جناب جو بائیڈن ایک نظر ادھر بھی!!!!!

چند ماہ گذرے پیں غالبا جون کے آخری ہفتے میں امریکی صدر جو بائیڈن اور بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات لے مشترکہ اعلامیہ میں غیر ضروری طور پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا کر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہوئی۔ جب اعلامیہ جاری ہوا تو اس وقت شاید امریکی صدر جو بائیڈن انسانی حقوق کے بخار میں مبتلا تھے کیونکہ ان کے پیارے اور لاڈلے نریندرا مودی کے ساتھ تھے۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم جنہیں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے گجرات کا قصائی کہا جاتا ہے۔ ان کی حکومت میں بھارت میں ہندوؤں کے علاوہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے زندگی مشکل بنی ہوئی ہے۔ سکھ، عیسائی اور مسلمانوں سمیت کوئی بھی سکون میں نہیں ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے تمام حقائق کو نظر انداز کیا اور اپنے متعصب اور  محبوب کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان پر برس پڑے۔ جو بائیڈن نے اس اعلامیے کے حوالے سے جو کیا غلط کیا پاکستان نے اس کی مذمت بھی کی لیکن بھارت کا دوہرا معیار اس اعلامیے اور نریندرا مودی کے ظلم و جبر کو نظر انداز کرنا انسانیت پر ظلم کے مترادف تھا۔ ایسا نہیں کہ جو بائیدن باخبر تھے کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے، ایسا نہیں کہ ان کے پاس بھارت کیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اعدادوشمار نہیں تھے۔ وہ یقینا باخبر بھی تھے اور اعدادوشمار سے مکمل واقفیت رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ظلم اور باطل کا ساتھ دیا۔ ان کا یہ عمل ناصرف انسانی دشمنی پر مبنی تھا بلکہ انصاف کے تقاضوں کے بھی مخالف تھا۔ ویسے تو کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو اور وہاں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے مسائل سامنے نہ آئیں یہ وہاں معمول ہے لیکن امریکی صدر جو بائیڈن کو اس معاملے میں بھارتی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتیں۔ اسی لیے میں آج اس جانبدار اعلامیے کو بنیاد بنا کر یہ مقدمہ اپنے معزز قارئین اور دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ جہاں میں دو مختلف واقعات جس میں بھارتی حکومت اور فوج براہ راست شریک ہے ان واقعات کا ذکر کروں گا ساتھ ہی وہ اعلامیہ بھی حوالے کے طور پر آپکے سامنے رکھوں گا تاکہ دنیا اعلامیہ جاری کرنے والے امریکہ اور بھارت کا اصل چہرہ دیکھ سکے۔ رواں برس جون کے آخری ہفتے میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد مشترکا اعلامیہ میں پاکستان سے  بھارت کو نشانہ بنانے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکا اور بھارت نے عالمی دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ساتھ کھڑے رہنے،  ہر طرح کی دہشتگردی اور پرتشدد انتہاپسندی کی مذمت کرتے ہوئے  اس بات کا اعادہ کیا کہ القاعدہ، داعش، لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین سمیت اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشتگرد گروہوں کے خلاف اجتماعی طور  پر کارروائی کی جائے دونوں رہنماؤں نے سرحد پار دہشتگردی اور دہشتگرد پراکیسز کی بھی مذمت کی اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور کارروائی کرے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اس کے زیر اثر کوئی علاقہ دہشتگردانہ حملوں کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ دونوں رہنماؤں نے ممبئی اور  پٹھان کوٹ حملوں میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا بھی مطالبہ کیا۔ یہ اعلامیہ ہے جو کہ تصویر کا ایک رخ ہے اور وہ بھی ناصرف دھندلا بلکہ مکمل طور پر مسخ حصہ ہے۔