آزادی کی قدر کریں، آزادی کے محافظوں کا ساتھ دیں!!!!!!(قسط نمبر3)

اس میں کھانے پینے کے برتن رکھے تھے جو بہت کام آئے۔ تین دن کے بعد جب آٹا آیا تواقبال نے کچا ہی پھانکنا شروع کر دیا۔ اسے دیکھ کر برکت کی3/2 سال کی بیٹی کلثوم نے بھی پھانکنا شروع کر دیا۔کیونکہ وہ بہت چھوٹی تھی اس لئے وہ برداشت نہ کر سکی اور وہیں پر ڈھیر ہو گئی۔ اب اس کے کفن کے لئے کپڑا اور دفنانے کے لئے جگہ کہاں سے لائی جائے۔ بس درخت کی ٹہنیاں توڑ کر، تھوڑی سی مٹی ادھو اْدھر ہٹا کر اسے دفنا دیا گیا۔ بچی کی میت کو دفنانا نہیں بلکہ پھینکنا ہی تھا۔کیمپ کے چاروں طرف کانٹے دار تار کھینچی ہوئی تھی۔ اس کے اندر ہی ٹٹی، پیشاب کر سکتے تھے۔ تار کے ارد گرد پہرہ ملٹری کا بھی تھا۔مگر وہی بد ذات ہندو جاٹ رجمنٹ سے، اور عورتوں کو پْھسلا کر سکھوں کے حوالے کر دیتے تھے۔ سکھ چاروں طرف، عورتوں کو اغوا کرنے والے ملٹری سے ملے ہوئے بیٹھے رہتے تھے اور اگر کوئی آدمی زد میں آجاتا تھا تو اسے مارے بغیر نہیں چھوڑ تے تھے۔ پانی کی سخت قلت تھی۔ سارے کیمپ کے لئے صرف تین کنویں تھے جن پر دو صد آدمیوں کے قریب ہر وقت پانی بھرنے والے جمع رہتے تھے اور لڑائی ہمیشہ ہوتی رہتی تھی ) نوٹ:یاد رہے کہ صرف ہمارا ہی قافلہ یہاں نہیں آیا تھا بلکہ ہم سے پہلے بہت سے قافلے آ چکے تھے اور ارد گرد کے مسلمان بھی یہیں کیمپ میں داخل ہو گئے تھے۔ اس طرح لوگوں کی تعداد دو تین لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی ہوگی۔ (۔ پھر ملٹری نے تجویز کر کے عورتوں کو پانی بھرنے کی اجازت دی۔ ان میں بھی سخت لڑائی لگی رہتی تھی۔ ْکنووں میں صبح ہی ایک کنسترچْونا اور 'نیلا تھوتھا'/) vitroil زہریلی چیزیں (ملا کر گرایا جاتا تھا اور ظاہر یہ کیا جاتا تھا کہ زہر مارنے والی دوائی ڈالی جاتی ہے )نوٹ: مجھے یاد پڑتا ہے کہ کہ ایک دفعہ ایک ملٹری والے نے خود چلاّ کر کہا کہ "تمہیں منوں نیلا تھوتھا/ blue vitroilکھلا دیا ہے تم پھر بھی نہیں مرتے "۔میں والد صاحب کے ساتھ کنویں پر گیا تھا اور پانی نکالنے پر کچھ لوگوں کا جھگڑا ہو رہا تھا۔راقم اقبال (۔جس کی وجہ سے عام لوگوں کو عارضہ پیچش ہو گیا تھا۔۔ رات کو لوگوں کو اس قدر کھانسی اٹھتی تھی جیسے کہ 'ٹڈی دل' اڑاتے وقت کنستر یعنی 'پی پا' یا کوئی اور چیز کھڑکا کر شور مچایا جا تا ہے۔ اور بعض بیمار جو پیچش کی وجہ سے 'مروڑوں' /پیٹ کے درد میں مبتلا رہتے تھے وہ بہت ہائے ہائے کرتے تھے۔ سڑاند اس قدرپھیل گئی تھی کہ کوئی بیمار مرد یا عورت جہاں 'مروڑ' اٹھا وہیں ٹٹی کرنے بیٹھ جاتا اور اسے یہ پتہ نہ ہوتا تھا کہ میں نے اس جگہ بیٹھنا ہے یا دو قدم آگے جا نا تھا، خواہ ملٹری والا 'ڈنگروں'/جانوروں کی طرح لاٹھی چارج کر تا رہے۔ اموات/ موت اس قدر ہو رہی تھیں کہ کوئی کسی کے جنازے کے ہمراہ نہ جاتا تھا۔ کوئی اپنا ہی خاص عزیز ہو اس کو لکڑیوں پر اسی کے پہنے ہوئے کپڑوں میں لپیٹ کر تھوڑی سی مٹی ہٹا کر ، سیدھا گڑھا کھود کر اوپر سے مٹی ڈال کر چلے آتے تھے ۔ )یہی کچھ ہم نے اپنی بھانجی کے ساتھ کیا تھا۔ اقبال( ۔