مقبوضہ کشمیر میں مودی قصاب کے ننگ انسانیت اقدامات کا تیسرا ہفتہ شروع ہو چکا ہے ۔ گزشتہ 17 روز سے مودی سرکار نے پوری مقبوضہ وادی کو لاک ڈائون کر رکھا ہے۔ بدترین کرفیو کے باعث کشمیری عوام کی نقل و حرکت صرف ان کے گھروں کی چاردیواری تک محدود ہو چکی ہے اور گھروں میں ان کے لیے راشن تک موجود نہیں رہا۔ ان کے بچے بھوک پیاس سے بلک رہے ہیں۔ مریضوں کے لیے ہسپتالوں تک رسائی ناممکن ہو چکی ہے اور جان بچانے والی ادویات تک ان کی پہنچ سے دور ہیں۔ جو مریض ایڑیاں رگڑتے ہوئے جان سے گزر رہے ہیں، ان کے لواحقین کے لیے اگلا مرحلہ اور بھی اذیت ناک بن جاتا ہے کہ کرفیو کے باعث وہ اپنے پیاروں کی نعشیں اُٹھا کر گھر سے باہر قبرستان تک بھی نہیں لے جا سکتے اور اپنے مرے ہوئوں کو گھروں کے صحن میں ہی دفنانے پر مجبور ہیں۔ کیا اس سے بڑا انسانی المیہ کوئی اور ہو سکتا ہے کہ کسی کو گھر میں مقید کر کے اس سے روٹی، روزگار بھی چھین لیا جائے۔ اس کے بچوں کا تعلیمی اداروں میں جانا بھی ناممکن بنا دیا جائے، گلیوں بازاروں کی ہر دکان بند کرا کے کھانے پینے کی ہر چیز سے محروم کر دیا جائے اور ایسی کسمپرسی کی حالت میں کوئی رونا، چیخ و پکار کرنا چاہے تو سنگینیں تان کر اس کی آواز اس کے گلے میں ہی دبا دی جائے۔ کوئی گھر سے باہر قدم نکال بیٹھے تو پیلٹ گن اور دوسرے اسلحہ سے اسے وہیں پر ڈھیر کر دیا جائے۔ کیا اس سے بڑی انسانی بے بسی کوئی اور ہو سکتی ہے اور کیا میں کوئی افسانہ سُنا رہا ہوں۔ جی نہیں، ہر گز نہیں۔ یہ مودی سرکار کے وہ مظالم ہیں جن پر انسانیت شرما ہی نہیں رہی، دھاڑیں بھی مار رہی ہے۔ مسلم اُمہ کے لیے درد دل رکھنے وا لے علامہ اقبال نے اپنے تجربات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ایسے ہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ؎
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر ۔
آج کشمیر میں مودی قصاب کے ہاتھوں مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ ہو چکا ہے تو گزری کل میں آپ نے میانمار (برما) میں انسانی حقوق کی نام نہاد چیمپئن آنگ سوچی کے ہاتھوں بے بس مسلمانوں بشمول خواتین اور بچوں کے جسموں کے ٹکڑے بکھرتے دیکھے ہوں گے۔ ایسے دلدوز مناظر کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر چلیں کہ انہیں دیکھنے کا یارانہ نہ رہا، اور کیا ایسا ہی کچھ مکروہ اسرائیلی نیتن یاہو کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہو رہا، وہاں تو بھرپور امریکی سرپرستی میں اسرائیلی فوجوں کو فلسطینیوں کے قتل عام کا کھلا لائسنس ملا ہوا ہے اور اب مقبوضہ کشمیر میں تو انسانیت دہائی دے رہی ہے۔ جس پر پوری دنیا کی نگاہیں مودی سرکار کی جنونیت پر مرکوز ضرور ہوئی ہیں اور تاسف و تشویش کا اظہار بھی ضرور کیا جا رہا ہے مگر کشمیریوں کے زخموں پر حقیقی پھاہے رکھنے والا تو ہماری مسلم دنیا میں بھی کوئی نظر نہیں آ رہا۔
