قصورکے صوفی بزرگ سید عبداللہ شاہ المعروف بابابلھے شاہ

Aug 23, 2019

حاجی محمد شریف مہر
hajisharifksr@gmail.com

قصور پنجاب کا قدیم اور تاریخی شہر ہے جو دنیا بھر میں اپنی اہمیت کا خو د حامل ہے قصور کی سر زمین پر اولیا اللہ کی بڑی تعداد موجود ہے اولیا ء سے نسبت ایمان کا حصہ ان سے محبت ایمان کا تقاضا اور ان کا شوق و ذوق ایمان کا شعور ہے پاکستانی سرزمین اولیاء اکرام سے زرخیز ہے اولیا اکرام پاکستان کی پہچان ہیں پاکستان کے ہر کونے میں اولیا ء اکرام کے مزارات موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر خاص رحمت ہے اولیاء کے دل نور مشاہدہ جمال باکمال ، مکاشفہ جلال لایزال سے منور اور روشن اور تاباں ہیں اولیا ء اکرام مشعل نور ہیں وہ تاریکی اور ظلمت کو دور کرنے والے ہیں وہ خلوص اخلاق عشق و محبت صدقوں صفا لطوفوں عطا ء اور وفاکا پیکر ہیں اخلاص ان کا ہتھیار ہے اور اخلاص ہی ان کی ڈھال ہے صدق ان کی تلوار تحمل ان کا شعار ہیں توکل و قناعت کی دولت ان کے پاس بے شمار ہیں بزرگان دین نے اپنے گفتار اور اپنے کردار سے ایک معیاری زندگی کا نمونہ پیش کیا کم کھانا کم بولنا ،کم سونا ،او ر لوگو ں سے کم میل جول رکھا ان کا طریقہ کار تھا عشق الہیٰ میں وہ ایسے سرشار تھے ان کو اپنی ہستی کا پتا نہ تھا پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سب زیادہ علماء اکرام کے مزارات ہیں انہیں اولیاء اکرام ،صوفی درویش بزوگوں میں سے پنجاب کے شہر قصور میں ایک صوفی بزرگ سید عبداللہ شاہ المعروف حضرت بابابلھے شاہ کے مزار پر262واں عرس مباک کی تیاریاں زور و شور پر ہیں عرس مبار ک ،ہفتہ،اتوار،پیر 24اگست 2019سے شروع ہو گا اور26اگست2019کو اختتام پذیر ہو گا حضرت بابا بلھے شاہ کاسالانہ عرس نہایت عقیدت و احترام اور شان وشوکت سے منایا جا تا ہے جس میں ملکی اور غیر ملکی عقیدت مند ہزاروں کی تعداد میں شرکت کریں گے عرس کی تیاریوں کیلئے شہر میں ہر طرف گہما گہمی ہے اور ہر طرف عید کا سماء ہو تا ہے عر س مبارک پر ملک بھر اور بیرون ملک سے آنے والے زائرین کا قصوریوں کی جانب سے جگہ جگہ استقبال کیا جاتا ہے اور زائرین کو مختلف طریقوں سے خوش آمدید کہا جاتا ہے دوران عرس محفل نعت ،محفل قوالی اور دیگر پروگراموں کا اہتمام کیا جا تا ہے جگہ جگہ زائرین کے پانی ،دودھ کی سبیلوں کے ساتھ ساتھ لنگڑ کا وسیع انتظام کیا جاتا ہے دور دراز اور بیرون ممالک سے آنے والے زائرین کی رہائش کے لئے خصوصی انتظامات کا اہتمام کیا جاتا ہے حضرت بابا بلھے شاہؒ مغلیاں سلطنت کے عالم گیری احد کی روح کے خلاف ردعمل کا نمایاں ترین مظہر ہے آپ کا تعلق صوفیاء کے قادری مکتبہ فکرسے ہے جبکہ آپ ؒ کی ذہنی نشوونما میں قادر یہ کے علاوہ شطاریہ فکر نے بھی بہت زیادہ نمایا اثر پیدا کیا ہے حضرت بابا بلھے شاہ کا نام سید عبداللہ ہے آپ ؒ کا نام آپ کے والدین نے عبداللہ تجویز کیا مگر آپ نے حضرت بابا بلھے شاہ ؒ کے نام سے شہرت پائی لوگوں کی بڑی تعداد آپ کے حقیقی نام سے بے خبر ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے کلام میں بھی خود کو بلھا ہ کہہ کر پکارہ ہے آپ کا تعلق سادات گھرانے سے تھاحضرت بابا بلھے شاہ کا شجرہ نسب 14واسطوں سے حضور غوث عظم حضرت سید نا عبدالقادر جیلانی سے 25واسطوں سے حید ر کرار حضرت سیدنا علی المرتضیؓ سے ملتا ہے حضرت بابا بلھے شاہ کی ولادت باسعاد ت اچ گیلانیاں جو کہ بہاولپور کا ایک معروف گاؤں میں ہوئی آپ کی ولادت کی تاریخ 1016ھ ہجری ہے لیکن بعض محقیقی کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش مختلف بتائی گئی ہے حضرت بابا بلھے شاہ کاشمار حضرت شاہ عنائیت قادری کے عظیم ٖخلفاء میں ہو تا اور آپ شہر قصور کے رہائشی تھے آپ کے پیروں کی نسبت چند واسطوں سے حضرت شاہ محمد غوث گوالیارتک جاپہنچتی ہے حضرت بابابلھے شاہ کے والد محترم حضرت سید سخی شاہ محمد طورپر نیک سیرت اور عالم دین تھے اور وہ روحانی طاقتوں سے سرشار تھے حضرت بابابلھے شاہ کے والد محترم کی نیک فطرت اور پاکیزگی کی وجہ سے لوگ آپ ؒ کو درویش کے نام سے پکارتے تھے آپ لوگوں کو تبلیغ بھی دیتے اور مسجد کی امامت بھی کرتے تھے ان کامزار مبارک پانڈوکے بھٹیاں میں آج بھی موجودہے جہاں ہر سال عرس مبارک ہو تا ہے حضرت سخی شاہ محمد درویش کے زیر سایہ حضرت بابا بلھے شاہ نے اپنی تعلیم وتربیت حاصل کی اور دیگر بچوں کی نسبت جلد ہی تمام اسباق آپ کو یاد ہو گئے جب حضرت بابا بلھے شاہ ؒ کی ابتدائی تعلیم ختم ہو ئی تو حضرت سخی شاہ محمد درویش ؒ کو فکر ہو ئی کہ وہ اپنے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کیلئے اس مدرسہ کا انتخاب کریں اور انہیں کسی جگہ پر بھیجے جہاں وہ علم کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے بہترین اصولوں کو سیکھیں حضرت سخی شاہ محمد درویش نے بڑی سوچ بیچار اورتحقیق کے بعد شہر قصور کے مشہور عالم حضرت حافظ غلام مرتضیٰ کی خدمت میں حضرت بابا بلھے شاہ کو بھیجنے کا ارادہ کیا حافظ غلام مرتضی کا شمار عظیم علماء دین میں ہو تا تھا حضرت سخی شاہ محمد درویش کو یقین ہو گیا کہ میرے بیٹے کی تربیت کیلئے ان سے بہتر کوئی نہیںہو سکتا چنانچہ حضرت بابا بلھے شاہ کوقصور حضرت حافظ غلام مرتضیٰ کے مدرسہ بھیج دیا حضرت سخی شاہ محمد درویشؒ جب حضرت بابابلھے شاہ کو لیکر حضرت حافظ غلام مرتضیٰ کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نے حضرت سخی شاہ محمد درویش کوکہا کہ میں نے آپ کی شہرتٍ سن رکھی اور مجھے آپ کے بیٹے کی سرپرستی پر فخر ہو گا حضرت بابابلھے شاہ اپنے قابل اساتذہ کی صحبت کے زیر اثر اپنے زہانت بڑے دماغ اور غیر فکر کے تحت ہر علم پر عبور حاصل کر تے چلے گئے اور بالا آخر ایک دن ایسا آیا جس دن آپ کے استاد محترم حضرت حافظ غلام مرتضیٰ نے آپ کو دستار فضیلت اور سند عطاء کر تے ہو ئے فرمایہ اب تم فارغ التحصیل ہوچکے تمہیں اپنے گاؤں پاونڈو کے میں جانے کی اجازات ہے حضرت بابا بلھے شاہ نے قصور میں رہ کرناظرہ قرآن مجید ،فارسی زبان ،میں گلستان وبوستان ،منطق ،نجومعافی،کنزقدوری ،شرح وقار کو نہ صرف سبقا پڑھا بلکہ اس قدر عبور حاصل کیا کہ سب کو پیچھے چھوڑ دیا اس کے علاوہ ابن عربی کی کتب فصوص الحکم اور تفوحات مکیہ کا مطالعہ بھی گہری نظر سے کیا اور اس کے ایک ایک لفظ کو اپنے ذہن میں سمولیا ۔