ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے پوچھا گیا سب سے بہتر عمل کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ عبداللہ بن حبشی خثعمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے پوچھا گیا کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ایسا ایمان جس میں کوئی شک نہ ہو، اور ایسا جہاد جس میں چوری نہ ہو، اور حج مبرور،انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا تین چیزیں جس میں ہوں گی، وہ ایمان کی مٹھاس اور اس کا مزہ پائے گا، ایک یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہوں، دوسرے یہ کہ آدمی محبت کرے تو اللہ کے لیے اور نفرت کرے تو اللہ کے لیے، تیسرے یہ کہ اگر بڑی آگ بھڑکائی جائے تو اس میں گرنا اس کے نزدیک زیادہ محبوب ہو بہ نسبت اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے نجات دی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص آیا، جس کے کپڑے بہت سفید اور بال بہت کالے تھے، اس پر سفر کے آثار بھی نہیں دکھائی دے رہے تھے اور ہم میں سے کوئی اسے جانتا بھی نہیں تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے پاس آ کر بیٹھا اور اپنے گھٹنے کو آپ کے گھٹنے سے لگا لیا، اپنی ہتھیلیاں آپ کی رانوں پر رکھی، پھر کہا محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکواۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا، اور اگر طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج کرنا، وہ بولا آپ نے سچ فرمایا، ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ خود ہی آپ سے سوال کرتا ہے اور پھر خود ہی اس کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر بولا مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا اللہ پر اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر، اور ہر اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا وہ بولا آپ نے سچ فرمایا۔ اس نے کہا مجھے احسان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے وہ بولا اب مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ اس نے کہا اچھا تو مجھے اس کی نشانی بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا ایک یہ کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی دوسرے یہ کہ تم دیکھو گے کہ ننگے پائوں، ننگے بدن، مفلس اور بکریاں چرانے والے بڑے بڑے محل تعمیر کریں گے۔ عمر ؓ کہتے ہیں میں تین (دن) تک ٹھہرا رہا۔ پھر مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا عمر! تم جانتے ہو پوچھنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا: وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے، تمہیں تمہارے دین کے معاملات سکھانے آئے تھے۔
ابوہریرہ اور ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم صحابہ کے درمیان اس طرح بیٹھتے تھے کہ اجنبی آتا تو آپ کو پہچان نہیں پاتا جب تک پوچھ نہ لیتا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے خواہش ظاہر کی کہ ہم آپ کے بیٹھنے کی جگہ بنادیں تاکہ جب کوئی اجنبی شخص آئے تو آپ کو پہچان لے، چناچہ ہم نے آپ کے لیے مٹی کا ایک چبوترہ بنایا جس پر آپ بیٹھتے تھے۔ ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم اپنی جگہ پر بیٹھے تھے، اتنے میں ایک شخص آیا، جس کا چہرہ سب لوگوں سے اچھا تھا، جس کے بدن کی خوشبو سب لوگوں سے بہتر تھی، گویا کپڑوں میں میل لگا ہی نہ تھا، اس نے فرش کے کنارے سے سلام کیا اور کہا السلام علیک یا محمد اے محمد! آپ پر سلام ہو، آپ نے سلام کا جواب دیا، وہ بولا اے محمد! کیا میں نزدیک آئوں؟ آپ نے فرمایا آئو، وہ کئی بار کہتا رہا: کیا میں نزدیک آئوں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم اس سے فرماتے رہے: آئو، آئو، یہاں تک کہ اس نے اپنا ہاتھ آپ کے دونوں گھٹنوں کے اوپر رکھا۔ وہ بولا اے محمد! مجھے بتائیے اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو، نماز ادا کرو، زکواۃ دو، بیت اللہ کا حج کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ وہ بولا جب میں ایسا کرنے لگوں تو کیا میں مسلمان ہوگیا؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا ہاں، اس نے کہا آپ نے سچ کہا۔ جب ہم نے اس شخص کی یہ بات سنی کہ آپ نے سچ کہا تو ہمیں عجیب لگا (خود ہی سوال بھی کرتا ہے اور جواب کی تصدیق بھی)۔ وہ بولا محمد! مجھے بتائیے، ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، کتاب پر، نبیوں پر ایمان رکھنا اور تقدیر پر ایمان لانا، وہ بولا کیا اگر میں نے یہ سب کرلیا تو میں مومن ہوگیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا ہاں، وہ بولا آپ نے سچ کہا۔ پھر بولا محمد! مجھے بتائیے، احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ وہ بولا آپ نے سچ کہا۔ پھر بولا وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ وہ بولا آپ نے سچ کہا۔ پھر بولا محمد! مجھے بتائیے کہ قیامت کب آئے گی؟ یہ سن کر آپ نے اپنا سر جھکا لیا اور اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے سوال دہرایا تو آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اس نے پھر سوال دہرایا تو آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ قیامت کے آنے کے متعلق سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ البتہ اس کی کچھ نشانیاں ہیں جن سے تم جان سکتے ہو: جب تم دیکھو کہ جانوروں کو چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنا رہے ہیں اور دیکھو کہ ننگے پائوں، ننگے بدن پھرنے والے زمین کے بادشاہ ہو رہے ہیں اور دیکھو کہ غلام عورت اپنے مالک کو جنم دے رہی ہے (تو سمجھ لو کہ قیامت نزدیک ہے) پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پھر آپ نے کہااللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے (سورۃ لقمان: 34) سے لے کر (ہر چیز کا جاننے والا) اور خبیر (ہر چیز کی خبر رکھنے والا) ہے کی تلاوت کی، پھر فرمایا نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے محمد کو حق کے ساتھ ہادی و بشارت دینے والا بنا کر بھیجا، میں اس کو تم میں سے کسی شخص سے زیادہ نہیں جانتا، وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے جو دحیہ کلبی کی شکل میں آئے تھے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی نے کچھ لوگوں کو عطیہ دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا، سعدؓ نے کہا اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو کچھ نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے؟ تو آپ ؐنے فرمایا: بلکہ وہ مسلم ہے۔ سعد ؓ نے تین بار دہرایا (یعنی وہ مومن ہے) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم (ہر بار) کہتے رہے وہ مسلم ہے ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا میں بعض لوگوں کو عطیہ دیتا ہوں اور بعض ایسے لوگوں کو محروم کردیتا ہوں جو مجھے ان سے زیادہ محبوب ہیں ، میں اسے اس اندیشے سے انہیں دیتا ہوں کہ کہیں وہ اپنے چہروں کے بل جہنم میں نہ ڈال دیئے جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، ان سنتوں کو پھیلانے اور اس کے لیے کام کرنے والوں کو ہمت عطاء فرمائے۔