کسّی/قبر کھودنے کا اوزار یعنی diggerمیسر نہ آتی تھی۔جنازہ وغیرہ اور غسل تو کس نے دینا تھا۔ اور بہت سی لا وارث نعشیں جگہ جگہ پڑی ہوئی ، اوربعض سسکتی ہوئی ، نظر آتی تھیں۔ غرضیکہ ْکتّے ،اور کوّے اور گدھّ بھی اس سال 'رج' لئے تھے۔ روزانہ اموات اڑھائی صد یا تین صد کے قریب تھیں ویسے تو منشی با قاعدہ قبرستان میں بیٹھا ہوا تھا۔بیس /20'یوم کے بعد ' ْگڑ' آیا۔ بہت دنیا لینے لگی اور بلیک کرنے لگی اور اپنا زیور، اگر کسی کے پا س قسمت سے آ ہی گیا، تو ایک تولہ سونا 6' یا سات روپے میں بکنے لگا۔بہت لوگ ایک روٹی کے بدلے ایک برتن دے دیتے تھے۔ اس کے بعد ایک مٹھائی آنا شروع ہوئی جو کچّا آٹا چاشنی میں ڈال کر جمایا گیا تھا۔ وہ تین روپے سیر نمبر وار ، اور 4 اور 5 روپے سیر بلیک میں فروخت ہوتی تھی۔اس کے کھانے سے بہت دنیا بیمار ہوئی۔ مگر ہم لوگ فی ا لحال تندرست تھے۔ ایک دن ْمونگ پھلی ' ْگڑ' میں ملا گرم کر کے کھا بیٹھے، اس سے پیچش شروع ہو گئی۔ )نوٹ: ایک دن بھائی احمد دین بیمار پڑے تھے جو غالبا" اسی وجہ سے بیمار ہوئے تھے( کئی کئی دن کے فاقے کئے جاتے تھے۔ جہاں آٹے کا سٹور تھا وہاں صبح سے لوگ جا کر بیٹھ جا یا کرتے تھے۔ اس قدر دنیا کمزور اور لاغر ہو گئی تھی کہ اٹھتے بیٹھتے چکر آیا کرتے تھے اور پنڈلیوں پر گوشت سْوکھ گیا تھا۔ ٹٹّی جا کر ہاتھ دھونے تو کہاں نصیب تھے پینے کو پانی نہ ملتا تھا اور کیمپ کے اندر اگر کسی نے ذراسی خلاف ورزی کی اور بھینس کی طرح لاٹھی پڑی۔ ْکنووں پر اسی طرح ہائی دہائی پڑی رہتی تھی۔ اپنا پرایا سب بْھول گئے تھے۔ کوئی کسی کی شرم نہ تھی، نہ کسی کی محبت۔ باپ سے بیٹا بیزار اور عورت سے خاوند بیزار تھے۔ خدایا تیری پناہ۔ کیا وقت تھا۔ قیامت تھی۔ہمارے ہاں موضع 'دْگری' سے ایک مولوی نور محمد کے صاحبزادے حافظ عبد ا للہ صاحب تھے جو امیر قافلہ تھے ان کے پاس بھی لوگوں نے کچھ روپیہ جمع کرا رکھا تھا۔ بعضوں نے زیور ہی دیدیا تھا کہ ہم لوگوں کو راستہ میں سہولیت رہے یا کسی کو دے دلا کر منزل مقصود پر پہنچ جائیں۔ مگر وہ کار گر نہ ہو سکا۔ یہاں پر بھی لوگوں کو مار دھاڑ کرنی شروع کردی جس سے کہ لوگ بد ظن ہو گئے۔ کئی ایک واقعات میں کچھ ظلم بھی ہوا۔ کبھی کبھارتمام لوگوں کو مع بچوں کے کسی میدان میں جمع کیا جا تا تھا کہ ہم لوگ گنتی لے رہے ہیں اور سارا دن بھوکے پیاسے مرے جاتے تھے اور کہا جا تا تھا کہ پاکستان تم کو قبول نہیں کرتا ورنہ کبھی کا بلا لیتا۔) نوٹ:چچا دین محمد کی بیوی محترمہ عظمت نے راقم کو بتایا کہ جب ایک دن گنتی کے بہانیوہ میدان میں لے گئے تو وہ خود اور 'نائیوں'/گاؤں کے حجام کی بیٹی مریم اکٹھی تھیں۔ ایک سپاہی/فوجی نے مریم کا ہاتھ کھینچ کرلیجانے کی کوشش کی لیکن دونوں نے اسے دھکا دیا اور بھاگ کر جہاں دوسرے لوگ بیٹھے تھے وہاں پہنچ گئیں۔بہت دنیا جب بھوکی مرنے لگی تو باہر نکلنے لگی اور مذہب تبدیل کر کے پیٹ پالنے لگے۔ اور بہت دنیا چھپ چھپا کر رہ گئی تھی ان لوگوں نے ڈر کے مارے مذہب تبدیل کر لیا تھا۔) نوٹ میری رفیقہ حیات رقیہ کا سگا ماموں لال دین اور ہمارے گاؤں کا سین/حسین محنت مزدوری کے خیال سے باہر نکلے۔ راستے میں دو چارسکھوں سے بات چیت ہوئی۔ سکھوں نے پوچھا کہ تم ذات کے کون ہو اور کہاں سے ہو۔لال دین نے کہا کہ وہ 'گجر' ہے اور موضع 'دْگری' کا ہے لیکن سین/حسین نے بتایا کہ وہ 'پرائی/ماشکی' ہے۔ ان سکھوں نے لال دیں کو وہیں شہید کر دیا اور حسین کو جانے دیا۔ لادین کے مارے جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ1930' کی دھائی میں دْوگری' کے نزدیک والے گاؤں 'ملک پور' کے نزدیک سڑک پر عیدقربان کے موقع پر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان 'گائیں' کے ذبحہ کرنے کی وجہ سے سخت لڑائی ہوئی تھی اور بہت سے سکھ مارے گئے تھے۔ 'دْوگری' کے گاؤں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا چونکہ گاؤں ملک پور سے ایک آدھ میل کے فاصلے پر ہی تھا( افسران پاکستان کے دل میں یہ خیال بھی نہ تھا کہ کوئی 'کورالی کیمپ' بھی ہے یا نہیں۔کبھی کوئی 'لیزان آفیسر'کورالی تک نہیں آیا ۔ ایک ماہ بعدایک انگریز ، نامعلوم وہ ڈاکٹر تھا ،آیا۔ اس نے تمام کیفیت دیکھی اور لاہور واپس جا کر 'کورالی کیمپ'درج کروایا۔ نیز یہ بھی شکایت کری کہ وہ کیمپ بغیرسواری کے آ نہیں سکتا۔ وہ لوگ بہت کمزور ہو چکے ہیں ۔ خیر،رحم دلی ڈپٹی کمشنر'گریوال' ضلع انبالہ، کی بھی ہوئی۔ اس نے گندی مٹھائی اور بلیک پر پابندی عائد کر دی تھی۔ سب سے بڑی مکاری اس بگلے بھگت ، 'ایس ڈی او'، جو ذات کا برہمن تھا، نے کی اور اس کو ہم لوگ ایک بڑا ہی متقی اور پرہیز گار سمجھا کرتے تھے جو آخر تک ہمیں تسلیاں دیتارہا کہ بے فکر رہو ' بد معاشوں سیمت ڈرو۔ پھراسی بد معاش نے کہا کہ اب تم لوگ کسی چیز کا لالچ مت کرو ،ورنہ گولی کا نشانہ بن جاؤگے۔کیمپ میں کئی ایک لوگ 'کیمپ ہولڈر' مقرر کئے گئے تھے جو راشن بر آمد کر کے تقسیم کیا کرتے تھے ، وہ لوگ اسی میں غدّاری کرنے لگ گئے۔ اور اگر کچھ نہ بنا تو ان کے گھر کے جی /افراد ، روتی ضرور 'رج' کر کھایا کرتے تھے۔ ان کے پاس راشن کی کوئی کمی نہ تھی۔ چنانچہ مجھے بھی کئی ایک دفعہ کیمپ ہولڈرکی دعوت دی گئی، مگر میں اپنی عزت کو اس طرح چھپائے بیٹھا رہا جیسے ایک عزت دار آدمی کا حق ہو تا ہے۔ہر روز نئے نئے تذکرے سننے میں آیا کرتے تھے۔ یعنی، کہ آج گاڑی پاکستان سے آئیگی جو ہم لوگوں کو لے جائیگی۔ 'ہم لوگ پہلی )تاریخ (کو جائینگے'۔کوئی پندرہ کی تاریخ بتلاتا۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی آتا تو اس کی باتوں سے ڈھارس بندھ جاتی۔ دوسرا آتا تو وہ کہتا کہ پاکستان کو ہماری ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا کوئی پْرسان حال نہیں ہو گا، ہم لوگ سڑ کر مر جائیں گے ، پھر دل گر جاتا۔ ہمارے رشتہ دار ، 'ساؤڑی' ) گاؤں کا نام(والے بھی اْدھر ریاست میں چْھپ چْھپا کر اٹک یعنی ٹھہرگئے تھے اور ہندْو بن گئے تھے۔ ان کی ہر چند انتظار کری لیکن ان لوگوں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ میں نے کیمپ سے کارڈ بھی لکھے اور ایک درخواست بھی راجہ صاحب کے نام لکھی۔ مگر کوئی عمل در آمد نہیں ہوا۔ ریاست کے ملازمین بھی وہاں کیمپ میں آئے۔ وہ ان لوگوں کو ملنے آئے تھے جو مسلمان سے ہندو ہو کرریاست کے ماتحت اپنا وقت کاٹنا چا ہتے تھے، پْھسلا کر لیجانا چا ہتے تھے اور بہت سے لوگوں کو پْھسلایا بھی گیا ، اور لے بھی گئے۔
