اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ کیا کہ نجی کمپنی نے نیشنل ہائی وے پولیس کو یونیفارم کیلئے غیر معیاری کپڑا فراہم کرکے دو کروڑ انیس لاکھ کاادارے کو نقصان ہوا ہے غیر معیاری کپڑا خواجہ ناصر الدین اینڈ سنز نامی نجی کمپنی نے فراہم کیا لیبارٹری ٹیسٹ میں کپڑا اور اس کا معیار ٹینڈر کئے گئے کپڑے سے مختلف نکلا، مجموعی طور پر 72 ہزار پانچ سو بانوے میٹر کپڑا درکار تھا، چار سال سے ذمہ داروں کا تعین ہوا نہ سزا ملی، پی اے سی نے ایک ماہ میں انکوائری رپورٹ طلب کر لی۔خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس این ایچ اے اور موٹر وے پولیس کے مالی سال 2014-15کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ۔ آڈٹ حکام کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ موٹروے پولیس نے خلاف قواعد خفیہ ادارے سے 1کروڑ 12لاکھ روپے کااسلحہ اور ایمونیشن خریدا ،قواعد کے مطابق اسلحہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری سے خریدنا تھا ، اگر درکار چیز ان کے پاس نہ ہو تو باہر سے خریدی جا سکتی ہے ۔آئی جی موٹر وے پولیس شوکت حیات نے جواب دیا کہ خفیہ ادارے سے یہ اسلحہ مناسب نرخ پر خریدا گیا ۔ جس پر کمیٹی رکن چوہدری تنویر نے کہا کہ کیا خفیہ ادارے اسلحہ بیچنے کی مجاز ہے اس کیس میں آئی جی کو سزا دی جائے ، جن سے اسلحہ لیا گیا ان کو بھی بلایا جائے ۔جس پر قائم مقام چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا کہ شاید خفیہ ادارے کے پاس افغان جہاد کا اسلحہ پڑا ہو ،یہ معاملہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔اجلاس میںنئے آڈیٹر جنرل جاوید جہانگیر نے شر کت کی۔نئے آڈیٹر جنرل جاوید جہانگیر نے کہا کہ احتساب کے عمل کو مضبوط بنانے کیلئے پی اے سی کے ساتھ مل کر کردار ادا کریں گے، آڈیٹر جنرل آف پاکستان جاوید جہانگیر کو خورشید شاہ نے مبارک باددیتے ہوئے کہا کہ نئے آڈیٹر جنرل کے آنے سے وزارت کے آڈٹ کا طریقہ کار مزید متحرک ہوگا، آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کہا کہ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی آڈیٹر جنرل آفس کا دورہ کرے اور ورکنگ کے طریقہ کار کا جائزہ لے،چیئرمین این ایچ اے شاہد اشرف تارڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ سال وفاقی ترقیاتی پروگرام میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی گئی، تیسری سہ ماہی میں کٹوتی کر دی گئی جبکہ چوتھی سہ ماہی کے فنڈز جاری ہی نہیں ہوئے، قرضوں کی ادائیگی کیلئے ترقیاتی فنڈز میں کٹوتی کی گئی، ، پی اے سی میں پاکستان پوسٹ آفس کی گرانٹ کا جائزہ لیا گیا ۔ کمیٹی رکن شیری رحمان نے کہا کہ امریکہ یا برطانیہ میں پوسٹل سروسز ختم کر دی گئی ہیں، پاکستان میں محکمہ پوسٹ کو توسیع دی جارہی ہے، کیا ڈاکخانہ کو بھرتی خانہ سمجھ لیا گیا ہے؟ چیئرمین این ایچ اے شاہد اشرف تارڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ محکمہ ڈاک کی آمدن 11 ارب اخراجات 15 سے 16 ارب ہیں، تنخواہ اور غیر ترقیاتی اخراجات 80 فیصد ہیں، ڑ پاکستان پوسٹ میں 48 ہزار ملازمین ہیں اور بارہ ہزار ڈاکخانے ہیں،حکومت کو ہرسال پانچ سے چھ ارب روپ سبسڈی دینی پڑتی ہے، آئندہ تین سال میں محکمہ ڈاک کو منافع بخش ادارہ بنائیں گے، آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ نجی کمپنی نے نیشنل ہائی وے پولیس کو ماموں بنا دیایونیفارم کیلئے غیر معیاری کپڑا فراہم کرکے دو کروڑ انیس لاکھ کا چونا لگا دیا۔