ہیرو ڈوٹس کی کتاب histories کو دنیا کی قدیم تاریخ کی کتاب تسلیم کیا جاتا ہے جو کئی سو سال قبل مسیح لکھی گئی اس کتاب میں لاتعداد قدیم بادشاہوں اور بادشاہتوں کے عروج و زوال کے قصے بیان ہوئے ہیں۔کتاب میں قدیم یونانی بادشاہ ancient king کروئسس اور عظیم ترین فاتح ایرانی بادشاہ سائرس (کروش اعظم) کا ایک مکالمہ بھی درج ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ کروئسس قدیم مغربی ریاست لیڈیا کا آخری بادشاہ تھا اس نے 14 سال تک حکومت کی اور بے پناہ فتوحات حاصل کیں نتیجتاً ایک وسیع سلطنت قائم ہوئی۔ کروئسس کو زندگی میں صرف ایک جنگ میں شکست ہوئی لیکن جنگ اتنی خوفناک اور فیصلہ کن تھی کہ کروئسس کو اپنے دارالحکومت ساردیس سمیت پوری سلطنت سے ہاتھ دھونے پڑے اور وہ قید ہوا لیکن فاتح بادشاہ نے اس کی دانش اور فراست سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ نیک سلوک کیا۔ کروئسس کو شکست دینے والا بادشاہ کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ سائرس یا کوروش اعظم تھا۔ سائرس نے کروئسس کو تمام عمر ساتھ رکھا اور اس کے صائب مشوروں سے فیضیاب بھی ہوا۔ ایک موقع پر جب سائرس نے ساردیسی عوام کے فساد اور بغاوت سے تنگ آکر مردوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو (اس دور میں قابل جنگ مردوں کو قتل کر کے عورتوں اور بچوں کو غلام بنانے کا رواج عام تھا) کروئسس نے اس کے سامنے ایک حیرت انگیز منصوبہ رکھا جسے سن کر سائرس حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا اور اس کے تمام کلیدی عہدیداران عش عش کر اٹھے۔ قارئین آپ کو حیرت ہو گی کہ کئی ہزار سال قبل کروئسس کا دیا گیا مختصر مگر جامع منصوبہ آج بھی استعماری طاقتوں کی جانب سے بظاہر آزاد مگر حقیقی غلام قوموں پر انتہائی کامیابی سے آزمایا جا رہا ہے۔ تجربہ کار، گھاک، سماجی اور سیاسی امور پر دسترس رکھنے والے دانشمند کروئسس نے سائرس کے منصوبے کے جواب میں کہا کہ
"اوہ میرے بادشاہ ، تمھاری باتیں موزوں ہیں لیکن میری درخواست ہے کہ اپنے غصے کو بے قابو نہ ہونے دو۔ بے دوش و بی گناہ شہر کو تباہی سے دوچار نہ کرنا۔ جسے تم نے حاکم بنایا اس نے تمھاری حکم عدولی کی تو اسے سزا ضرور ملنی چائیے، اسے سزا دو جو وہ خود بھگتے، لیڈیاوں (لیڈیا کے عوام) کی جان بخشی کر دو اور ان کی آئندہ بغاوت یا سرکشی کو ناممکن بنانے کیلئے انھیں آلات حرب (ہتھیار) رکھنے پر پابندی لگا دو، انھیں حکم دو کہ اپنے جبوں کے نیچے کرتی پہنیں (فیشن)، ٹانگوں پر لمبے بوٹ پہنیں ۔ اپنے بیٹوں کو بربط بجانے ( آلہ موسیقی) اور دکانداری (کاروبار) کی تربیت دیں۔ اس طرح وہ جلد مردوں کی بجائے ہیجڑے بن جائیں گے اور ان کی جانب سے بغاوت یا سرکشی کا خطرہ نہیں رہے گا " ذرا سوچیں آج استعمار کہاں کہاں یہ حربہ آزما رہا ہے، وطن عزیز میں تو یہ نسخہئ کیمیا کچھ زیادہ ہی کامیاب رہا ہے اب کسی سیاسی جماعت کا جلسہ ہو کوئی نجی گھریلو یا سرکاری تقریب ہو سکول کالج یونیورسٹی کا کوئی فنکشن ہو کوئی افتتاحی تقریب ہو موسیقی کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے اب تو خیر میلاد جیسی مذہبی تقریب میں بھی موسیقی اور ساؤنڈ سسٹم کا ہونا لازمی ہو چکا۔ حال ہی میں ہونے والی یوم آزادی کی سرکاری سطح پر کی گئی تقریب جس میں وزیراعظم سمیت وزرائ، علماء بیوروکریٹ اور دیگر نمایاں افراد کی موجودگی میں جس بھونڈے انداز میں رقص و موسیقی کی محفل سجائی گئی وہ حکمرانوں کی بدذوقی اور فنونِ لطیفہ سے ناواقفیت کا منہ بولتا ثبوت تو تھی ہی اس کے علاوہ اخلاقی و معاشرتی روایت و اقدار کے انحطاط کی دلیل بھی ۔ہم ذاتی طور رقص و موسیقی کے محافل کے خلاف نہیں ایسی محافل صدیوں سے خوشی و مسرت کے مواقع کا حسن دوبالا کرتی چلی آئیں ہیں لیکن ان محافل کا دو شرائط پہ پورا اترنا شرط ہے اول یہ کہ فنون لطیفہ کے معیار پر پورا اترتی ہوں دوم بے حیائی کا اثرات سے مطلقاً پاک ہو۔محفل موسیقی کے نام پہ بے ہنگم ساز و آواز، کان پھاڑنے والے شور شرابے یا بے ڈھنگے و واہیات انداز میں تھرکتے جسموں کی نمائش فنون لطیفہ کی نہیں بلکہ بے حیائی کی تعریف میں آتی ہے۔ ایسی محافل تو نجی سطح پہ بھی قابل پابندی ہونی چاہیے کجا کہ سرکاری سرپرستی میں کروڑوں روپے ایسی بے ننگ و ناموس محافل میں بے ننگ و ناموس لوگوں پہ ضائع کر دیے جائیں۔ اس سال جشن آزادی پہ سب سے تکلیف دہ چیز انتہائی بلند آواز والے باجے ثابت ہوئے ہیں گلی محلوں میں کئی دن تک تسلسل سے بجنے والے ان باجوں کے شور شرابے نے عوام کے سکون کو غارت کیے رکھا سوشل میڈیا پہ ان باجوں کے خلاف غم و غصہ کی کچھ بازگشت سنائی دی لیکن سرکاری سطح پر کوئی انسدادی کاروائی سامنے نہ آ سکی۔ نئی نسل تو موسیقی کی اسقدر دلدادہ اور عادی ہو چکی ہے کہ سوشل میڈیا پہ اپنی تصاویر، ویڈیوز اپنے اقارب کی، دوست احباب پالتو جانوروں،اپنی نجی تقریبات کی تصاویر وغیرہ کو بھی کسی گانے سے مزین کر کے ہی آپ لوڈ کرتے ہیں اس حوالے سے درجنوں ایسی معاون ایپس متعارف ہو چکی ہیں۔اکثر سرکاری سکولوں میں پی ٹی ماسٹر موجود نہیں جو بچوں کی جسمانی صحت پہ توجہ دیں لیکن موسیقی ساؤنڈ سسٹم وغیرہ کا اہتمام فریضہ سمجھ کر کیا جاتا ہے کم و بیش یہی رحجان فیشن انڈسٹری کے حوالے سے بھی ہے جانے بیراہ روی کا یہ سفر کتنا طویل ہے۔ کروئسس کا جذبہ آزادی و حریت مدھم کرنے دوسرا نسخہ بھی بڑا بار آور ثابت ہوا، اس میں کوئی شک نہیں کہ امور دنیا نبھانے اور اہل خانہ کیلیے رزق تلاش کرنا عبادت میں شامل ہے اور بقائے نسل کے لیے لازم ہے لیکن فقط فکر معاش کے پیچھے پڑ جانا اور خواہشات کے بے لگام گھوڑے پہ سوار ہوکر باقی فکروں سے آزاد ہو جانا بھی درست نہیں آج فکر معاش میں غلطاں انسان مشین کی طرز پہ کام کرنے پر لگا دیا گیا ہے ذاتی کاروبار اور ملازمت کے اوور ٹائم نے کام کے اوقات اٹھارہ گھنٹے تک بڑھا دیے ہیں عوام کو سہولیات کے نام پہ غلام بنایا جا چکا ہے اب متمع نظر صرف جیسے تیسے ضروریات زندگی پوری کرنا ہی رہ گیا ہے، حتیٰ کہ کامیاب شخص اسے تصور کیا جاتا ہے جس کے پاس ضروریات زندگی وافر ہیں، مرد کی سرکشی، باغیانہ فطرت اور عورت کی اناء پرستی قصہ پارینہ ہوئی۔ سہولیات کے حصول کی تگ و دو اور فکر معاش میں سرکرداں انسان اکثر مقاصد دنیا بھول چکا ہے اپنے جیسے انسانوں کی غلامی کے خلاف سرکشی کا جذبہ مانند پڑ چکا ہے اب اگر احتجاج ہوتا بھی ہے تو سہولیات کے فقدان، عدم فراہمی یا پھر قیمتوں کی گرانی پہ۔ اپنا خون چوسنے والی جونکوں پہ کسی کی نظر ہے نہ پرواہ…حضرت اقبالؒ یاد آگئے
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا