پاکستان اور آئین ِ پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کی یقیناً یہ آخری سازش تھی جو فرقہ عمرانی کی باقیات کی جانب سے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے ذریعے کی گئی۔ یہ سازش بیرونی دنیا کو پاکستان کی بھد اڑانے کا نادر موقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سسٹم کی بساط لپیٹنے کا موقع فراہم کرنے کی بھی تھی۔ صدر علوی کے سیکرٹری وقار احمد کی جانب سے صدر علوی اور وزیر اعظم سیکرٹیریٹ کو بھجوائے گئے مراسلہ کی بنیاد پر اس سازش کی پرتیں کھل رہی ہیں تو اس سازش میں شریک شخصیات یا کسی فرد واحد پر آئین و قانون کی عملداری کے راستے بھی کھلتے نظر آرہے ہیں۔ یہ عملداری آئین کی دفعہ 6 کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے اور ملک کی سالمیت کو دھچکا لگانے کی پاداش میں مروجہ فوجداری قوانین کے تحت بھی۔ اس فرقے کی جانب سے ایک قانونی پھندا 9 مئی کے واقعات کے ذریعے اپنے لئے خود ہی تیار کیا گیا اور اب دوسرا پھندا جو ظاہر ہے اس فرقے کے سازشی سلسلہ کی آخری کڑی ہے، ٹائیگر علوی کے ہاتھوں تیار کرایا گیا جسے حبِ عمرانی کے اسیر بعض حلقوں کی جانب سے نقار خانے میں طوطی کی آواز سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ مگر اس کا منطقی انجام دیکھ کر ان حلقوں کو بھی بخوبی سمجھ آجائیگی کہ ریاست اور ریاستی مفادات کے ساتھ ٹکرانے کا بالآخر انجام کیا ہوتا ہے۔
اس آخری سازش پر اپنی رائے کا اظہار کرنے سے پہلے میں آئین کی دفعہ 75 کی متعلقہ ذیلی دفعات کے مندرجات ان سطور میں شامل کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آگے چل کر میں وضاحت کر سکوں کہ آئین کے ساتھ کھلواڑ کیسے ہوا ہے اور سسٹم کو لپیٹنے کا موقع فراہم کرنے کا راستہ کیسے نکالا گیا ہے۔ دفعہ 75 پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے منظور کردہ کسی بل (ماسوائے مالیاتی بل کے) کی صدرسے منظوری یا صدر کی منظوری حاصل نہ ہونے کے باوجود اس کے اطلاق سے متعلق ہے۔ اس آئینی دفعہ کا پہلا حصہ صدر مملکت کو پابند کرتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے منظور کردہ مسودہ قانون پر دس دن کے اندر اندر دستخط کرکے اسے بطور قانون نوٹیفائی کرنے کیلئے وزارت قانون کو بھجوائیں گے اور اگر انہیں اس مسودۂ قانون پر کوئی اعتراض ہوگا یا وہ اس میں کسی قسم کی ترمیم کرانا چاہیں گے تو وہ باضابطہ طور پر اپنی تحریری سفارشات کے ساتھ یہ مسودہ ٔقانون پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیں گے۔ چنانچہ یہ مسودہ قانون پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ پیش ہوگا۔ پارلیمنٹ صدر کی بھجوائی گئی سفارشات پر اس مسودہ قانون میں ردوبدل بھی کر سکتی ہے یا من و عن اسی مسودہ قانون کی دوبارہ منظوری دے سکتی ہے جس کے بعد یہ مسودہ توثیق کیلئے دوبارہ صدر مملکت کو بھجوایا جائیگا جس کی دفعہ 75 کے دوسرے حصے میں وضاحت موجود ہے۔ اسکے تحت صدرمملکت دس دن کے اندر اندر اس مسودۂ قانون پر دستخط کرنے کے پابند ہیں اور اگر مقررہ میعاد کے اندر وہ دستخط نہیں کرتے تو یہ مسودۂ قانون ازخود منظور شدہ تصور کیا جائیگا جس کا وزارت قانون کی جانب سے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے طور پر نوٹیفکیشن جاری ہو جائیگا۔
اب آتے ہیں صدر علوی کی جانب سے کھیلی گئی اس سازشی گیم کی جانب جس کا مقصد سراسر ملک‘ آئین اور سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کا تھا۔ رواں ماہ 9 اگست کو تحلیل ہونیوالی قومی اسمبلی میں اسکی تحلیل سے دس روز قبل آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت پندرہ مسودات قانون منظور کئے گئے جن کی سینیٹ سے منظوری لینے کے بعد یہ پندرہ کے پندرہ مسودات قانون 2، اگست کو توثیق کیلئے صدر مملکت کو بھجوائے گئے۔ صدر نے دس دن کے اندر اندر انکی توثیق کرنی تھی یا پارلیمنٹ کو اپنی تحریری سفارشات کے ساتھ واپس بھجوانا تھے۔ چونکہ حکومتی اتحادی قیادتوں کی باہمی مشاورت سے اسمبلی کو اسکی آئینی میعاد مکمل ہونے سے تین روز قبل تحلیل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا جس کا یقینی طور پر صدر علوی کو بھی علم تھا۔ اگر انکے ذہن میں کوئی سازشی تھیوری پروان نہ چڑھ رہی ہوتی تو وہ اسمبلی کی تحلیل سے پہلے پہلے ان تمام بلوں کی توثیق کرکے وزارت قانون کو بھجوا دیتے یا اپنی تحریری سفارشات کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیتے تاکہ وہ ان بلوں کے قانون کے قالب میں ڈھلنے کا ساراآئینی اور پارلیمانی پراسس اسمبلی کی تحلیل سے پہلے پہلے مکمل کرلیتی۔ صدر صاحب نے گیم یہ کھیلی کہ 13 مسودات قانون کی تو اسمبلی کی تحلیل سے پہلے توثیق کر دی مگر آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ والے دومسودات قانون اپنے پاس دبا کر رکھ لئے۔ اسکے پیچھے آئین اور سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کی یہی سوچ کارفرما تھی کہ وہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد ان دونوں بلوں کو پارلیمنٹ میں واپس بھجوائیں گے تو اس وقت پارلیمنٹ ادھوری ہو گی اور ان بلوں کی پارلیمنٹ سے دوبار منظوری کی نوبت ہی نہیں آپائے گی۔ یہ سازشی منصوبہ بذات خود آئین کی دفعہ 75 کی روح کے منافی تھا کیونکہ کسی مسودہ قانون کو اس میں بہتری لانے کیلئے 9 دن تک اپنے پاس رکھنے کا صدر مملکت کا اختیار خالصتاً نیک نیتی کے ساتھ مشروط ہے۔ بصورت دیگر اس اختیار کا استعمال کسی بدنیتی کے شائبے کے تحت بھی صدر کے اسمبلی توڑنے کے صوابدیدی آئینی اختیارکو کالعدم قراردینے سے متعلق سپریم کورٹ کے 1993ء کے فیصلہ کی زد میں آسکتا ہے اور اختیارات سے متجاوز قرار پا سکتا ہے۔ موجودہ کیس میں تو صدر علوی کی بدنیتی امڈی پڑی نظر آتی ہے۔
اب صدر علوی صاحب داعی ہیں کہ انہوں نے ایوان صدر کے متعلقہ سٹاف کو یہ دونوں مسوداتِ قانون (جن کے مندرجات سے وہ متفق نہیں تھے) انکے دستخطوں کے بغیر واپس بھجوانے کی ہدایت کر دی تھی۔ کیا انہوں نے یہ ہدایت زبانی طور پر کی یا آئین کی دفعہ 75 کے تقاضوں کے تحت انہوں نے اپنی سفارشات بھی ضبط تحریر میں لا کر متعلقہ سٹاف کے حوالے کیں۔ اس حوالے سے یہ معاملہ تو واضح ہو چکا ہے کہ صدر علوی نے متذکرہ دونوں مسودات قانون پر اپنے دستخط نہیں کئے اس لئے انکے دستخطوں کے ساتھ ان مسودات قانون کی توثیق کے حوالے سے میڈیا پر چلنے والی خبریں قطعی بے بنیاد تھیں۔ یہ معاملہ الگ سے تحقیق کا متقاضی ہے کہ میڈیا پر یہ خبریں کہاں سے آئیں۔ اسکے ذمہ داروں کو بھی یقیناً کٹہریمیں لایا جانا چاہیے۔
صدر صاحب فرماتے ہیں کہ انکے سٹاف نے انہیں دھوکے میں رکھا اور انکے کہنے کے باوجود دونوں متعلقہ بل واپس نہیں بھجوائے۔ اس معاملہ میں صدر کی جانب سے سبکدوش کئے گئے انکے سیکرٹری وقار احمد نے بھی باقاعدہ حلفیہ بیان اپنے مراسلے کے ذریعے دیا ہے کہ صدر صاحب نے نہ ان بلوں پر دستخط کئے نہ انہیں واپس بھجوانے کی ہدایات اپنی سفارشات کے ذریعے بھجوائیں۔ اگر صدر صاحب بذات خود متذکرہ مسودات قانون سے تحریری طور پر اختلاف کرنے کی جرات نہیں کرپائے تو وہ اپنے سٹاف سے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے غیرآئینی اقدام کا رسک لینے کی کیسے توقع کر سکتے ہیں۔
اس صورتحال میں یہ حقیقت تو واضح ہو گئی کہ صدر نے آئین کی دفعہ 75 کے تقاضوں کے مطابق نہ تو دس دن کے اندر اندر متذکرہ بل واپس بھجوائے نہ انکی توثیق کی۔دفعہ 75 کے پہلے حصے کی روح کے مطابق اگر صدر کسی مسودہ قانون کی دس دن کے اندر اندر توثیق نہیں کرتے اور نہ ہی اسے پارلیمنٹ کو واپس بھجواتے ہیں تو اس مسودۂ قانون کی کیا حیثیت ہوگی‘ اس بارے میں تو آئین میں کسی قسم کی وضاحت موجود نہیں تاہم میری دانست میں اس صورت میں دفعہ 75 کا دوسرا حصہ ازخود لاگو ہو جائیگا اور اس مسودہ قانون کو قانون کے قالب میں ڈھال دیگا جو صدر کی جانب سے توثیق نہ ہونے کی صورت میں کسی مسودۂ قانون کے ازخود قانون بننے سے ہی متعلق ہے۔ آخر صدر کی کسی بدنیتی کی سزا آئین کے تحت چلنے والے سسٹم کو کیوں دی جائے۔ بہرحال اس معاملے پر حتمی رائے تو سپریم کورٹ نے ہی دینی ہے جو آئین کی کسی دفعہ میں ابہام کی صورت میں اسکی تشریح کا مجاز فورم ہے۔ اس کیلئے اصولی طور پر تو صدر علوی کو خود سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہوگا ورنہ ملک‘ سسٹم اور آئین کیخلاف انکی سازش کا بھانڈا تو بیچ چوراہے کے پھوٹ چکا ہے۔ انہوں نے خود پر آئین کی دفعہ 6 کے اطلاق میں کوئی کسر تو نہیں چھوڑی۔