شہباز گل کا 2روزہ جسمانی ریمانڈ پولیس کا سا تھلے جا کر پارلیمنٹ لاجز میں چھا پہ 


 اسلام آباد (وقائع نگار+خبر نگار) جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نے اداروں میں بغاوت پر اکسانے سے متعلق کیس میں  شہباز گل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے جوڈیشل پر جیل بھیجنے کی استدعا مسترد کردی۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران شہباز گل کو عدالت پیش نہ کیا جاسکا، جس پر عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ پتہ کریں کب شہباز گل کو پیش کیا جائے گا، شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری نے سماعت ایک بجے تک ملتوی کرنے کی استدعاکرتے ہوئے کہا کہ شہباز گل سے متعلقہ ہائیکورٹ میں بھی ہمارا کیس ہے وہاں  دلائل ہونے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ریمانڈ کے کیس کو ایک بجے تک تو نہیں لٹکاتے، ابھی میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کس کارروائی کی بات کر رہے ہیں، ملزم کو پیش کرنے دیں پھر دیکھ لیتے ہیں، عدالت نے شہباز گل کو ساڑھے 12 بجے تک عدالت پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سپیشل پراسیکیوٹر اگر آجاتے ان کو بھی آگاہ کر دیتے ہیں، عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا، جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے سے قبل سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی۔ ضلع کچہری پہنچنے پر پولیس نے سخت سکیورٹی میں شہباز گل پر کپڑا ڈال کر عدالت پہنچایا، شہباز گل سے پانچ وکالت نامہ دستخط کروائے گئے، دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ کدھر ہے فائل، کدھر ہے تفتیشی، اگر آپ راستہ نہیں دینگے تو تفتیشی کیسے فائل پہنچائے گا، عدالت نے شہباز گل کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کیا ملزم کی طرف سے ہیں، عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملزم ہے فائل نہیں ہے اسے کون لیکر آیا ہے، شہباز گل کے وکیل نے کہا کہ ریکارڈ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہے وہاں پر فیصلہ محفوظ ہوا ہے، ہماری استدعا ہے کہ کیس کی سماعت میں وقفہ کیا جائے، اس موقع پر شہباز گل عدالت میں بول پڑے اور کہا کہ ایس پی نوشیروان مجھے لیکر آیا ہے، کہا آپ کی ضمانت ہو گئی، مجھے سکرین شارٹ دکھایا گیا اور کہا گیا ضمانت ہو گئی، مچلکے جمع کرانے ہیں، پرائیویٹ گاڑی میں مجھے بٹھایا گیا اور ادھر لے آئے، پچھلی رات سے دیکھیں میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے ڈاکٹرز کو دکھایا ہم تو میڈیکل نہیں بتا سکتے، شہباز گل نے کہا کہ کل رات سے میں بھوک ہڑتال پر ہوں، مجھ سے کسی کو نہیں ملنے دیا جا رہا، کل رات 12 بندے میرے کمرے میں آئے مجھے پکڑا اور زبردستی کیلا اور جوس پلایا، رات 3 بجے پھر 6 سے 7 لوگ لیکر آئے مجھے کھانا کھلانے کی کوشش کی گئی، مجھے زبردستی باندھ کر دس 12 بندوں نے شیو کی، میں مونچھیں نہیں رکھتا، مونچھیں چھوڑ دی گئیں، مجھے زبردستی ناشتہ دینے کی کوشش کی گئی، مجھ پر زیادتی کی کوشش کی گئی۔ عدالت نے کہا کہ اس کا یہ مطلب تو نہیں آپ بھوک ہڑتال پر چلے جائیں۔ وکلاء  نے کہا کہ ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ وکلاء  سے ملنے کی اجازت دی جائے نہیں ملنے دیا جا رہا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم نامہ کدھر ہے اس کو دیکھ کر حکم دوں گا، آپ کہہ رہے ہیں تشدد ہے، اس کو ہتھکڑی نہیں لگائی، پولیس والے اسکے ساتھ نہیں ہیں، یہ اچھی بات ہے کہ اسکی صحت اچھی ہو گئی ہے، عدالت نے نائب کورٹ سے استفسار کیا کہ اس کیس کی فائل کدھر ہے، جس پر نائب کورٹ نے بتایا کہ وہ ہائیکورٹ میں ہے ریکارڈ بھی ادھر ہی ہے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ بغیر ریکارڈ کے ملزم کو میں نے کیا کرنا ہے، نہ میں نے ملزم کو دیکھنا ہے نہ اس نے مجھے دیکھنا ہے، جج نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں فائل آنے تک ملتوی کر دیں، جس پر  قیصر جدون ایڈووکیٹ  نے کہا کہ دو بجے تک انتظار میں رکھ لیں، ہائیکورٹ سے کہا گیا دو بجے فیصلہ آئے گا، عدالت نے استفسار کیا کہ کیس کی فائل کدھر ہے، جس پر  نے کہا کہ فائل جج صاحب کے چیمبر میں ہے اور انہوں نے فیصلہ سنانا ہے، عدالت نے کہا کہ بیشک ملزم کو نہ لیکر آئیں سماعت ڈیڑھ بجے کرتے ہیں، اتنا رش  ہے جگہ بھی تھوڑی سی ہے، وکلاء  نے دل بڑے کرنے ہیں، وکلاء نے کہاکہ ہائیکورٹ کا حکم آنے تک آپ شہباز گل کو جیل بھیج دیں، پمز ہسپتال سے ملزم ڈسچارج ہو چکا ہے، عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ شہباز گل کو کمرہ عدالت میں بٹھا دیا جائے،آپ ڈیڑھ بجے تک آجائیں ملزم کو یہاں سے لے جائیں اور سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔ اس موقع پر پولیس کی جانب سے میڈیا کو کوریج سے روکنے پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ بعد ازاں دوبارہ سماعت شروع ہونے پر بابر اعوان اور فیصل چوہدری ایڈووکیٹ بھی عدالت پہنچ گئے۔ فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ ابھی فیصلہ محفوظ ہے اس لیے ہم ادھر پیش ہوئے ہیں، جج نے ریمارکس دیے کہ میں تو ابھی فائل دیکھ کر ہی فیصلہ کروں گا، وکیل نے کہاکہ آپ کے پاس فائل نہیں آئے گی، عدالت نے کہاکہ تفتیشی کا بتا رہے ہیں وہ ہائیکورٹ میں ہے اور ریکارڈ بھی ادھر ہی ہے، بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہائیکورٹ نے کوئی ریکارڈ تفتیش کا نہیں رکھا، ہائیکورٹ میں صرف رٹ کی درخواست تھی، میں کچھ نئے حقائق سامنے لانا چاہتا ہو، جب تک ریکارڈ نہیں آتا ملزم کو عدالت پیش کرایا جائے، ہم نے ملاقات کرنی ہے، عدالت نے کہاکہ صبح جب پیش ہوا تو آپ کے وکلاء نے ملاقات کر لی تھی۔ بابر اعوان نے کہا کہ ہم نے بھی بات کرنی ہے ملاقات کرنی ہے، عدالت نے کہاکہ فائل سامنے ہو گی تو پھر معلوم ہو گا پولیس کی استدعا کیا ہے، عدالت نے نائب کورٹ کو ملزم کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ سپیشل پبلک پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی کدھر ہیں، کون بات کرے گا، جس پر فواد حیدر ایڈووکیٹ نے کہاکہ وہ نہیں ہیں انکی جگہ میں دلائل دونں گا، اس موقع پر پی ٹی آئی لیگل ٹیم نے شہبازگل کی اڈیالہ جیل میں لی گئی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کردی، بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈائری میں پولیس کیا لکھے گی؟ ڈنڈا مارا؟ لیتر مارا؟، موبائل فون پر پرچہ کردیا گیا، نمبر معلوم ہے کہاں سے بیپر ہوا، ریکارڈ آرہا ہے ، جارہا ہے، ملزم آرہا ہے، جارہا ہے، کیا سیشن جج ریمانڈ دے سکتا ہے؟ جواب ہے نہیں، سپریم کورٹ کے مطابق جیل سے بہتر ضمانت ہے، شہبازگل کو ریمانڈ میں مارنے کے  سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے؟ شہبازگل مخبر نہیں، کسی کو پکڑوانے میں مدد نہیں کرسکتے، 14 دن ریمانڈ کے مکمل ہونے پر کیس آپ کے  پاس آیا ہے، شہباز گل نے روسٹرم پر آکر کہاکہ پچھلے پانچ دن سے کپڑے نہیں دیے گئے، پانچ دنوں سے میں نہایا نہیں ہوں، میرے گھر سے کپڑے دیکر گئے انہوں چھین لیے، پچھلے چار روز سے میں ہنگر سٹرائیک پر ہوں، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اب آپ بہتر ہیں؟ جس پر شہباز گل نے کہاکہ طبعیت بہتر ہے لیکن زیادہ ٹھیک نہیں ہوں، مجھے کپڑے بھی نہیں دیے جارہے، عدالت نے کہاکہ آپ کے وکلاء اور فیملی سے ملاقات کا آرڈر کردیتے ہیں اور وکلاء  کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ شہباز گل نے کہا کہ مجھ پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ عمران خان کے خلاف بیان دوں، میرے بیس منٹ کے بیان میں خود لیکر نکالا ہو گا، میں نے پی ٹی آئی یا عمران خان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا، ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اس کے بعد بھی میرا کوئی بیان آئے تو میرا نہیں ہو گا، میرا تحریری بیان بھی آئے تو وہ میرا نہیں ہو گا، وہ تشدد سے لیا ہو گا۔ بعد ازاں عدالت نے محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے شہباز گل کو جوڈیشل پر جیل بھجوانے کی استدعا مسترد کر دی اور شہباز گل کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ پولیس شہباز گل سے تفتیش کرکے رپورٹ پیش کرے، عدالت نے پولیس تفتیشی افسر کو شہباز گل کو مکمل میڈیکل سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیا۔شہباز گل کی نئی میڈیکل رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق شہباز گل  مکمل طور پر فٹ اور ہوش میں ہیں۔ شہباز گل اپنے حواس میں اور نارمل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بورڈ نے شہباز گل کا مکمل جسمانی معائنہ کرنا چاہتا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ قبل ازیں پمز ہسپتال سے ڈسچارج معائنہ پر میڈیکل بورڈ کی تیار شدہ رپورٹ متعلقہ حکام کے حوالے کر دی گئی۔ 21 اگست کو دوپہر 2 بجے میڈیکل بورڈ نے عدالتی احکامات پر دوبارہ ہسپتال منتقل کیا۔ رپورٹ کے مطابق شہباز گل کو دمے کی شکایت پر دوائیں وقت پر دی گئ
اسلام آباد (وقائع نگار+اپنے سٹاف رپورٹر سے) اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق  نے شہباز گل پر مبینہ تشدد اور مزید جسمانی ریمانڈ منظور کرنے سے متعلق مجسٹریٹ کے احکامات کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے شہباز گل پر تشدد کے معاملہ پر وفاقی حکومت اور سیکرٹری داخلہ کو ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج کو انکوائری افسر مقرر کرنے کا حکم دیدیا۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عمران خان کے بیانات کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک زیر التوا معاملہ ہے عمران خان نے خاتون مجسٹریٹ پر بات کی، شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہاکہ عمران خان کے بیان پر دہشتگردی کا مقدمہ درج ہوگیا ہے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی جانب سے عمران خان کے بیان پر نوٹس لینے کی استدعا پر عدالت نے کہا کہ وہ ایک الگ معاملہ اس پر ہم دیکھیں گے کیا کرنا ہے، وہ پورے پاکستان کو پتہ ہے ہمارے ذہن میں ہے، کیس کا تفتیشی کہاں ہے؟۔  