مولانا قاری فتح محمد پانی پتی

ڈاکٹر ضیاء الحق قمر
آپ ذیقعدہ 1322ھ مطابق 1940ء کو محلہ ارائیاں پانی پت میں محمد اسماعیل کے ہاں پیدا ہوئے۔ ڈیڑھ برس کی عمر میں چیچک کی وجہ بینائی چلی گئی۔ چھے برس کی عمر میں والد ماجد کے سائے سے محروم ہوئے اور نو برس کی عمر میں ماں کی شفقت بھی نہ رہی۔پانچ برس کی عمر میں میاں شرف الدین سے حفظ قرآن کریم کا آغاز کیا پھر ایک استانی محترمہ امۃ اللہ کی خدمت میں تشریف لائے ان سے 27پارے حفظ کیے جبکہ مدرسہ اشرفیہ میں قاری شیر محمد خان (وفات 1347ھ) سے حفظ کی تکمیل کی۔ قاری شیر محمد خان نے آپ میں چھپے جوہر قابل کو بھانپ کر ان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ آپ نے اوائل نوجوانی میں ہی اپنے رحیم و شفیق استاد کے زیر سایہ مدرسہ اشرفیہ میں تدریس کا آغاز کیا۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان تک جاری رہا ۔ آپ نے اتنی محنت اور جانفشانی سے فرائض منصبی سرانجام دیے کہ آپ کے استاد محترم قاری شیر محمد خان نے ان کے بارے میں فرمایا، ’مجھے اپنے کسی عزیز سے یہ امید نہیں کہ میرے بعد مدرسہ کو سنبھال لے اگر امید ہے تو فتح محمدسے ہے کہ یہ اس صدقہ جاریہ کی حفاظت کر سکے۔‘ 
انھوں نے قاری فتح محمد کو اپنا جانشین مقرر کردیا۔ ان کی رحلت کے بعد قاری فتح محمد نے بھی اپنے استاد محترم کے قائم کردہ مدرسہ کی بھر پور آبیاری کی۔ مدرسہ اشرفیہ میں تدریس کے دوران ہی قاری فتح محمد مدرسہ عربیہ گنبدان، پانی پت میں درس نظامی کا آغاز کیا اور ساتھ ہی قرأت سبعہ بھی شروع کر دی۔  1346ھ میں شیخ القرأ قاری محی السلام سے قرأت سبعہ کی تکمیل کی جبکہ دورۂ حدیث شریف کے لیے 1347ھ میں عازم دارالعلوم دیو بند ہوئے۔ مولانا اصغر حسین احمد مدنی، مولاناابراہیم بلیاوی ، مولانا محمد رسول خان، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا اصغر علی اور مولانا اعزاز علی علیہم الرحمۃ جیسے اساطین علم سے شرف تلمذ کے بعد دورۂ حدیث شریف کی سعادت حاصل کی۔ 1345ھ میں مولانا قاری حفظ الرحمن صدر شعبہ تجوید دارالعلوم دیوبند سے تبرکاً قرأت عشرہ کی اجازتی سند حاصل کی۔
تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں آپ مملکت خداداد پاکستان تشریف لائے اور لاہور کے قدیمی مدرسہ جامعہ فتحیہ میں تدریس کا آغاز کیا۔ یہاں آپ نے ایک سال فرائض منصبی ادا کیے پھر پنڈ دادنخان ، جہلم تشریف لے گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد مدرسہ اشرفیہ فیض القرآن شکار پور، سندھ تشریف لے گئے اور وہاں تقریباً آٹھ برس مسند تدریس کو زینت بخشی ۔ اس کے بعد اپنے استاد محترم مفتی محمد شفیع کے حکم کی تعمیل میں دارالعلوم کراچی تشریف لائے اور تقریباً 15برس دارالعلوم کے شعبہ حفظ کی سرپرستی کی اور بطور صدر مدرس خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 1972ء میں اللہ رب العزت نے آپ کو اپنے پیارے حبیبﷺ کے پڑوس کا اعزاز بخشا اور آپ عازم مدینہ منورہ ہوئے اور تادم واپسیں وہیں قیام پذیر رہے۔ آپ کے مدینہ منورہ قیام کے دوران جامعہ فتحیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبدالرشید خلیق جو ان دنوں مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، کو قاری فتح محمد کی خدمت اور ان سے استفادہ کا پھرپور موقع ملا۔
قاری فتح محمد 1352ھ میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی سے بیعت ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد 1367ھ میں مفتی محمد حسن (بانی جامعہ اشرفیہ) کی بیعت کی۔ 1378ھ میں مفتی صاحب نے آپ کو خلافت سے نوازا۔ قاری فتح محمد سے ہزاروں افراد نے استفادہ کیا۔ آپ سے مستفید ہونے والوں نے پوری دنیا میں اپنے محترم استاد کانام روشن کیا۔ آپ نے تصنیف و تألیف کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ درج ذیل چند کتب آپ کے تبحر علمی کی شاہد ہیں:
(۱) عنایاتِ رحمانی (قصیدہ شاطبیہ حزر الامانی کی فقید المثال شرح) 
(۲) عمدۃ المبانی (یہ عنایات رحمانی کا تکملہ ہے )
(۳) القرۃ المرضیہ (الدرۃ فی القرأت الثلاث کی شرح)
(۴)  ترجمہ و مختصر شرح الوجوہ المسفرہ 
(۵) ترجمہ و مختصر شرح مقدمہ جزریہ 
(۶) تسہیل القواعد (تجوید کے آسان و ضروری قواعد کا مجموعہ)
(۷) مفتاح المال شرح تحفۃ الاطفال 
(۸) اسھل الموارد (علامہ شاطبی کے قصیدہ رائیۃ کی بے مثال اردو شرح)
(۹) سراج الغایات فی عدد الآیات 
(۱۰) کاشف العسر شرح ناظمۃ الزھر (یہ عدد آیات کے موضوع پر علامہ شاطبی کے قصیدہ کی نہایت عمدہ اور وقیع شرح ہے)
آسمان علم کا یہ روشن ستارہ اور تجوید و قرأت میں نمایاں مقام کے حامل قاری فتح محمد پانی پتی 17شعبان المعظم 1407ھ مطابق16اپریل1987ء کو ’یاایتھا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃمرضیہ‘ کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو کر قیامت کی صبح تک کے لیے جنت البقیع میں محو استراحت ہوئے۔

ای پیپر دی نیشن