اسلام آباد (بی بی سی) سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے فوجی عدالتوں سے موت کی سزا کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں درخواست دائر کرنے کے لیے ضروری دستاویزات فراہم کرنے سے متعلق دائر کی گئی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے اس درخواست کو متعلقہ فورم یعنی ہائی کورٹ میں دائر کیا جائے۔ یہ درخواست فوجی عدالت سے موت کی سزا پانے والے سوات کے رہائشی مجرم حیدر علی کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔ حیدر علی اُن پہلے چھ مجرموں میں شامل ہیں جنہیں فوجی عدالتوں نے کچھ عرصہ قبل سیکیورٹی فورسز اور اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے کا الزام ثابت ہونے پر موت کی سزا سنائی تھی۔ درخواست گزار کے وکیل ذوالفقار بھٹہ نے بتایا اُنہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں اس سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی تاہم عدالت عالیہ نے یہ درخواست اعتراض لگا کر واپس کر دی تھی کہ اس کے ساتھ نہ تو فوجی عدالت کے فیصلے کی نقل ہے اور نہ ہی متعلقہ دستاویزات لف کی گئی ہیں۔ اُنہوں نے کہا فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ کوئی بھی مجرم خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ ذوالفقار بھٹہ نے الزام عائد کیا عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجود متعلقہ ادارے فوجی عدالتی فیصلے کی نقول فراہم نہیں کر رہے۔ وکیل کے مطابق ان کے موکل کو 2009ءمیں عیدالفطر کے روز سوات سے اٹھایا گیا اس وقت اس کی عمر 15 سال سے کم تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ مجرم حیدر علی کے گھر والوں کو اس سال رمضان میں آگاہ کیا گیا کہ ا±ن کے بیٹے کو سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملہ کرنے کے مقدمے میں موت کی سزا سنائی گئی ہے تاہم ا±نھیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس فوجی عدالت کی طرف سے ا±نھیں مجرم گردانتے ہوئے موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
رجسٹرار آفس