امیر ِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ

امیر ِ شریعت ،امام خطابت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ ہمہ گیر اور پہلو دار شخصیت کے مالک اور برصغیر کی جدوجہد آزادی کی ایک معتبر شخصیت تھے۔ان کے ہم عصر تو بہت تھے مگر ہم سر کوئی نہ تھا۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری  جامع الصفات انسان تھے لیکن ان کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو ان کی خطابت تھی ۔کہتے ہیں خطابت ان کا فن نہیں فطرت تھی ،خطابت کا جادو جگانے کیلئے خطیب کی سحر آفریں شخصیت سونے پر سہاگے کا کام دیتی ہے ۔اس اعتبار سے بھی شاہ صاحب کا جواب نہ تھا ۔سروقد ،خوبصورت نقش ونگار ،دراز گیسو ،بھرے بھرے پر رعب چہرے پر گھنی ڈاڑھی گویا قدرت نے انہیں ایسا حسن و مردانہ وجاہت عطاء کی تھی جو دیکھتا ،دیکھتا ہی رہ جاتا ۔مشہور واقعہ ہے کہ ایک انگریز فلم ساز نے انہیں تقریر کرتے دیکھ کر کہا تھا کہ اگر مجھے اپنی فلم میں حضرت عیسیٰ  ؑ کا کردار ادا کرنے کیلئے کسی شخص کو لینا ہوا تو اس شخص سے زیادہ موزوں کوئی نہ ہوگا۔شاہ صاحب جب حجازی لے میں قرآن حکیم پڑھتے تو یوں لگتا جیسے شجر وحجر جھوم اٹھے ہوں ۔ایک مرتبہ ان کے خطاب کے دوران بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کی زبان پر بے اختیار یہ شعر آ گیا۔
کانوں میں گونجتے ہیں بخاری کے زمزمے بلبل چہک رہا ہے ریاض رسولؐ میں
زبان میں مٹھاس ہی نہیں رعب اور طنطنہ بھی تھا ۔تقریر کرتے تو یوں لگتا اردو ،فارسی اور عربی زبان کے الفاظ اور تراکیب ہاتھ باندھے دورانِ خطاب اپنے استعمال کی التجا کر رہے ہیں ۔اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ بڑے بڑے جلسوں کو اپنی تقریر کے جادو سے مسحورکر دینے کے فن میں کوئی شخص سید عطاء اللہ بخاری کا ہم پلہ نہ تھا ۔مولانا محمد علی جوہر نے لاہور کے ایک جلسے میں انکی خطابت سے متأثر ہو کر کہا بخاری مقررنہیں ساحر ہے ۔یہ تقریر نہیں جادو کر تے ہیں ۔بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد خطاب شروع کرتے تو فجر کی اذان تک کئے جاتے ،خطاب سننے والے اس طرح جم کر بیٹھتے ۔گویا تمام عمر تقریر ہوتی رہے اور وہ یوں ہی بیٹھے سنتے رہیں۔تقریر کے ذریعے جذبات کو ابھار کر رلا دینا اور قربانی کے بیان پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے پر تیار کر دینا اور چٹکلوں اور لطیفوں سے روتی ہوئی محفل کو کشت ِ زعفران بنانے میں یدِ طُولیٰ رکھتے تھے ۔شاہ صاحب کو اگر زمانہ قدیم کے خطیبوں میں سے کسی کے ساتھ تشبیہ دی جا سکتی ہے تو وہ یونان کا ڈیما ستھینز ہے جسے اس دور کے مؤرخین نے سب سے پہلا اور بڑا خطیب قرار دیا ہے ۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی ہمہ گیر شخصیت کے تمام گوشوں کو اجاگر کرنے اور جہد وایثار کیلئے ایک دفتر درکار ہے ۔شاہ صاحب 23 ستمبر 1892 ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔بعد میں امرتسر آگئے ،یہیں دینی تعلیم حاصل کی ۔قیام پاکستان کے بعد ملتان میں قیام پذیر ہوئے ۔1929 ء میں انہوں نے مجلس احرار کی بنیاد رکھی اور تمام مکاتب فکر کے علماء ،دانشور اور سیاسی زعما اس جماعت میں شامل ہوئے۔ رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی ،مفکر احرار چودھری افضل حق ،مولانا ظفر علی خان ،مولانا سید محمد داؤد غزنوی ،صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ ،مولانا محمد علی جالندھری ،آغا شورش کاشمیری اور نوابزادہ نصر اللہ خان کے علاوہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت اور مخلص افراد نے مجلس احرار میں شامل ہو کر برصغیر میں درمیانے طبقے کی سیاست کی ایک تاریخ رقم کی ۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی زندگی انتہائی سادہ اور درویشانہ تھی ۔اتنی بڑی اور نامور ہستی ہونے کے باوجود وہ ملتان کی ایک کچی بستی کے مکین تھے ۔جس میں پردوں کی جگہ بوریاں لٹکی ہوتی تھیں ۔وہ اپنے کارکنوں سے بے حد محبت اور شفقت کرتے تھے ۔انہوں نے اپنے رفقاء کو بلا تمیز امیر و غریب قومی زندگی میں نمایاں کرنے اور آگے لانے کی ہمیشہ سعی کی اور ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی ۔اگرچہ مجلس احرار برصغیر کی سیاست میں کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہ کر پائی مگر یہ کیا کم ہے اس نے اردو زبان کے ایسے قد آور اور نامور خطیبوں سے قوم کو روشناس کرایا جو حقیقی معنوں میں میدان خطابت کے شاہسوار تھے ۔شاہ صاحب کولکتہ سے راس کماری اور خیبر سے کراچی تک کے عوام کو اپنی شعلہ بیانی سے گرما کر فرنگی کی نیندیں اڑا دیں ۔ختم ِ نبوت ؐ کا عقیدہ انہیں اپنی جان سے عزیز تھا ۔انہوں نے فتنہ قادیاں سے نمٹنے کیلئے علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے ہمراہ جو کوششیں کیں انہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔سید صاحب شعر کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے ۔خود شاعر تھے اور ندیم تخلص رکھتے تھے ۔عمر کے آخری ایام میں زبان پر فالج کا حملہ ہو گیا ۔وقت کا سب سے بڑا خطیب اپنی زبان سے ایک لفظ ادا کرنے میں بے بس اور قاصر ہو گیا ۔شاید قدرت یہ دکھانا چاہتی تھی کہ جس فصاحت و بلاغت پر حضرت انسان ناز کرتا ہے وہ اس کا کمال نہیں کسی کی عطاء ہے ۔جب چاہے جس طوطیٔ خوش نوا کو چاہے منقار ِ زیر ِ پر کر سکتا ہے ۔21 اگست 1961 ء کو جان جانِ آفریں کے سپرد کی ،انہوں نے پوری عمر اپنی توانائیاں ملک وملت کی نذر کر دیں ۔سیف الدین سیف نے کیا خوب کہا ہے ’’تیرے بعد‘‘
ملا نہ پھر کہیں لطف ِ کلام  تیرے بعد
حدیث شوق رہی ناتمام تیرے بعد
ترس گئی ہے سماعت تری صداؤں کو 
سنا نہ پھر کہیں تیرا پیام تیرے بعد
جو تیرے دستِ حوادث شکن میں دیکھی تھی 
وہ تیغ پھر نہ ہوئی بے نیام تیرے بعد
بناہے حرف ِ شکایت سکوتِ لالہ وگل 
بدل گیا ہے چمن کا نظام تیرے بعد

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...