مہاتما کی فرمائش سمجھنے میں غلطی

ترنول میں پی ٹی آئی کا جلسہ ملتوی ہونے کی خبر پارٹی رہنما شیر مرو ت نے ایک روز پہلے ہی دے دی تھی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترنول کی جلسہ گاہ بہت چھوٹی ہے۔ لوگوں نے اس بیان کا مطلب جو بھی سمجھا ہو، اصل مطلب یہی تھا کہ ارے، اتنی چھوٹی جگہ پر جلسہ کیا کرنا، پھر کبھی کسی اور جگہ پر کر لیں گے۔ پارٹی رہنمائوں کے مطابق سات لاکھ افراد نے جلسہ گاہ میں آنا تھا۔ اتنی بڑی تعداد کے پیش نظر پارٹی کو اگلے جلسے کا مقام دیوسائی کے میدان کو رکھنا چاہیے۔ وہاں سات کیا، ستر لاکھ افرادبھی سما سکتے ہیں اور اتنا دور بھی نہیں ہے، بس سکردو پہنچے اور وہاں سے دیوسائی۔ عالمی ورثے میں دیوسائی پہلے ہی شامل ہے حقیقی آزادی والے وہاں پہنچ گئے تو اس دیو مالائی مقام کی یادگاری اہمیت اور بھی بڑھ جائے گی۔ پارٹی نے جلسے کی نئی تاریخ 7 ستمبر رکھی ہے۔ امید ہے جلسہ گاہ کا انتخاب بھی کر لیا جائے گا۔ چلو چلو دیوسائی چلو!
______________
مہاتما نے مطالبہ کیا کہ جنرل فیض حمید پر جو کورٹ مارشل کی کارروائی ہو رہی ہے، اسے کھلی عدالت میں چلایا جائے اور کارروائی براہِ راست نشر بھی کی جائے۔ اس پر عسکری ذرائع نے انہیں زبردست ڈانٹ پلائی اور کہا میاں تم کون ہوتے ہو جو فوج کو اس کے اندرونی معاملے پر ہدایات دے رہے ہو۔ ذرائع کے سامنے دراصل حقائق پوری طرح واضح نہیں تھے اس لئے ڈانٹ پلا دی۔ مہاتما کا مقصدکہنے کا یہ تھا کہ مجھ پر مقدمہ کھلی عدالت میں چلایا جائے۔ ایک ماجرا من تو شدی تو من شدی والا ہونا ہے۔ مہاتما کا معاملہ جنرل فیض حمید کے ساتھ یہ نہیں ہے۔ اس میں تو ایک فرمائش اور تجویز ہوتی ہے کہ میں تْو ہو جائوں اور تْو میں ہو جائے۔ مہاتما اور فیض کا معاملہ من تو شدہ تو من شدہ والا ہے۔ یعنی میں تو ہو چکا اور تو میں ہو چکا۔ مہاتما کے مطالبے کو اس تناظر میں دیکھتے تو ذرائع کبھی ہش ہش والی ڈانٹ نہ پلاتے۔ 
مہاتما اور فیض ایک جان دو کلبوت تھے اور ہیں تَینوں تاپ چڑھے تے میں ہْونگاں والا معاملہ ہے، چنانچہ مہاتما نے جب یہ کہا کہ فیض پر مقدمہ کھلی عدالت میں چلائو تو دراصل انہوں نے یہ کہا کہ مجھ پر مقدمہ کھلی عدالت میں چلائو۔ 
______________
مزے کی بات ہے کہ ’’ذرائع‘‘ یہ مطالبہ پہلے ہی مان چکے۔ ذرائع نے جو بیان جاری کیا، اس کے اگلے حصے میں ’’اگر‘‘ کا غیر ضروری لاحقہ، شاید ضرورت ’’شعری‘‘ کے تحت لگا کر کہا کہ جب تم پر مقدمہ چلے گا تو وہ کھلی عدالت ہی میں چلے گا، وہ تسلّی رکھیں اور اس طرح ساری دنیاکو پتہ چلے گا کہ بانی پی ٹی آئی کیا کرتے رہے ہیں۔ یعنی کھلی عدالت کی کارروائی ’’کرتوت‘‘ نامہ ہو جائے گی۔ بظاہر ذرائع نے مہاتما کا یہ مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے شعوری طور پر من تو شدہ تو من شدہ والی بات، عملاً مان لی۔ 
______________
اسلام آبادمیں یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر نے قوم کو بڑے امیدافزا پیغامات دئیے۔ شہ سرخی بننے والا ان کا فقرہ دراصل ایک سوال تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ ملک کو دیوالیہ بنانے کا بیانیہ بنانے والے آج کہاں ہیں۔ 