حضرت بابابلھے شاہ طاہری تعلیم کے اصول کے بعد اپنے آبائی وطن پانڈو کے تشریف لائیں او راپنے والد محترم حضرت سخی شاہ درویش کی آنکھوں کو اپنی دید سے ٹھنڈک پہنچائی حضرت بابابلھے شاہ جو بچپن میں ایک لاابالی انسان تھے اب ان کی کفایت بلکل بدل چکی تھی آپ پانڈوکے آنے کے بعد اپنے بچپن کے دوستوں کی محافل شریک ہو نے سے گریزاں تھے دوستوں نے آپؒ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو اب نا تو تم بچے ہو ں اور نہ میں بچہ ہوں اب ہم بالغ ہو چکے ہیں لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم اپنا زیادہ سے زیادہ وقت مطالعہ اور یاد الہیٰ میں بسر کریں تاکہ ہمارا دین دنیا سنور سکیں اور ہمیں آخرمیںبھی فلاح حاصل ہو ں دوستوں کو حضرت بابابلھے شاہ کی یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے آپ کو مولوی کا خطاب دے کر مولانا ،مولانا کہنا شروع کر دیا حضرت بابا بلھے شاہ جب بھی دوستوں کے ہمراہ ہو تے تو انہیں نصیحت ،آموز حکایا ت اور اولیاء اللہ کی سیرت پاک کے قصے سنایا کرتے اور انہیں نیکی کی دعوت دیتے اور اس سب سے آپ کا مقصدیہ تھا کہ آپ کے دوست برائی کو چھوڑ کر نیکی احتیار کریں حضرت بابابلھے شاہ کو خواب میں حضرت عبدالحکیم کا دیدار ہو ا اور مسکراتے ہو ئے فرمایا عبداللہ تمہارا حصہ تو شاہ عنائیت قادری شطاری کے پاس لاہور ہی میں موجودہے تمہیں انہیں تلاش کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا میری نصیحت یہ ہے کہ ایک دفعہ مرشد کا دامن پکڑ کر ساری زندگی اس دامن کو ہاتھ سے مت چھوڑانا ان کے دراعقدس پر ایک سائل کی طرح حاضر ی دینا اور جو بھی مرشد عطا کراس پر فخر اور صبر کرنا کیونکہ یہ معاملات بہت نازک ہو تے ہیں صبرو شکر ہی سے راہوں کو آسان بنا یا جاسکتا ہے اپنی ارادت مندی کو عشق کا درجہ دیکر ہی تم اپنی حقیقی منزل کو پاسکتے ہوں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دونوں جہانوں کی برقات سے نوازیں اور اللہ تعالیٰ تم پر اپنا رحم و کرم فرمائیں حضرت سید عبدالحکیم نے یہ فرماتا اور پھر آپ کاتختہ آسمانوں کی دوبارہ پرواز کرتا ہو اوجل ہو گیا حضرت بابابلھے شاہ نیندسے بیدار ہو ئے تو آپ کا چہرہ مرشد کامل کے ملنے پرخوشی دے دھمک رہا تھا آپ نے حضرت سید عبدالحکیم کے مزارپر الوداعی حاضری دی حضرت بابابلھے شاہ ایک مرتبہ پھر پانڈوکے روانہ ہو ئے تاکہ والد کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں اپنا خواب بیان کریں اور مرشد کامل کی نشاندہی کے متعلق بتائے حضرت بابابلھے شاہ نے پاونڈکے پہنچنے کے بعد والد کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور انہیں حضرت سید عبد الحکیم کے مزار پاک پر حاضری پھر اپنے خواب کے متعلق بیان کیا اور