اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) ٹرمپ انتظامیہ کی نئی جنوب ایشیائی اور افغان پالیسی پر بات چیت کیلئے وزیر خارجہ خواجہ آصف رواں ہفتہ کے اختتام پر واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق مذکورہ نئی پالیسی کے خدوخال کا پہلے سے علم ہونے کی بناء پر پاکستان نے پہلے سے دوست ملکوں کے ساتھ مشاورت شروع کر دی تھی۔ خارجہ سیکرٹری تہمینہ جنجوعہ کے رواں دورہ چین اور بیجنگ کی جانب سے پاکستان کے دفاع میں زوردار بیان کا اجراء اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ واشنگٹن میں قیام کے دوران خواجہ آصف امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن، امریکی سلامتی کے حکام اور ارکان کانگرس کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران امریکہ کی نئی پالیسی میں پاکستان پر عائد کئے گئے الزامات اور دبائو کو مسترد کرتے ہوئے افغان مسئلہ کے حل کیلئے پاکستان کی تجاویز کا اعادہ کریں گے۔ ان تجاویز میں، طاقت کے عدم استعمال اور افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف پراکسی وار کو ختم کروانے کی یقین دہانی کے مطالبہ کو مرکزیت حاصل ہو گی۔ اس ذریعہ کے مطابق ٹرمپ کی اعلان کردہ پالیسی میں تین باتیں نمایاں ہیں۔ پہلی منفرد بات یہ ہے کہ اوبامہ دور کی طرف افغانستان پاکستان پالیسی کے بجائے اسے جنوب ایشیائی اور افغان پالیسی کا نام دے کر بھارت کو اس میں واضح کردار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔اس پالیسی کی دوسری نمایاں بات یہ ہے کہ پاکستان پر محض ان پرانے الزامات کا اعادہ کیا گیا ہے جن کے بارے میں امریکہ کبھی ٹھوس شواہد یا ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ تیسری بات یہ ہے کہ امریکہ نے پہلی بار افغانستان کے حوالہ سے ، بھارت سے بھی ڈومور کا مطالبہ کیا ہے لیکن اس مطالبہ کے ذریعہ بھی افغانستان میں بھارت کے کردار کو تقویت دینے کا پہلو سامنے رکھا گیا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کے اس نازک موڑ پر خواجہ آصف کے اولین دورہ امریکہ کیلئے ریاستی اداروں کے مشاورت کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اس سلسلہ میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں تواتر سے اجلاس منعقد ہوتے رہے ہیں۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی مدد سے دفتر خارجہ نے امریکہ کی نئی پالیسی کا جائزہ مکمل کر کے اپنی سفارشات وزیر خارجہ کو پیش کر دی ہیں۔ امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران خواجہ آصف زور دیں گے کہ دہشت گردوں کے خلاف سرعت سے کارروائی کیلئے پاکستان اور امریکہ کے درمیان انٹیلی جنس تعاون کی روح پر عمل کیا جائے جس پر ایک دھائی سے دونوں ملکوں کا اتفاق چلا رہا ہے لیکن افغانستان میں امریکی مشن نے اس تعاون سے ہمیشہ پہلو تہی کی ہے۔ خواجہ آصف، پاکستان، امریکہ، چین اور افغانستان پر مشتمل اس چار ملکی میکنزم کی بحالی پر بھی زو دیں گے جس کا مقصد افغان فریقوں کے درمیان امن بات چیت شروع کروانا ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق امریکہ نے اپنی نئی پالیسی میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مکالمہ کی ضرورت پر تو زور دیا ہے لیکن اس ضمن مین کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا۔ جس سے یہ ضرورت پھر اجاگر ہو گئی ہے کہ چار ملکی میکزم سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