وزیراعظم کے حسن سلوک اور بھرپور امداد نے متاثرین کے دل جیت لئے
نگران وزیراعظم کی طرف سے سانحہ جڑانوالہ کے متاثرین میں 20‘ 20 لاکھ کے چیک تقسیم کرنے کی تقریب میں بہت جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ وزیراعظم نے نہایت محبت کے ساتھ متاثرین کی دادرسی کی۔ انہیں گلے سے لگایا اور احترام دیا۔ کیا کسی اور ملک میں خواہ وہ ترقی یافتہ تہذیب یافتہ ہی کیوں نہ ہو‘ تالیف قلوب کے ایسے مناظر نظر آتے ہیں۔ روٹین کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔ یوں گلے لگانا‘ گھروں اور گرجوں کی تعمیرو مرمت کی ذمہ داری نبھانا‘ مالی مدد کرنا بے شک ہمارے مذہب کی اعلیٰ روایات کو نمایاں کرتے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے مگر یہاں آباد ہر شہری کو قانون برابری کا درجہ حاصل ہے۔ انہیں ہر طرح کی رعایت اورسہولت حاصل ہے۔ اس کے برعکس ہمارے پڑوس میں سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک بھارت میں آئے روز اقلیتوں کی زندگی اجیرن کی جاتی ہے۔ مساجد‘ گرجے‘ گھر‘ دکانیں جلائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں‘ عیسائیوں کا قتل عام کیا جاتا ہے مگر کبھی وہاں کے کسی صدر یا وزیراعظم نے آکر ان متاثرین کے سروں پر ہاتھ نہیں رکھا۔ موجودہ وزیراعظم مودی اور ان کے کئی وزیر اور وزرائے اعلیٰ جن میں امیت شاہ اور آدیتہ یوگی پیش پیش ہیں تو اقلیتوں کے قتل عام پر عالمی سطح پر بدنام ہیں مگر کسی نے بھی آج تک متاثرین کیلئے ایک لفظ ہمدردی بھی ادا نہیں کیا۔ یہی حال اسرائیل کا ہے‘ وہ جب چاہے فلسطین کے مسلم عوام کا قتل عام کرتا ہے۔ کوئی آواز تک بلند نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس اگر اسرائیل میں کوئی جوابی کارروائی ہو تو دنیا بھرمیں دہشت گردی کا شور اٹھتا ہے۔
٭٭……٭٭
ہائیکورٹ نے پرویزالٰہی کی تمام مقدمات میں ضمانت بحال کر دیں
شکر ہے اب ان کے حواس بھی بحال ہوں گے۔ امید ہے نئی حکومت چودھری پرویزالٰہی کے حوالے سے کوئی رحمدلانہ فیصلہ کرے گی۔ یوں بھی انہوں نے جتنا برداشت کیا‘ یہی بہت ہے۔ ورنہ وہی غالب والی بات ہی گرہ باندھ لی جائے۔
حد چاہے سزا عقوبت کے واسطے
آخر گہنگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
چودھری صاحب ویسے بھی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں تمام تر خواہش اورکوشش کے باوجود جوانی لوٹ کر نہیں آتی۔ چاہے جتنا زور لگا لیں۔ تھوڑی سی تقریر کے بعد سانس اکھڑنے لگتی ہیں۔جتنی سیاست انہوں نے کرنی تھی کر لی۔وہ کم از کم وڈھے چودھری کی طرف ہی دیکھ لیں۔ انہوں نے گرچہ عملاً سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے مگر اپنے بیٹوں کو سیاسی میدان میں فعال کر دیا ہے۔ تربیت کا کام البتہ خود کرتے ہیں۔
اب نکے چودھری بھی آرام کریں اور مونس الٰہی کو بلا کر ذرا آزمائشوں کی بھٹی میں ڈال کر کندن بنائیں۔ آخر شریف برادران و دیگر کے ساتھ بھی آزمائش کے دور میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ شیخ رشید بھی جیل کو سسرال اور ہتھکڑیوں کو زیور قرار دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان سے دور بھاگتے ہیں، چھپ کر بیٹھے بڑھکیں مارتے ہیں۔ کاش ہمارے سیاستدان جب اقتدار میں ہوں تو فرعون بننے کی بجائے انسان بن کر رہیں تو بہت سی بْرائیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اقتدار میں یہ فرعون اور فارغ ہونے کے بعد سادھو بن جاتے ہیں۔ اب کیا کریں کہ یہ سترے بہترے سیاستدان خود کو نجانے کس منہ سے نوجوانوں کا لیڈر کہتے ہیں۔ یاد رہے کشمش کو جو چاہے کر لیں وہ دوبارہ انگور نہیں بن سکتا۔ اس لئے یہ عمر رسیدہ سیاستدان وہی کام کریں جو اس عمر میں کرنے والے ہیں۔ زیادہ کھلنڈرے بننے کی کوشش خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
٭٭……٭٭
پاکستان اورسعودی عرب میں عمرہ و حج کے اخراجات میں کمی کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط
