جرات اور مہارت سے باتیں کی ہیں جو روٹین کے رٹے رٹائے تجزیوں سے مختلف ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے حوالے سے نئی صورتحال کو معنی خیز اور خطرناک قرار دیا ہے۔ امریکہ اپنے لوگوں سے بھی اپنے خلاف باتیں کرواتا ہے مگر جب وہ جیت کر آتا ہے تو امریکہ کی پالیسی کے مطابق چلتا ہے۔ امریکہ بہت گہری چالیں چلتا ہے۔ دشمن کی بات تو الگ ہے وہ دوستوں کو بھی بے خبر رکھتا ہے۔ جنرل ضیا جو امریکہ کا محسن تھا۔ روس کو افغانستان سے نکالا جب یہاں ایک بھی امریکی سپاہی نہ تھا۔ اب نیٹو کی فورسز بھی امریکی فوج کے ساتھ ہیں اور وہ افغانسان سے جانے کی تیاریوں میں ہے مگر خطے کو اپنے حق میں چھوڑ کر جانا چاہتے۔ اس کے لئے اسے پاکستان کی ضرورت ہے مگر امریکہ بھارت کے پلڑے میں رہنا چاہتا ہے اور یہ خسارے کا سودا ہے۔ وہ پاکستان کو بھی بھارت کے تھلے لگانا چاہتا ہے۔ دلیر اور دانشور جنرل حمید گل کی بات قابل غور ہے۔ ہم نے امریکہ کی مدد سے روس کو نکالا۔ اب امریکہ کو امریکہ کی مدد سے نکالیں گے۔ امریکہ کے لئے نکالنے کا لفظ ٹھیک نہیںہے۔ امریکہ کو نکلنے میں مدد دیں گے اور ہمیں امریکی مدد بھی حاصل ہو گی۔ امریکہ سے دشمنی ممکن نہیں اور نہ ہی اچھی ہے۔ امریکہ کی دوستی اور دشمنی دونوں کے لئے بڑی احتیاط اور سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔ شاہ ایران کی ”ابدی“ شہنشاہیت کو زوال آیا۔ اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے امریکہ کی حمایت نے مروایا ہے۔ امریکہ اتنا ہوشیار ہے کہ وہ جن کی حمایت کرتا ہے اور جس کی مخالفت کرتا ہے دونوں سوچتے ہیں کہ ان کا کیا بنے گا۔ بنے گا وہی جو امریکہ چاہے گا؟ عمران نے جو کہا اس کے ساتھی پریشان ہیں مگر اس سے اس کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سنبھالا مل گیا ہے۔ عمران کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کے لئے قابل قبول نہ ہو گا۔ وہ غصے میں تھا۔ وہ باہر آیا تو اس کے سامنے 200 سے زیادہ لوگ نہ تھے۔ آدمی غصے میں اور مایوسی میں کہاں سے کہاں نکل جاتا ہے۔
لوگ حیران ہیں حکومت پریشان ہے کہ صبح کے وقت ویرانی ہوتی ہے۔ رات کو دھرنے میں بڑی رونق لگ جاتی ہے۔ جو حکومت کی طرف سے ہو گا۔ صبح کے وقت ہو گا۔ حکومت مارچیوں کو اندر سے توڑنا چاہتی ہے۔ کنٹینرز کھڑے کر کے کوئی چیز اندر نہیں جانے دی جا رہی ہے۔ نہ کھانا نہ پانی اس صورتحال کو قادری صاحب نے کربلا سے تشبیہ دی ہے۔ خوشنود علی خان نے بتایا ہے کہ اب آنسو گیس کی بجائے نرو (Nerves gas) استعمال ہو گی۔ جس سے تھکے اور بھوکے پیاسے لوگوں کے اعصاب نڈھال ہو جائیں گے۔ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ پاک فوج نے کہا ہے کہ اب سیاستدان خود مسئلے کا حل کریں۔ انہوں نے یہ بات مان لی ہے کہ وہ سیاست میں نہیں پڑیں گے۔ مگر سیاست انہیں پڑ گئی تو پھر کیا ہو گا؟ ہم ریاستی عمارات اور اثاثوں کا تحفظ کریں گے مگر لوگوں کو بھی نہیں ماریں گے۔ گولی نہیں چلائیں گے۔
سیاستدانوں پر بڑی آزمائش کا وقت آیا ہے۔ سیاست کو جینوئن عمل بنائے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ عمران صرف جارحانہ غیردوستانہ خطابات کے ذریعے ماحول کو گرما سکتے ہیں۔ نوازشریف کو ہٹاﺅ اور مجھے وزیراعظم بناﺅ۔ کسی نے انہیں کیا بنانا ہے وہ خود بخود وزیراعظم ہیں۔ ”فلاں کو نہیں چھوڑوں گا“ تو وہ کس حیثیت میں یہ بات کرتا ہے۔
نوازشریف نے وزیر مشیر بنائے ہیں وہ کسی کام کے نہیں ہیں۔ یہ میں نے نہیں کہا۔ بہت دلیر اور وکیلوں کی لیڈر عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں وہ نوازشریف کے لئے حمایت کا انداز رکھتی ہیں۔ ان کی بات پر دھیان دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بحران نوازشریف کے وزیروں‘ مشیروں نے بڑھایا ہے یقیناً ایسی درفنطنی نے ہی معاملات بگاڑے تھے کہ ہم دلیل والوں کے ساتھ ہیں غلیل والوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ اب غلیل والوں کو اپنا ساتھ دینے کے لئے بلایا گیا ہے۔ انہوں نے غلیل نہیں چلائی اور صورتحال پر اپنے طور پر کنٹرول پا لیا ہے۔ نوازشریف کے پاس پارلیمنٹ میں آنے اور اپنے سینئر دوستوں سے ملنے کا وقت نہیں ہے تو یہ وقت آیا ہے نوازشریف اپنی ٹیم تبدیل کریں۔
عمران نوازشریف سے کہتا ہے کہ تم پاکستان کے حسنی مبارک ہو۔ حسنی مبارک کے بعد منتخب جمہوری صدر مرسی کا کیا ہوا۔ اور اب جنرل السیسی صدر ہے جسے فون پر صدر مرسی نے آرمی چیف بنایا تھا۔ یہ امریکہ کا کیا دھرا نہیں ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان سے بات ہوئی۔ انہوں نے شعیب بن عزیز کے لئے بڑی محبت کا اظہار کیا اور اپنی ایک نئی نظم سنائی کہ شعیب بن عزیز بھی خوش ہونگے۔
اینج ہوندا اے اُس ویلے
جدوں حد غرور دی مُک جاندی اے
مچھل جنہاں ڈاہڈا ہووے
مچھ دی ڈاہلی جھک جاندی اے
جدوں لسے بندے رو پیندے نیں
اینج ہوندا اے اس ویلے
شیخ رشید کہتا ہے کہ اب ”سریا“ کی بجائے گاڈر نواز شریف کی گردن میں آ گیا ہے۔ مگر شیخ صاحب نے نہیں دیکھا کہ عمران کس قدر غرور اور خود پسندی میں آیا ہواہے؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...