محمد دین کا خط اور اس کا ہمیں لانے کے لئے 'کورالی کیمپ' پہنچنا:پھر ہمارے پاس ایک خط پہنچا جو محمد دین کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا اور راولپنڈی سے ڈالا گیا تھا۔ غریبْو) نوٹ: غریبْوہمارے قبیلے کا ایک نو جوان تھا اور ہم چچا کہا کرتے تھے۔ وہ جی ایچ کیو میں پہلے دہلی میں اور پھر راولپنڈی میں کسی جرنیل کے ساتھ لگا ہوا تھا ۔اقبال (نے لکھوایا تھا .۔ اس میں تحریر تھاکہ مال و متاع کا لالچ نہ کریں ، فورا" گھرچھوڑ کر نکل جا ویں۔ میرے پاس 'پوسٹ کارڈ' تھا اور میں نے بھی بواپسی جواب 'کورالی' کیمپ سے لکھ مارا۔وہ خط وہاں راولپنڈی میں مل گیا جس میں لکھا تھا کہ ہم کورالی کیمپ میں آ گئے ہیں۔ محمد دین دہلی سے بذریعہ ہوائی جہازراولپنڈی پہنچ چکا تھا۔ یہ سب کلرک لوگ، حکیم ا لدین، غلام ا لدین ، محمد دین اور دوسرے کئی ایک کورالی کیمپ کیلئے ٹرک پہنچانے کی کوشش کرنے لگے۔ خیر، ان کے لئے ٹرک منظور ہو گیا اور کورالی چھ ٹرک لیکر پہنچے۔ )نوٹ :صرف بھائی محمد دین ساتھ آئے تھے۔اقبال (۔۔ میں اس وقت جانے سے کچھ کچھ نا امید ہو چلا تھا۔ پتہ چلا کہ محمد دین آیا ہے۔ ملازمان لوگوں کے رشتہ دار تمام جا ویں گے۔ میں اپنے بیٹے کی آمد کی خبر سن کر بہت رویا۔ یہاں تک کہ وہ صبح سے آیا ہوا شام تک ہمارے پاس پہنچا۔ لیکن میرے آنسْو بند نہیں ہو ئے، کہ میں کس کو لے جاؤں اور کسے چھوڑ جاؤں۔ تمام کے تمام رشتہ دار یہاں پر موجود ہیں۔ مجھے جاتا ہوا کس حسرت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ ویسے تو لسٹ سب ملازموں کے گھر والوں کی تھی جن میں تین سو کے قریب منظوری تھی۔ چنانچہ رات بھر پنجیری بنائی گئی۔ گھر والوں کو ازحد خوشی تھی کہ اب پاکستان میں پہنچ جا ئیں گے۔
صبح کو سب لوگ جمع ہو کر موٹروں کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ جمعدار فوجی منحرف ہو کر جس نے رشوت دی ان کو موٹروں میں چڑھا رہا ہے۔ اور ہم لوگوں کو بھی واپس کر دیا۔ پھر شکایت کریں کہ یہ خود اپنی فیملی کو لینے آیا ہے۔ ہمارے جانے سے پہلے موٹریں لبا لب بھر گئی تھیں۔ ہمارے گاؤں والا ابراہیم 150/= روپے دے کر موٹر چڑھا۔ صبح سے موٹریں ٹھہرائی ہوئیں ، شام ہو گئی تھی۔ دْھوپ میں کھڑے کھڑے ہوئے جل گئے اور لوگوں کو ٹٹی پیشاب کی حاجت تھی۔ مروڑے لگے ہوئے تھے۔ غرضیکہ ایک ٹرک میں 231' نفوس بھر دیئے گئے تھے۔
اللہ اس ملک کو تاقیامت قائم و دائم رکھے، ہمیں اس ملک کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کی ہمت دے، اللہ ہمیں اس ملک کو دنیا میں اسلام کو پھیلانے کا ذریعہ بنائے، اس ملک کے بسنے والوں کو نبی کریم ؐ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے بنائے۔ اس ملک کو دنیا کے لیے مثال بنا دے۔ آمین ثم آمین
(ختم شد)

ای پیپر دی نیشن