مرشدئے پاک کی نشاندہی کے متعلق بتایا حضرت سخی شاہ محمد درویش نے بیٹے کی بات سنی اور خوشی کا اظہار کیا اور منزل مقصود کی نشاندہی پر انہیں مبارک باد دی حضرت بابابلھے شاہ نے والد سے مستقل لاہور جانے اور مرشد پاک دستے حق پر بیعت کی اجازت طلب کی حضرت سخی شاہ محمد درویش نے باخوشی اجازت دیتے ہو ئے فرمایا عبداللہ تم راہ حق میں خلوص کے ساتھ چلنا اور مرشد پاک تمہیں جو نصیحت کریں اس پر عمل کرنا ان کی رضاکی جستجو میں رہنا کیونکہ مرشد پاک کی رضا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی رضاہے پھر حضرت سخی شاہ محمد رویش ؒ نے کچھ نقدی اور ایک دستار حضرت بابابلھے شاہؒ کو دی اور فرمایا یہ مرشد کی نظر کرینا اور حضرت بابابلھے شاہ والد کی اجاز ملنے پر اپنے مرشد پاک حضرت شاہ عنائیت قادری شطاری کی جانب چل پڑے حضرت شاہ عنائیت قادری کا اندازے بیاں قرآن حدیث نہایت دلکش تھا آپ کی آنکھیں جھلملاتے ہو ئے ستاروں کی طرح شعائیں فضاء میں بکھریتی تھی اور جسم مبارک سے معطر خوشبوئیں نکلتی رہتی تھیں آپ لوگوں سے کم ملتے تھے اور زیادہ وقت مطالعہ میں گزارتے تھے آپ نے اپنے زمانے کے مشہور علماء سے درس دین حاصل کیا اور اس میں کمال حاصل کیا تعلیم سے فراغت کے کچھ عرصہ بعد آپ کے والد کا وصال ہو گیا جس پر آپ بے حد غمگین ہو ئے اور اسی عالم میں گھر نکل کر سیروسیاحت کی جانب متوجہ ہو ئے اسی دوران آپ کی ملاقات لاہور کے عالم بے بدر اور میدان تصوف کے شہسوار حضرت محمد رضا شاہ قادری شطاری سے کی حضرت محمد رضا شاہ قادری شطاری ایک ایسا چشمہ فیض تھے کہ لوگ دور درازسے ان کی خدمت میں حاصل ہو تے اور اپنی پیاس بجھاتے ہو ئے کامل ہو جاتے تھے حضرت محمد رضا ء شاہ قادری شطاری کی نگاہ کرم اور خصوصی توجہ میں حضرت شاہ عنائیت قادر ی شطاری کی زندگی بدل کر رکھ دی او رآپ مختصر عرصہ میں ولی کامل کے منصب پر فائز ہو گئے حضرت شاہ عنائیت قادری شطاری کو اپنے مرشد پاک سے بے حد محبت تھی اور مرشد کو اپنی آنکھوں کا رتارہ تصور کر تے تھے خرقہ خلافت عنائیت ہو نے مرشد پاک نے آپ کو قصور جانے کا حکم دیا اور کہا کہ وہاں جاکر درسوں تدریس میں مشغول ہو جا ئیں آپ کے گھر والے لاہور میں مکین تھے اور زمین بھی لاہور میں تھی لیکن آپ نے سب کچھ چھوڑ کر مرشد پاک کے حکم پر لبیک کہا اور مرشدکے حکم کے مطابق قصور تشریف لے گئے جہاں پر انہوں نے شہرت پائی حضرت بابابلھے شا ہ خلوت نشینی کے بعد لاہور میں مرشد پاک شاہ عنائیت قادری شطاری کے پاس مکین رہے حضرت بابابلھے شاہ علمائء فضل تھے آپ کو روحانی دولت آرائیں فقیر شاہ عنائیت قادری شطاری سے ملی جو باظاہر پیاز کی پنیری لگارہے تھے اور درحقیقت متلاشیان حق کے دل میں اللہ تعالیٰ کے کلمہ کا پودہ لگانے میں ماہر تھے حضرت شاہ عنائیے قادری شطاری محنت اور مشقت کی کمائی کر تے ہو ئے اپنی روحانیت کی عالیٰ دولت مفت تقسیم کر تے تھے ایک دفعہ حضرت بابا بلھے شاہ،حضور داتا گنج بخش کے مزار پاک سے لوٹے تو سیدھے مر شد پاک کی خدمت میں حاضر ہو ئے ُ کی ظاہری حالت آ پ کے باطن کو ظاہر کر رہی تھی مرشد پاک کو معلوم تھا کہ آپ اس وقت حضور داتاگنج بخش کے مزار حاضری دے کرآئے ہیں حضرت شای عنائیت قادری شطاری نے آپ سے دریافت فرمایہ عبداللہ یہ کیا حالت ہوگئی جب گئے تھے تو سب ٹھیک تھا اور جب آئے ہوں تو کچھ ٹھیک نہیں ہے مجھے بتاؤں کے تمہیں کیا پریشان لاحق ہو گء ہے حضرت بابا بلھے شا ہ نے روتے ہو عرض کہ حضور میں حضور نبی کریم ؐ کی یاد میں تڑپ رہا ہوں حضور داتا گنج بخش کے مزار پاک کے حاطہ میں لو گ نعتیاں کلام پڑھ رہے تھے میں نے بھی پڑھا پھر مجھے اپنی محرومی پر رونا آگیا حضرت شاہ عئائیت قادری نے جب آپ کی باتنی اور آپ دیدہ ہو گئے او رفرمایا بیٹا عبداللہ حضور نبی کریم ؐ کی یاد میں آنسو بہانا کسی سعاد ت سے کم نہیں اللہ تعالیٰ تمہاری پکار ضرور سنے گا حضرت بابابلھے شاہ کے آنکھوں میں عقیدت کے آنسو رواں تھے او ر یہ وہ آنسو تھے جو صرف دیدار مصطفیؐ کیلئے نکل رہے تھے حضرت بابابلھے شاہ نے روتے ہو ئے عرض کیا مرشد پاک میں تو ان آنسوکو شہرے رسولؐ کی گلیوں کی خاک میں جزب کر نا چاہتا ہوں حضرت شاپ عنائیت قادری شطاری نے کچھ یر خاموش رہنے کے بعد فرمایا بیٹا عبداللہ تم مدینہ طیبہ جانا چاہتے ہوں حضرت بابابلھے شاہ نے عرض کیا کہ مرشد پاک اب دیداد کے سواء کو ئی چارہ نہیں ہے حضرت شاہ عنائیت قادری شطاری نے ایک مرتبہ پھر کچھ دیر کیلئے خاموشی احتیار کی اور فرمایا بیٹا عبداللہ تمہیں اپنے سوال کا جواب تین بعد مل جائے گا اپنے حوصلوں کو قابو میں رکھنا اور اللہ سے لوح لگائے رکھنا جو سب بہترکرنے والا ہے حضرت بابا بلھے شاہ یہ سن کر ملول ہو گئے اور دل میں خیال آیا کہ شائد ان کے مقدر میں مدینہ منورہ کی حاضری نہیں ہے ورنہ پیر ومرشد تین دن انتظار کا حکم نہ دیتے اسی رات کو جب آپ آدھی رات کے وقت وظائف سے فارغ ہو کر سونے کیلئے لیٹے تو یہیں خیال ذۃن میں گردس کر رہا تھا اور انہیں خیالا ت میں آپ نیند کی وادیوں میں چلے گئے دوران نیند حضرت بابابلھے شاہ نے دیکھا کہ ایک نورانی محفل ہے اور اس نوارانی محفل میں بڑے بڑے بزرگ موجود ہیں اچانک مجلس پر ایک مسحور کن خوشبوچھاگئی اورآپ نے ایک نورانی پیرکر کو دیکھا اور پھر بتایا گیا کہ یہیں آقا دوجہاں حضورنبی کریم ؐہے فجر کی نماز کے وقت حضرت بابابلھے شا ہ تیزی سے مسجد کی جانب بڑے اور سیدھے مرشد پاک کی خدمت میں حاضر ہو فجر کی نماز میں ابھی وقت تھا کہ مرشد پاک تہجد کی نماز پڑھ کر فارغ ہو ئے تھے جب انہوں نے آپ کو دیکھا اور مسکرادئیے حضرت بابابلھے شاہ نے مرشد پاک کے پیروں کو پکڑ اور لپٹ کر رونے لگے حضرت شاہ عنائیت قادری شطار ی حضرت بابابلھے شاہؒ کے سر پر ہاتھ پھیرتے جارہے تھے اور کچھ دیر بعد حضرت شاہ عنائیت قادری شطاری نے فرمایا بیٹا عبداللہ ،اللہ تعالیٰ اس عاجز بندے کی لاج رکھ لی اور تمہیں اس نعمت سے بڑھ کر عطاء فرمایا جس کی تم تمنا کر رہے تھے تم تو مدینہ طیبہ کی زیادت کی تمنا کررہے تھے اور اللہ نے تمہیں مدینے والی کی زیارت عطاء فرمائی

مزیدخبریں