کیس کا ریکارڈ لائے ہیں، آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ کا کہا تھا وہ رپورٹ کہاں ہے؟، شہباز گل کے وکیل نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ شہباز گل پر پولیس حراست میں بدترین تشدد کیا گیا، جب تک جرم ثابت نہ ہو ملزم عدالت کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے، عدالت نے کہاکہ یہ پورے ملک کا واحد کیس نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کیسز تھے بعد میں بھی کیسز چلتے رہیں گے، ریمانڈ کے کیسز میں ایسی مثال نہ بنائیں، اسلام آباد تو نہیں لیکن لاہور Chok ہو جائے گا، ہائیکورٹ تو صرف اسی کیس کیلئے ہی رہ جائے گی، عدالت نے شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر کو مختلف عدالتی فیصلے جمع کرنے کی ہدایت کی، سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہاکہ شہباز گل کو عدالت نے جوڈیشل کردیا تو واپس کیوں لانا پڑا؟، کریمنل کیسز میں شواہد کو عدالت اور فریقین سے چھپایا نہیں جاسکتا، میں نے کہا کہ وہ کون سے شواہد ہیں جس کے لیے مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت ہے، شواہد مانگنے پر کہا گیا کہ ہم آپ سے کچھ بھی شئیر نہیں کرسکتے، تفتیشی کی درخواست اس معاملے پر خاموش ہے، سب کچھ لیا جاسکتا ہے مگر موبائل فون اور چشمہ نہیں لیا جاسکتا، پولیس کی ناکامی ہے کہ گرفتاری کے وقت ان سے موبائل نہیں لیا گیا، پراسیکیوشن کا کیس اگر یہ ہوتا کہ شہباز گل سے موبائل برآمد کرنا ہے تو معاملہ اور ہوتا، پولیس نے مقدمہ درج کیا کہ شہباز گل کا موبائل ان کے ڈرائیور کے پاس ہے، جج نے بھی آرڈر میں لکھا ہے کہ پرچہ میں لکھا ہے کہ موبائل کسی اور کے پاس ہے، اس موقع پر عدالت نے شہباز گل کے وکیل کو تقاریر کے حوالے سے منع کرتے ہوئے کہاکہ فریڈم آف ایکسپریشن کی تعریف ہم سب غلط پڑھتے ہیں، وکیل نے کہاکہ شہباز گل کے موبائل فون کی ریکوری کا کہا گیا کہ وہ ڈرائیور کے پاس ہے، پھر موبائل فون کی ریکوری کے لیے شہباز گل کے ریمانڈ کی کیا ضرورت ہے؟، موبائل فون اور عینک ساتھ ہی ہوتی ہے، موبائل پولیس کے پاس ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز گل سے سازش کا پتہ کرنا ہے، شہباز گل کو عدالت نے جوڈیشل کردیا تو واپس کیوں لانا پڑا؟ سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی کو جب لگے کہ مزید تفتیش کی ضرورت ہے تو مجسٹریٹ کو بتانا ہوتا ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ ابھی تفتیش میں ایسا کیا بچا ہے؟، سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ 90 فیصد تفتیش مکمل ہوگئی ہے بس کچھ اور چیزیں کرنی ہیں، ہم کچھ چیزوں کو ابھی نہیں بتا سکتے اس سے ہمارا کیس خراب ہوگا، عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ انہوں نے جو بیان دیا وہ سٹوڈیو میں بیٹھ کر دیا یا فون پر؟، جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ شہباز گل نے عمران خان کی رہائش گاہ سے لینڈ لائن پر بیان دیا ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ اگر لینڈ لائن سے بیان دیا گیا تو پھر آپ کو موبائل کیوں چاہیے؟