اسلام آباد/ لاہور / قصور (سٹاف رپورٹر/نامہ نگار/ نمائندہ نوائے وقت، ایجنسیاں) بھارتی آبی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کے دریاؤں میں سیلابی صورتحال ہے قصور اور جھنگ میں درجنوں دیہات میں پانی داخل ہو گیا۔ قصور سے نمائندہ نوائے وقت کے مطابق دریا ستلج میں پانی کی سطح بتدریج کم ہونے لگی ہے۔ کیکر پوسٹ کے مقام پر پانی کی سطح 18.50فٹ پہنچ گئی جبکہ ھیڈ گنڈا سنگھ کے مقام سے پانی کا اخراج 55 ہزار کیوسک رہ گیا۔ پانی سے ہزاروں ایکٹر کھڑی فصلیں زیر آب آگئیں، جس سے کاشتکاروں کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ دریا کے کنارے نشیبی علاقی چندہ سنگھ والا،دھوپ سڑی، بگی مبو کے، بستی بنگلہ دیش، بھیکی ونڈ، حاکو والا سمیت درجنوں دیہاتوں میں پانی داخل ہو گیا جس کی وجہ سے مقامی لوگ کوشدید مشکلات کا سامنا ہے۔ فلڈ کنٹرول روم کے مطابق بھارت کی جانب سے چھوڑا گیا۔ پانی آج کوٹ مٹھن سے گزرے گا۔ سیلابی پانی سے تحصیل منچن آباد کے متعدد دیہات زیرآب آگئے ہیں۔ ادھر دریائے چناب کے سیلابی ریلے سے جھنگ کے درجنوں دیہات زیرآب آ گئے ہیں جبکہ سیلابی علاقوں میں قائم سرکاری سکول گرائونڈز میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے بند ہیں اور سینکڑوں طالب علم تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔راجن پور میں دریائے سندھ میں پانی کی بلند سطح برقرار ہے، احمد پور سیال سے نامہ نگارکے مطابق دریا میں طغیانی اور کٹائو نے تحصیل احمد پور سیال کے نشیبی علاقوں میں تباہی مچا دی۔ تھانہ گڑھ مہاراجہ اور تھانہ احمد پور سیال کی حدود میں واقع نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں جن میں موضع عنایت شاہ، موضع رنجیت کوٹ، موضع فقیر سیال اور سمندوآنہ کے علاقے شامل ہیں ۔دریائے ستلج میںممکنہ سیلابی علاقوں میں ریسکیو 1122کا فلڈ ریسکیوآپریشن جاری ہے۔ ترجمان ریسکیو پنجاب کے مطابق ریسکیو1122 اب تک 7539لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر چکا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے دو طرفہ معاہدہ کے برعکس پاکستان کو سیلابی پانی کے بارے میں درکار ڈیٹافراہم نہیں کیا۔ دو طرفہ معاہدہ کے تحت ہر سال بھارت کی طرف سے پاکستان کو یکم جولائی سے لے کر اکتوبر تک کا سیلاب کا ڈیٹا دیا جاتا تھا۔ اس معاہدے کی ہر سال تجدید ہوتی ہے۔ لیکن اس سال بھارت نے یہ ڈیٹا نہیں بھیجا۔ جس کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