پاکستان 'افغانستان اور جنوبی ایشیا بارے ٹرمپ کا پالیسی بیان' وہی پرانی باتیں وہی پرانی گھاتیں' سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ افغانستان میں فوجی قیام میں توسیع کے بارے میں نیویارک ٹائمز نے گزشتہ ماہ رپورٹ شائع کی تھی کہ امریکی اشرافیہ کھربوں ڈالر مالیت کی افغان معدنیات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اس لئے اب افغانستان میں امریکی افواج کی مستقل موجودگی کیلئے نئے جواز تراشے جا رہے ہیں جن کا اعلان ٹرمپ نے آج کردیا ہے جس میں کوئی نئی بات نہیں‘ صرف افغانستان میں بھارت کے ممکنہ کردار کی نئی پخ لگائی گئی ہے لیکن جوش جذبات میں ٹرمپ ظالم زمینی حقائق کو بھلا رہے ہیں کہ امریکی افواج کو سامانِ رسد کے سارے راستے پاکستان سے گزرتے ہیں، سلالہ چوکی پر حملے کے بعد جب پاکستان نے نیٹو افواج کو پاکستان کے راستے ہرقسم کی سپلائی روکی تھی تو امریکیوں نے روس کے ذریعے سپلائی بحال کر نے کوشش کی جس کے نتیجے میں ایک مہینہ تاخیر سے سپلائی پہنچتی تھی اور اخراجات ناقابل برداشت تھے جس کے نہ چاہتے ہوئے بھی متکبر امریکیوں کو پاکستان سے معافی کا ڈرامہ کرنا پڑا تھا۔ اب روس امریکہ تعلقات کشیدگی کی انتہا کو چھو رہے ہیں‘ اس لئے نارتھرن روٹ استعمال کرناممکن نہیں ہوگا ۔ ان حالات میں پاکستان کو صدر ٹرمپ کی دھمکیاں احمقانہ بڑھک بازی سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتیں۔ صدر ٹرمپ روایتی رنگ بازوں کی طرح ہمیں ڈرانے دھمکانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ رائے عامہ افغان جنگ کے شدید خلاف ہے۔ افغانستان میں مزید فوج بھیجنے پر تو ٹرمپ کو ڈیموکریٹس کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت ری پبلکنز کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑیگا‘ اسی لئے صدر ٹرمپ نے افغانستان بھجوائے جانے والی فوج کی تعداد اور وقت کا تعین نہیں کیا۔ پاکستان پر تنقید تو معمول کا عمل ہے جو سارے امریکی وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ پاک افغان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے جناب ٹرمپ کی یہ بات بڑی دلچسپ کی ہے کہ چونکہ بھارت امریکہ کے ساتھ تجارت میں بہت پیسے کماتا ہے اس لئے اب ہندو بنیا افغانستان میں سرمایہ کاری کرے اور جنگ میں امریکہ کا ہاتھ بٹائے۔ بھارتی سول اور فوجی قیادت کا ردعمل صاف جواب میں ہوگا کیونکہ بھارتی فوج پہلے ہی کشمیر میں ذلیل ہو رہی ہے اس لئے افغانستان میں نیا محاذ کھول کر آفتوں اور مصیبتوں کو اپنے گھر کی راہ نہیں دکھائی گئی۔ صدر ٹرمپ طبعاً بنیا ہیں‘ ہر وقت پیسے گنتے رہتے ہیں۔
اب تک گذشتہ 16 برس میں 6 کھرب (ٹریلن) ڈالرخرچ کرچکے ہیں لیکن اب ٹرمپ بتا رہے ہیں کہ صرف افغانستان میں وہ 800 بلین ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمیں اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے طعنے دیتے ہیں۔ شاطر امریکیوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں کیا کھویا اور کیا پایا ہے خود صدر ٹرمپ نے صدر بننے سے پہلے بلکہ نامزد گی سے بھی بہت پہلے افغان جنگ کو امریکہ کیلئے مکمل تباہی قرار دیا تھا۔ آج انہوں نے کہا کہ میں افغانستان سے افواج کی فوری واپسی کے حق میں تھا لیکن جب صدر کی کرسی پر بیٹھا ہوں بریفینگز دی گئی ہیں تو علم ہوا ہے کہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اب میں نے مقامی فوجی کمانڈروں کو مکمل اختیارات دے دیئے‘ وہاں جو چاہیں وہ کریں صدر ٹرمپ بھول رہے ہیں کہ میدان جنگ میں ہمیشہ فیلڈ کمانڈر "بادشاہ" ہوتا ہے‘ مکمل بااختیار جناب ٹرمپ آپ کی تقریر سے پہلے بھی یہی ہورہاتھا۔ کیا امریکی فورسز پوچھ کے طالبان کے خلاف ایکشن لیتی تھیں۔ ایسا کچھ نہیں صرف ڈرونز حملے کےلئے اوباما کے زمانے میں پیشگی اجازت لینی پڑتی تھی باﺅلا کتا کے نام سے مشہور جنرل میٹس نے اعلان کیا تھا کہ ڈرونز حملوں کیلئے صدر کی پیشگی اجازت کی ضرورت نہیں رہی۔