، جس پر تفتیشی افسرنے کہاکہ شہباز گل نے جو بیان دیا تھا وہ موبائل سے پڑھ کر سنایا تھا، عدالت نے استفسار کیا کہ پولی گرافک ٹیسٹ اسلام آباد میں تو نہیں ہے آپ نے کہاں سے کرنا ہے؟، جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ پولی گرافک ٹیسٹ لاہور میں ہے وہاں سے کرانا ہوتا ہے، ٹرانسکرپٹ ہم نے ریکور کیا مگر باقی کچھ چیزیں بھی ریکور کرنا ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے پولیس ڈائری میں یہ سب کچھ لکھا ہے؟۔ دوران سماعت انسپکٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد کی جانب سے ابتدائی انکوائری رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی جس میں شہباز گل کے تشدد کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ شہباز گل پر جسمانی یا ذہنی ٹارچر کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے، ملزم نے تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے ایک ‘‘شو’’ لگایا، رپورٹ کے ساتھ شہباز گل کا قلمبند کیا گیا بیان بھی شامل کیا گیا ہے، اس موقع پرشعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد رپورٹ کی کاپی ہمیں فراہم کی جائے، ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس درخواست میں بابر اعوان وکیل نہیں، دلائل نہیں جا سکتے،  وکلاء  کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا اور بعد ازاں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے وفاقی حکومت اور سیکرٹری داخلہ کو تشدد معاملہ پر ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج کو انکوائری افسر مقرر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کے دوران ایس ایس پی رینک کا افسر سپروائز کرے، نگران افسر اس بات کو یقینی بنائے کہ ریمانڈ کے دوران شہباز گل پر کوئی تشدد نہ ہو، عدالت نے شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ریمانڈ کے معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔رات گئے پولیس نے پارلیمنٹ لاجز میں شہباز گل کے زیر استعمال کمرے پر چھاپہ مار کر اسلحہ سمیت متعدد چیزیں برآمد کرلیں۔ ایس ایس پی کی سربراہی میں پولیس نے شہباز گل کے کمرے پر چھاپہ مارا۔ پولیس پارٹی شہباز گل کو بھی ساتھ لائی تھی۔ شہباز گل کو ہتھکڑی لگائی گئی تھی۔ چھاپے کے دوران ایک پستول، فون ملا۔ شہباز گل سے اس موقع پر سوالات بھی کئے گئے۔ شہباز گل نے بتایا کہ یہ پستول میرا نہیں۔ شہباز گل کے دوسرے کمرے سے ایک سیٹلائٹ فون بھی ملا ہے۔ پولیس نے ایک پرس بھی برآمد کیا، جس میں کریڈیٹ کارڈ موجود تھے۔ کچھ دستاویزات بھی ملیں۔ شہباز گل کے دو پاسپورٹ بھی برآمد ہوئے ہیں۔ شہباز گل نے کہا کہ کمرہ میرے زیر استعمال نہیں تھا۔ کمرہ گارڈ کے زیر استعمال رہتا تھا۔ ہوسکتا ہے پستول گارڈ کا ہو یا میری گرفتاری کے بعد رکھا گیا ہو۔ یہ ریوالور پہلی مرتبہ دیکھا۔ میرے پاس اے کے 47 رائفل ہے جس کا لائسنس ہے۔ یہ ریوالور میرا نہیں۔ دو گن مین کمرے میں رہتے تھے ان سے پوچھ لیں۔ کمرے سے ملنے والا میرا پرس ڈرائیور کے پاس ہوتا تھا۔ صحافی کے سوال پر شہباز گل نے جواب دیا کہ جی ہاں میرا جنسی استحصال کیا گیا۔ کمرہ میرے زیر استعمال نہیں تھا۔ چھاپے کے وقت پارلیمنٹ لاجز میں بڑی تعداد میں نفری موجود تھی۔ کمرے کی الماری مہنگے کپڑوں سے بھری ہوئی تھی۔ شہباز گل پارلیمنٹ لاجز میں کمرہ نمبر ایف 206میں رہائش پذیر تھے۔ پولیس نے برآمد اشیاء کی فہرست مرتب کرلی۔

ای پیپر دی نیشن