یہ ایک بڑا اچھا اقدام ہے۔اس سے جہاں فضائی سروس (پروازوں) میں اضافہ کیا جائے گا‘ اس کے ساتھ ہی عمرہ میں قیام کی مدت بھی بڑھائی گئی ہے جو 30 سے 90 روز ہو گئی ہے۔ اب حج وعمرہ پر جانے والے زائرین سعودی عرب میں دیگر مقامات پر بھی جا سکیں گے۔سعودی عرب نے ہمیشہ عمرہ و حج زائرین کیلئے خدمات و سہولتوں کا خاص خیال رکھا ہے۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی حج و عمرہ پر جاتے ہیں۔گزشتہ کئی برسوں سے حج و عمرہ پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے پاکستانی بہت پریشان ہیں۔ اس میں کمی سعودی عرب نے نہیں‘ پاکستان نے لانی ہے جبکہ ہمارے صرف فضائی اخراجات ہی دیکھ کر غش آنے لگتا ہے۔ عام پاکستانی پیسہ پیسہ جوڑکر یہ سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر اخراجات میں بھاری اضافہ دیکھ کر وہ دل تھام کر رہ جاتا ہے۔ اس کی حسرت دل میں ہی رہ جاتی ہے۔
حج یا عمرہ پر جانے والے ادارے بھی خوب کمانے کے چکر میں زیادہ پیسے لیکر بہت کم سہولت دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ اخراجات میں کمی کا ہے۔ ہماری حکومت کے پاس وہ چابی ہے جو یہ تالہ کھول سکتی ہے۔ فضائی اخراجات میں کمی لا کر ہی کچھ سہولت دی جا سکتی ہے۔ حج و عمرہ کرانے والے ادارے بھی خدا خوفی سے کام لیں۔ غریبوں کیلئے یہ سعادت مشکل نہیں آسان بنائے۔ ہاں جو لوگ الحاج کہلانے کے شوق میں رہتے ہیں‘ تیسری اور چوتھی بار حج اوعمرہ پر جاتے ہیں‘ ان سے بے شک مناسب اخراجات وصول کریں۔ پہلی مرتبہ یہ سعادت حاصل کرنے والوں کے معاملے میں ہتھ ہولا رکھیں۔ اب تو کوٹہ بھی زیادہ کر دیا گیا ہے۔ اس سے بھی انہی اداروں کو فائدہ ہوگا۔ پاکستانی بھی الحاج سے زیادہ صرف حاجی کہلوانے پر اکتفاکریں اور اپنے اعمال بہتر بنائیں ورنہ حاجی یا الحاج کہلانے کا کیا فائدہ۔
٭٭……٭٭
سری لنکا میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ون ڈے کرکٹ سیریز شروع
حیرت کی بات ہے کرکٹ میں پاکستان کو عالمی سطح پر ایک اہم مقام حاصل ہے۔اس کے برعکس ہمارے پڑوسی ملک افغانستان نے چند سالوں سے اس کھیل میں انٹری کی ہے۔ اس کے پاس جوکھلاڑی دستیاب ہیں‘ ان کی تربیت بھی پاکستان میں ہی ہوئی ہے۔ یہ وہ افغان مہاجرین کی نسل ہے جو پاکستان میں پیدا ہوئی‘ پلی بڑھی اور یہاں کے گلی کوچوں اور میدانوں میں انہوں نے بیٹ اور بال پکڑنا سیکھا۔ آج یہی بچے کھلاڑی بن کر عالمی کرکٹ کے میدان میں جگہ بنا رہے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ یہ دونوں ممالک آخر کیا وجہ ہے اپنے ملک میں باہمی مقابلے بھی نہیں کرا رہے۔ وہ بھی ایک ایسا ملک جوخود بھی انہی دونوں ممالک کی طرح معاشی بدحالی اور پریشانیوں کا شکار ہے۔ افغانستان میں تو تباہی اور بربادی کی ایک طویل رقم ہوتی چلی آرہی۔ پاکستان میں بفضل خدا کھیلوں کے میدان آباد ہیں تو یہ مقابلے یہاں کراتے ہوئے کی موت پڑ رہی تھی۔ کیا افغان ٹیم پاکستان میں کھیلنے سے انکاری ہے۔ کیا انہیں یہاں کوئی خطرہ ہے۔ ویسے تو 20 لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین ابھی تک پاکستان میں ہی رہ رہے ہیں۔ رہی بات افغانستان کی تو وہاں شاید ہی کوئی کرکٹ سٹیڈیم ہو‘ جہاں عالمی سطح کے میچ کھیلے جا سکتے ہوں۔ اگر ہوتے تو پاکستانی ٹیم وہاں جا کر کھیلنے ضرور جا تی ، کبھی نہیں گھبراتی۔ ہمارے بہادر کھلاڑی تو بھارت میں جا کر کھیلنے سے خوفزدہ نہیں حالانکہ وہاں مسلمانوں سے سخت نفرت کی جاتی ہے۔ ان کے خلاف ہر وقت منفی پراپیگنڈا مہم چلتی رہتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا چند میچ افغانستان میں‘ چند میچ پاکستان میں ہوتے اور دونوں ملکوں کے لوگ اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے موجود ہوتے حالانکہ تاریخ گواہ ہے افغان شائقین حوصلہ افزائی سے زیادہ بدزبانی اور دھینگامشتی پر یقین رکھتے ہیں جو نہایت غلط حرکت ہے۔