تصویر کا دوسرا رخ جو کہ حقائق پر مبنی ہے لیکن امریکہ سمیت عالمی طاقتیں دیکھنا نہیں چاہتیں۔ اظہار رائے کے نام نہاد علمبرداروں کو خبر ہو کہ بھارت نے سری نگر کے ایک اہم میڈیا ادارے کی ویب سائٹ کو بلاک کر دیا ہے۔ جو بائیڈن کے ساتھ مل کر اعلامیہ جاری کرنے والے نریندرا مودی نے سری نگر کے میڈیا ادارے کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی بند کر دیے  ہیں۔ ویب سائٹ کے بانی ایڈیٹر فہد شاہ کو گزشتہ سال انسداد دہشتگردی قانون کے تحت گرفتار اور  فیک نیوز پھیلانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ان الزامات کے تحت فہد شاہ آج بھی قید میں ہیں۔ ویب سائٹ کے ایک معاون سجاد گل بھارتی ریاست اتر پردیش کی جیل میں قید ہیں۔ اب گذشتہ روز کی خبر ہی دیکھ لیں بھارتی سمگلر گرفتار ہو رہے ہیں اور جو بائیڈن پاکستان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔پاکستان رینجرز نے بھارت کی طرف سے منشیات اور ہتھیاروں کی سمگلنگ ناکام بناتے ہوئے چھ بھارتی اسمگلروں کو گرفتار کیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق انتیس جولائی تا تین اگست دراندازی کی کوششوں میں چھ بھارتی سمگلر گرفتار ہوئے ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق گرفتار بھارتی شہریوں میں گرمیج سنگھ، شندر سنگھ، جگندر سنگھ، وشال سنگھ،  مہندر سنگھ اور گروندر سنگھ کو گرفتار کیا گیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق گرفتار سمگلروں کے خلاف پاکستان میں غیرقانونی داخلے پر پاکستانی قوانین اور ریاست مخالف سرگرمیوں پر کارروائی ہوگی۔کیا دنیا نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں کیا آزادی اظہار کے چیمپیئن اور دہشتگردی کو روکنے کے لیے باتیں کرنے والوں کو نظر نہیں آتا کہ بھارت کیسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں چور مچائے شور۔ جو بائیڈن کو وقت ملے تو یہ ضرور دیکھیں کہ ان کا پیارا نریندرا مودی کیا کر رہا ہے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ پھر بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی فوج نے  ایل او سی کے نکیال سیکٹر  پر  بلااشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ساٹھ سال کا غیاث شہید اور فائرنگ سے کھیتوں میں گھاس کاٹنے والی تین خواتین بھی زخمی ہوئی ہیں۔ان سب چیزوں کو ایک طرف رکھ دیں جو ظلم کشمیر میں ہو رہا ہے اگر دنیا غیر جانبدار ہو کر جائزہ لے تو کسی کو شک نہیں رہے گا کہ بھارت واقعی ایک دہشت گرد ملک ہے۔
آخر میں مرزا غالب کا کلام
یہ  نہ  تھی  ہماری  قسمت  کہ  وصال  یار  ہوتا
اگر     اور    جیتے    رہتے    یہی    انتظار    ہوتا 
ترے  وعدے  پر  جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ  خوشی  سے  مر   نہ   جاتے  اگر  اعتبار  ہوتا
تری   نازکی  سے  جانا   کہ  بندھا  تھا عہد  بودا
کبھی   تو    نہ    توڑ   سکتا   اگر   استوار   ہوتا 
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ  خلش  کہاں  سے  ہوتی  جو  جگر  کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی  چارہ  ساز   ہوتا   کوئی   غم  گسار    ہوتا 
رگ  سنگ  سے  ٹپکتا  وہ  لہو  کہ  پھر  نہ تھمتا 
جسے  غم  سمجھ  رہے  ہو   یہ   اگر   شرار  ہوتا 
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم    عشق    گر    نہ    ہوتا  غم   روزگار    ہوتا 
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے  کیا  برا   تھا   مرنا   اگر   ایک   بار   ہوتا
ہوے مر کے ہم جو رسوا ہوے کیوں نہ غرق دریا
نہ  کبھی   جنازہ   اٹھتا   نہ   کہیں   مزار   ہوتا 
اسے  کون  دیکھ  سکتا  کہ  یگانہ  ہے  وہ   یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ    مسائل    تصوف    یہ    ترا    بیان   غالب
تجھے  ہم  ولی  سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

ای پیپر دی نیشن