مجموعی طور پر صدر ٹرمپ کی تقریر راویتی لاف گزاف پر مبنی جھوٹے دعوے تھے جن کا مخاطب افغان حکام یا پاکستان نہیں' سادہ لوح امریکی عوام تھے جن کو انہوں نے بخوبی بےوقوف بنا لیا ہے اور بہتر انداز میں اسے کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی کہانی قرار دیا جا سکتا ہے ۔یہ 1938 میں فوت ہو جانے والے علامہ اقبال تھے جنہوں نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیاتھا اور یہ حیرت انگیز تاریخی حقیقت کچھ یوں بیان کی تھی کہ اگر افغانستان میں امن ہوگا تو پورا ایشیا امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ افغانستان کی خرابی پورے ایشیا کی خرابی ہے۔
ٹرمپ نے جنگ افغانستان کی نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے پہلا نوکیلا پتھر ہمارے آنگن میں پھینکا ہے، روس کی مدد سے اوول آفس پہنچنے اور اسکے ڈیسک سے مختلف منظر دیکھنے سے قبل کیا اچھا ہوتا اگر ٹرمپ اپنے روسی ہم منصب پوٹن سے آنجہانی سویت یونین کی افغانستان بارے تاریخ کا کچھ حال احوال جان لیتے۔ ایشیاکے قلب پر نئی دھار لگی تلوار سے وار دراصل ابھرتے، ترقی کرتے ایشیا کو ذبح کرنے کی تیاری ہے۔کیاجنگ ہمارے صحن میں آن پہنچی ہے؟ افغانستان کبھی باغوں، بہاروں اور مرغزاروں کیلئے مشہور تھا۔ ماضی کی داستانیں پرستان کی کہانیاں بن کررہ گئی ہیں جنہیں معصوم اور سفاک انسانی رویوں سے دور رہنے والے پاکیزہ روح نونہال حیرت سے سنتے سوجاتے تھے۔ افغانستان کے بچوں کا لیکن یہ مقدر نہیں۔ ایک کے بعد دوسرے عالمی کھلاڑی نے افغانستان کی خوبصورت یادوں کو ڈرانے خواب میں بدل کر رکھ دیا۔
ٹرمپ کو جس پراسرار انداز میں امریکی انتخابات میں کامیاب کرایاگیا، اسکے اصل مقاصد اب واضح ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ کا خاندانی کاروبار رئیل سٹیٹ بزنس ' زمینوں کی خریدوفروخت ہے جس میں وہ اوائل عمری میں شامل رہا۔ معاشیات کا سند یافتہ ٹرمپ لوگوں کو ارب پتی بنانے کیلئے رہنما کتابیں لکھ چکا ہے۔ ٹی وی سیریز میں اداکاری کے جوہر دکھا چکا ہے اسے زمین کی قدرو قیمت کا بھی اندازہ ہے، وہ سرمایہ کمانے کے گ±رسے بھی واقف ہے۔ جوئے کی نفسیات کےمطابق بڑا دا¶ لگانے کا خطرہ مول لینا اسکی فطرت میں شامل ہے۔ افغانستان کیلئے نئی امریکی حکمت عملی کا اعلان ایک فوجی اڈے سے خطاب میں کیاگیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں مزید ہزاروں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی راہ ہموار کرتے ہوئے امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے وعدے سے پھِر گئے جبکہ پاکستان پر دہشتگردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام دہرا دیا۔ بحیثیت کمانڈر اِن چیف امریکی قوم سے اپنے پہلے رسمی خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاءکے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ ’ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔ اس دھمکی میں سرمائے کا رنگ بھرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے انہی دہشت گردوں کو پناہ دئیے رکھی ہے جن کےخلاف ہماری جنگ جاری ہے۔ پاکستان کے اس رویے کو تبدیل ہونا چاہیے اور بہت جلد تبدیل ہونا چاہیے۔ دلچسپ حقیقت تو یہ ہے کہ افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دینے کے اپنے سابقہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’اوول آفس کی ڈیسک کے پیچھے سے صورتحال مختلف دکھائی دیتی ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان سے امریکی فوج کے تیزی سے انخلاءکی صورت میں ایک خلائپیدا ہوگا جسے دہشت گرد فوری طور پر بھر دینگے۔گو ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں تعینات کیے جانیوالے امریکی فوجیوں کی بارے تعداد سے متعلق خاموش رہے تاہم وائٹ ہاوس کے سینئر حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر اپنے سیکرٹری دفاع کو افغانستان میں مزید 3900 فوجیوں کی تعیناتی کا اختیار دے چکے ہیں۔ٹرمپ نے خبردار کیا کہ ’ان کا نقطہ نظر تصوراتی سے زیادہ حقیقت پسندانہ ہوگا۔امریکی فوجی امداد ’بلینک چیک‘ نہیں، ہم قوم کی دوبارہ تعمیر نہیں کررہے، ہم دہشت گردوں کا صفایا کررہے ہیں۔‘عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ امریکی صدر نے طالبان سے سیاسی سمجھوتے کا اشارہ بھی دیا کہ ’موثر فوجی کوششوں کے بعد ممکن ہے کہ ایسا سیاسی تصفیہ ہوجائے جس میں افغانستان میں موجود طالبان عناصر بھی شریک ہوں تاہم کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہوگا لیکن امریکا طالبان کا سامنا کرنے کیلئے افغان حکومت اور فوج کی حمایت جاری رکھے گا۔ ( جاری)
دوسری جانب جنوبی ایشیاءمیں اہم اتحادی بھارت سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کا محبت بھرا اظہار کچھ یوں تھا کہ ’امریکا افغانستان میں استحکام کیلئے بھارتی کردار کو سراہتا ہے۔ بھارت امریکا کے ساتھ تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کرتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کیلئے مزید کام کرے۔‘عالمی تجزیہ کار پہلے سے ہی اس حقیقت کو بار بار واضح کررہے ہیں کہ مشرق وسطی خاص کر شام میں فتنہ پرور سپاہ اورفساد فروش گروہوں کا رخ اب افغانستان کی طرف موڑا جاچکا ہے۔ یہ وہ پلاٹ ہے جس پر نئے قبضے کے ساتھ نئی کمک نئے منصوبے کے ساتھ آن وارد ہوئی ہے۔ کٹھ پتیلوں کا شور شرابہ اپنی جگہ، امن، ترقی، خوشحالی، جمہوریت اور نجانے کیاکیا دلفریب نعرے ایک طرف رکھ کر ’گوراصاحب‘ کی ’فطرت‘ بارے کوئی شک نہیں رہاکہ مشرق سے سورج کو ابھرنے سے روکنا ہی اہل مغرب کی اولین ترجیح بن چکا ہے۔ ٹرمپ امریکہ میں وہی کردار ادا کررہا ہے جو مودی بھارت میں انجام دے رہا ہے۔ افغانستان میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والی کو جو نارنگ منڈی لگی ہے، دنیا کو ایک شاہراہ کے ذریعے ترقی سے جوڑنے کی خواہش میں لئے ہمارے چینی دوست امریکی عیاروں کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی امریکی پالیسی کا محور صرف چین تک محدود نہیں، عسکری حکمت کاری اور پرکاری کو جاننے والے اسکے اثرات کا دائرہ وسیع دیکھتے ہیں۔ چین اس کا اہم ہدف البتہ ضرور ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مزید جزئیات اصل اہداف کو بھی منکشف کردیں گی۔ تہذیبوں میں لڑائی کے سنسنی خیز سکرپٹ کی شوٹنگ کا جو سامان مشرق وسطی سے اب افغانستان منتقل کیاجارہا ہے، حرف آخر یہ کہ امریکہ میں مدتوں سے مقیم یارِ دلدار اپنے صدر ٹرمپ سے کہہ رہے ہیں ۔
صدر محترم جناب ٹرمپ صاحب ! آپکے دئیے گئے پیسے مشرف ، کیانی ، آصف زرداری ، نواز شریف و دیگر بڑی حفاظت کے ساتھ امریکا اور برطانیہ واپس لا چکے ہیں ... ویسے یاد دہانی کرا دوں یہ رقم آپ کے پیشروو¿ں نے پاکستانی راہداری ، ہوائی اڈے ، فوج ، میڈیا ، مترجم ، افغانی و عربی طالبان کے بدلےمیں ادا کرنی تھی جسے کولیشن سپورٹ فنڈ بھی شاید کہتے ہیں اور جسکا ایک حصہ ابھی تک آپ پہ واجب الادا ہے .....باقی ایک لاکھ پاکستانیوں کے خون کا کوئی حساب نہیں ... خون شہید ان تھا رزقِ خاک
ٹرمپ تقریر .... کھودا پہاڑ نکلا چوہا
Aug 23, 2017