دیوالیہ کرنے کا بیانیہ بنانے والے کہاں ہیں، سب کو معلوم ہے اور کہاں ہیں، یہ بھی سب کو معلوم ہیں۔ آرمی چیف فی الحقیقت اس سوال کا جواب نہیں مانگ رہے تھے، قوم کو یہ حقیقت بتا رہے تھے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوا اور ملک دیوالیہ نہیں ہو گا۔ بہرحال ان کے اس سوال سے ماضیِ بہت ہی قریب میں ہونے والے واقعات کا پورا سلسلہ یادآ گیا کہ کس طرح ملک کو دیوالیہ بنانے کی نہ صرف دھمکیاں دی گئیں بلکہ اس کیلئے ایک پورے ماسٹر پلان پر بھی عمل کیا گیا۔ آئی ایم ایف کو خط لکھ کر مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کو قرضہ نہ دیا جائے۔ یورپی یونین سے پاکستان کی برآمدات کا بائیکاٹ کرنے کو کہا گیا، امریکی کانگرس سے پاکستان پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس ہدف کی تکمیل کیلئے بھاری عوضانہ پر لابی انگ فرموں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ وغیرہ وغیرہ ، پھر ان سب کے ساتھ وہی ہوا جسے تقدیر کنند خندہ کا عنوان دیا جاتا ہے۔ کچھ بندی خانے میں بند ہو گئے، کچھ بند ہونے کے قریب ہیں، کچھ فرار، کچھ خوار ہو گئے۔ 
______________
اٹک میں دردناک سانحہ پیش آیا۔ سکول کے معصوم ننّھے منّے بچوں پر کسی وحشی ٹولے نے فائرنگ کر دی۔ دو ننّھی جانیں شہید، 5 بچے زخمی ہو گئے۔ ایسی درندگی کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔ ابھی سراغ نہیں ملا لیکن دھیان اسی خارجی بلکہ ماورائے خارجی ٹولے کی طرف جاتا ہے جس نے کئی برس قبل سانحہ اے پی ایس کیا تھا اور 200 ننّھے بچے، شہید کر دئیے تھے۔ 
______________
بھارت سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ ایک کیس میں جنونی پاگل فرقہ پرست ہندوئوں نے آگ بھڑکا رکھی ہے اور وہ بکری کے بچوں کو ان میں پھینک رہے ہیں۔ بکری کے بچے آگ لگنے کے بعد بری طرح چیختے ، فریاد کرتے باہر دوڑتے ہیں، یہ وحشی راکھشش پھر انہیں اندر پھینک دیتے ہیں۔ دوسری بار یا تیسری بار اندر پھینکے جانے کے بعد ان بچوں میں باہر بھاگنے کی طاقت نہیں رہتی، وہ اندر ہی جل کر مر جاتے ہیں۔ بھارت کی اکثریت جیو ھتیا کے خلاف ہے یعنی عقیدہ ہے کہ کسی بھی جاندار کو مارنا حرام ہے۔ پھر بھی ایسے واقعات وہاں ہوتے رہتے ہیں۔ ایسی وڈیوز سب سے زیادہ چین، ویت نام، ملائیشیا (جہاں 40 فیصد آبادی زردفام ہے) جنوبی کوریا وغیرہ سے آتی ہیں۔ ایک تازہ ویڈیو میں ایک چینی نے ٹب میں بلّی کا ننّھا بچہ قید کر رکھا ہے اور الیکٹرک کیٹل سے اس پر گرم ، ابلتا کھولتا پانی پھینکتا ہے۔ بچہ بری طرح تڑپتا ہے اور ایسے چیخیں مارتا ہے کہ سماعت جواب دے جاتی ہے۔ ٹھہر کر پھر پانی پھینکتا ہے اور اس طرح کافی دیر تڑپنے کے بعد بچہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں چینی شہری کو بلّی کے ایک ہفتے کے بچوں کے ایک ایک ہاتھ اور ایک ایک پائوں نوچ کر جسم سے الگ کرتے، تیسری ویڈیو میں بلّی کے بچے کو رسیوں سے باندھ کر بجلی کا کرنٹ بار بار لگا کر ہلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایسی اور کئی وڈیوز اس ہفتے جاری ہوئی ہیں۔ حیرت ہے یہ کیسے انسان ہیں اور مزید حیرت یہ ہے کہ قانوناً یہ سب کرنے کی کھلی اجازت ہے۔

ای پیپر دی نیشن