سیدنا حسین ؓ،انکے اہل خاندان اور مخلص اصحاب قابل ستائش اور قابل صداحترام ہیں نہ صرف اس لیئے کہ وہ ہمارے نبی پاک ؐکے اہل بیت ہیں اور نبی ؐ نے سیدنا حسن اور حسین ؓ کو جنت کے جوانوں کا سردار قرار دیا بلکہ اس لیئے بھی کہ وہ قیامت تک آنے والے ہر قافلہ حریت کے پیش رو بھی ہیں اور رہبر بھی،انھوں نے بے پناہ جرائت،استقلال اور بے مثال قربانیوں سے اپنے بعد آنے والے حریت پسندوں اور جبر کے خلاف نعرہ حق بلند کرنے والوں کے لیئے روشن مثال قائم فرمائی ایسی مثال جس سے سبق ملتا ہے کہ جبر کے سارے لاوء لشکروں کو شکست فاش ہوتی ہے ان کا مقام اہل حق کے مقابلے میں ہمیشہ تاریخ کا کوڑے دان ہوتا ہے اہل حق جانیں ہار کر بھی سرخرو ہوتے ہیں اور تاریخ انکے نام اور کارنامے آنے والے زمانوں کے لیئے عزت اور احترام سے محفوظ کر لیتی ہے، سیدنا حسین اور ان کے اہل و اصحاب نے یزید کی بیت سے صاف انکار کر کے آنے والے زمانوں کے انسانوں کو آزادی اظہار اور حق پر ڈٹ جانے کا ایسا عملی مظاہرہ کر کے دکھایا کہ جس کے نتیجے میں ہر دور کے یزیدوں کو سنت حسین علیہ اسلام ادا کرنے والوں سے جب بھی واسطہ پڑا ظالم اور جابر حکمرانوں نے اپنے آپ کو مضبوط قلعوں میں بھی غیر محفوظ سمجھا، ان کا جبر ہمیشہ اہل حق کے صبر کے سامنے بے بس اور لاچار ثابت ہوا ظالم نقد جان لینے کے سوا کچھ کر نہ سکے اور ان کا تکبر اور پندار ہارتا ہی رہا، تاریخ کا طالب علم جب بھی سانحہ کربلا کا باب کھولتا ہے تو اسے سیدنا حسین کے ہر جانثار کی ادا نرالی دکھتی ہے کیسا عجیب نظارہ ہے شب عاشور ہے اور سیدنا حسین کے خیمے میں سارے اصحاب وفا جمع ہیں پھر اچانک سیدنا حسین چراغ بجھا دیتے ہیں اور اصحاب سے فرماتے ہیں آپ میں سے جو جانا چاہتا ہے چلا جائے کہ دشمن صرف میرے خون کے پیاسے ہیں میرا ساتھ چھوڑ جانے والوں کی جانوں سے کوئی تعرض نہیں کرینگے لیکن تاریخ کے طالبعلم کے لیئے یہ امر باعث حیرت ہے کہ جب سیدنا حسین خاصی دیر بعد چراغ روشن فرماتے ہیں تو سارے اصحاب موجود ہوتے ہیں کسی ایک کو بھی عظیم مقصد کے مقابلے میں اپنی جان کی پرواہ نہیں ہوتی یہ سارے باوفا ساتھی امام کے ساتھ ہی شہید ہونے کا شعوری فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں یہ اہل حق کی پہلی فتح اور اخلاقی برتری ہے جوانھیں دشمن پر حاصل ہوتی ہے دوسری اخلاقی برتری لشکر یزید سے حر کی سیدنا حسین کے لشکر میں شمولیت ہے،دنیا کی تاریخ میں یہ عجیب واقعہ ہے کہ عین میدان جنگ میں انتہائی طاقتور لشکر کا لشکری ایک ایسے مٹھی بھر گروہ میں شامل ہو جائے جس کے ہر فرد کا جنگ میں مارے جانا یقینی ہو یہ لشکر یزید پر سیدنا حسین کی دوسری واضح فتح ہے،لشکر یزید کا ایک سردار شمر لعین ہے جو سیدنا عباس علمبردار کا ماموں زاد ہونے کے ناتے لشکر حسین کے سامنے آکر عباس علمبردار اور انکے بھائیوں کو سیدنا حسین کا ساتھ چھوڑنے پر جان کی امان کا وعدہ کرتا ہے سیدنا عباس جو حضرت حسین کے سوتیلے بھائی ہیں شمر اور اس کی امان پر لعنت فرماتے ہیں اور اپنے بھائی کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیتے ہیں یہ یزید پر سیدنا حسین کی تیسری فتح ہے، پھر اہل بیت حسین اور انکے اصحاب ایک ایک کر کے جب لشکر عدو کے سامنے مبارزت طلب کرتے ہیں اور ہر مقابل آنے والے کو اس انجام سے دوچار کرتے ہیں جو یزید کے اجداد کا سیدنا حمزہ اور علی بن ابی طالب کے ہاتھوں بدر اور احد میں ہو چکا تھا تو لشکر یزید میں سراسیمگی پھیل جاتی ہے انھیں احساس ہو جاتا ہے کہ ان بہادروں کے ساتھ فردا'' فردا'' جنگ ان کے بس کی بات نہیں اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وہ سب ان مقدس ہستیوں کی تلواروں کا چارہ بن کر رہ جائیں گے تو ہزاروں کا لشکر 72 جانثاروں پر ایک ساتھ ہلہ بول دیتا ہے اب خاندان نبوت اور ان کے مخلصین داد شجاعت دیتے ہوئے سیدنا حسین پر ایک ایک کر کے فدا ہو جاتے ہیں اور آخر میں سیدنا حسین رہ جاتے ہیں ظلم کے لشکر یوں کو سیدنا حسین کی ذولفقار کا مقابلہ کرنا آسان تو نہیں لیکن آخر وہ لمحہ آجاتا ہے جب نبی صلعم کا پیارا حسین نبیؐ کی مبارک زبان سے نکلے ہوئے فرمان کے مطابق امت کے بدبختوں اور سیاہ کاروں کے ہاتھوں شہید ہو جاتا ہے،وہ لمحات پاک دامن بیبیوں کے لیئے کتنے دکھ اور آزمائش کے ہیں ان کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے سادات کے خیموں کو آگ لگا دی جاتی ہے شہدا کے سر کاٹ کر نیزوں پر چڑھا دئیے جاتے ہیں اور جسموں سے لباس لوٹ کر ان پر گھوڑے دوڑانے جاتے ہیں اور انھیں بے گوروکفن چھوڑ کر اہل بیت کی خواتین اور بچوں کو بمعہ سیدنا حسین کے بیمار بیٹے علی بن حسین بیڑیوں میں جکڑ کر اونٹوں اور گھوڑوں پر قیدی کی حیثیت میں دربار کوفہ میں ابن زیاد ملعون کے سامنے لے جایا جاتا ہے جہاں سیدہ زینب سلام اللہ علیہ اپنی مدلل تقریر سے ابن زیاد کی نخوت کے پرخچے اڑا دیتی ہیں