پاکستان نے بے شک مودی کو للکارا بھی اور مسلم اُمہ سمیت عالمی برادری کو پکارا بھی مگر کوئی حقیقی مدد کو پہنچا تو وہ ایک ملحد ملک چین تھا جس نے نہ صرف مودی کو مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں نکالنے کی وارننگ دی بلکہ سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا انعقاد بھی ممکن بنا دیا اور اقوام عالم کے اس نمائندہ فورم پر کشمیر کو ایک بار پھر متنازعہ علاقہ قرار دلا کے چھوڑا۔ مگر بھائی صاحب۔ چین کا یہ تجسّس اور تفکر ہم سے زیادہ ا پنے مستقبل کے حوالے سے تھا کیونکہ مودی سرکار نے اپنی جنونی حرکت کے تحت لداخ کو مقبوضہ کشمیر سے کاٹ کر اور براہ راست بھارت کا حصہ بنا کر چین کی سلامتی کو بھی چیلنج کیا تھا۔ یہی لداخ کا وہ علاقہ ہے جہاں سے بھارت نے 60 ء کی دہائی میں چین کے علاقے اورناچل پردیش میں اپنی فوجیں داخل کر کے اس پر مقبوضہ کشمیر ہی طرح اپنا تسلط جمانے کی کوشش کی بھی مگر چینی فوجوں نے بروقت کارروائی کر کے بھارتیوں کو الٹے پائوں وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اب مودی سرکاری ٹرمپی سایۂ عاطفت میں آئی ہے تو خود کو علاقے کا تھانیدار سمجھ کر جگہ جگہ پھنکارے مارتی پھر رہی ہے چنانچہ اس نے ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی۔ مقبوضہ کشمیر پر شب خون مار کر پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کیا اور ساتھ ہی ساتھ لداخ کے حوالے سے چین کے ساتھ بھی پنجہ آزمائی کا شوق چرانے لگا اور اس کی یہی حماقت اس کے گلے پڑ گئی۔
چین بے شک ہمارا ایسا یار ہے جس پر جان بھی نثار ہے اور ہمارے ساتھ جس کی شہد سے میٹھی ، سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی دنیا میں ضرب المثل بن چکی ہے مگر اس نے بھارت کو سبق اپنی سلامتی کو چیلنج ہوتا دیکھ کر سکھایا ہے جس سے ہمارا بھرم بھی رہ گیا ورنہ جناب۔ دنیا چھوڑ ہماری مسلم دنیا نے بھی بے نیازی کی چادر اوڑھے رکھنے میں کوئی کسر تو نہیں چھوڑی۔ رہی بات بھارت کے ساتھ تجارتی مواسم کی تو وہ چین کے بھی اس کے ساتھ ہم سے زیادہ مراسم ہیں اور دو سال قبل عوامی جمہوریہ چین کے صدر کے دورۂ بھارت کے موقع پر دونوں ممالک میں تقریباً 42 ، ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے ہوئے تھے۔ چین بھی اگر اس مجبوری کو پیش نظر رکھتا تو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت پر رسمی احتجاج کر کے خاموش ہو جاتا یا امریکہ کی طرح اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے دیتا مگر وہ خم ٹھونک کر بھارت کے مقابل آ گیا اور اسے عالمی تنہائی کی صورت حال سے دوچار کر دیا۔ بس ایک ہم ہیں کہ ہماری آنکھوں کا پانی مر گیا ہے۔ کہنے کو ہم مسلم دنیا کے 54 کے قریب ممالک دنیا کی ہر نعمت و دولت سے مالا مال ہیں مگر ہر کوئی اپنے مفادات کا اسیر ہو کر رہ گیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تو دشمنی پال سکتے ہیں ، ایک دوسرے کا خون بہانے کے تو مواقع نکالتے رہتے ہیں مگر بحیثیت امہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونے اور اپنے وسائل ایک دوسرے کی فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لانے کا کبھی احساس ہوتا ہے نہ خیال آتا ہے۔ ہم نے مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی زور زبردستی کے خلاف مسلم امہ کی قیادتوں اور اس کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کو پکارا مگر کسی جانب سے مودی کے لیے چین جیسی دھمکی تو کجا ، رسمی احتجاج کی کوئی لہر بھی اٹھتی دکھائی نہ د ی۔ 48 مسلم ممالک کی اسلامی نیٹو فورس کو تو مظلوم کشمیریوں کی پکار پر جنونی ہندو مودی کے ہاتھ توڑنے اور اس کا خناس نکالنے کے لیے لشکر کشی کر د ینی چاہئے تھی مگر بے عملی ہی نہیں، بے نیازی بھی اس عسکری اتحاد کا خاصہ بنی رہی۔
اور پھر برادر یو اے ای نے تو لٹیا ہی ڈبو دی جس نے عین اس موقع پر کہ مودی کے ہاتھ مظلوم کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اسے اعلیٰ ترین اماراتی سویلین ایوارڈ دینے کا اعلان کر دیا۔ گویا مودی کے ہاتھوں کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کا جشن منانے کا اہتمام اس برادر مسلم ملک کی جانب سے کیا گیا جہاں مظلوم کشمیریوں ا ور دوسرے مظلوم مسلمانوں کو امان ملنی چاہئے تھی ، کہا گیا ہے کہ یو اے ای نے یہ اقدام بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی معاہدوں کی پاسداری میں اٹھایا ہے۔ ارے جناب۔ جو معاہد ے ہم نے تحفظ امتِ مسلمہ کے لیے ذات باری تعالیٰ کے ساتھ کر رکھے ہیں اس پر جوابدہی کا بھی ہمیں کوئی احساس ہے یا نہیں۔ برطانوی مسلمان خاتون رکن پارلیمنٹ محترمہ ناز شاہ نے یہی سوال تو ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زائد النیہان کو دو صفحات پر لکھے گئے اپنے خط میں اٹھایا ہے اور مودی سرکار کے ہاتھوں کشمیری مسلمانوں کی درگت بننے کا پورا نقشہ کھینچ کر انہیں جھنجوڑنے کی کوشش کی ہے کہ اگر آپ کے اقتصادی معاہدے آپ کو کشمیریوں کے لیے کھڑے ہونے یا بولنے کی اجازت نہیں دیتے تو کم از کم آپ امارات کے نمائندے کی حیثیت سے اس معاملہ پر خاموش رہیں اور دل میں مودی کے اقدامات کی مذمت کریں۔ صد حیف کہ مصلحتوں میں جکڑے ہمارے امہ کے قائدین کے لیے یہ کلام نرم و نازک بھی بے اثر ثابت ہوا اور قصاب مودی امہ کی ہزیمتوں کا اہتمام کرنے والا یہ ایوارڈ پورے پروٹوکول کے ساتھ وصول کرنے کے لیے آج بروز جمعتہ المبارک ابوظہبی پہنچ رہے ہیں۔
ہم اوروں کو کیا کہیں، خود اپنا معاملہ بھی دیکھ لیں۔ ہم نے بھارت کے ساتھ تجارت، دوستی بس اور سمجھوتہ ایکسپریس بند کرنے کا اعلان کیا مگر ہمارے جہاز بدستور بھارتی ائیر پورٹس پر اتر رہے ہیں اور دوطرفہ تجارت کا سلسلہ بھی اسی طرح جاری ہے۔ ارے کوئی کہہ دے مظلوم کشمیریوں کو کہ انہوں نے اپنی آزادی کی جنگ خود ہی لڑنی ہے۔ وہ جیت گئے تو وہی ہماری بھی جیت ہو گی کہ ہم لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کے عادی ہیں۔ اب اتحاد امت کی دعا بھی کریں تو کس برتے پر کہ ہم میں تو احساسِ زیاں بھی نہیں رہا۔