لاہور (تجزیہ: ایف ایچ شہزاد) سیاسی معاہدے سے بالاتر ہوکر دیکھا جائے تو الیکشن ٹربیونل کی طرف سے این اے 122 کے انتخابات کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد تحریک انصاف کو الیکشن 2013ء میں دھاندلی کا از سر نو ایشو اٹھانے کا آئینی و قانونی جواز مل گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت تشکیل پانے والے الیکشن ٹربیونل نے وفاقی وزیر کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کیخلاف فیصلہ دیا ہے، اب تحریک انصاف آئینی و قانونی طور پر جوڈیشل کمشن کی رپورٹ کو اعلیٰ عدالتوں میں اس استدعا کے ساتھ چیلنج کر سکتی ہے کہ جوڈیشل کمشن کی رپورٹ کو ری وزٹ کرنے کا حکم دیا جائے۔ جوڈیشل کمشن کے مقابلے میں الیکشن ٹربیونل ایک آئینی فورم ہے جس کے فیصلے کی اہمیت جوڈیشل کمشن کی رپورٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹربیونل نے دھاندلی کا لفظ استعمال کئے بغیر ایک خاص حد سے زیادہ ہونیوالی بے ضابطگیوں کی بنیاد پر ان 4 میں سے 2 حلقوں کے انتخابات کالعدم قرار دیدیئے ہیں جن کو کھولنے کا عمران خان نے مطالبہ کیا تھا۔ این اے 125 اور این اے 122 کے فیصلوں کے بعد تحریک انصاف کو ایک ٹھوس قانونی گرائونڈ میسر آ گئی ہے کہ وہ اس نکتے پر بھی اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرے کہ جوڈیشل کمشن نے فارم 15 نہ ملنے پر زائد بیلٹ پیپرز کی چھپائی، ریٹرننگ افسروں کی طرف سے قانونی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے اور الیکشن کمشن کی متعدد بے ضابطگیاں ثابت ہونے کے باوجود مزید تحقیقات کیوں نہ کروائیں۔ سپریم کورٹ میں ممکنہ اپیل میں حکم امتناعی ملنے کی صورت میں بھی ایاز صادق کیلئے سپیکر کے عہدے پر کام کرنا ممکن نہیں رہیگا کیونکہ ٹربیونل کے فیصلے نے انکی رکن اسمبلی کی اہلیت مشکوک کر دی ہے۔
تحریک انصاف کو دھاندلی کا ایشو دوبارہ اٹھانے کا آئینی و قانونی جواز مل گیا
Aug 23, 2015