اسم اعظم کی صفات اور حقیقت

حافظ خواجہ محمدحسنین اویسی
(گزشتہ سے پیوستہ)
 آپ  ؐ کا ارشاد پاک تھا کسی زمانے میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا اور اس کے پاس ایک جادوگر رہتا تھا۔ جب وہ جادوگر بہت ضعیف عمر تک پہنچ گیا تو اس نے بادشاہ کے پاس درخواست بھیجی کہ دھیرے دھیرے میری موت کا وقت قریب آ رہا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میرا یہ علم میرے ساتھ اس دنیا سے چلا جائے۔ لہذا مجھے اس ملک کے ذہین ترین بچوں میں سے ایک بچہ لا کر دو جسے میں اپنا علم سکھا سکوں۔ بادشاہ نے اس کی یہ درخواست قبول کر لی اور سلطنت کے ذہین ترین بچوں میں سے ایک بچہ اس کے سپرد کر دیا ۔وہ بچہ روز جادوگر کے پاس اس کا علم سیکھنے جاتا۔لیکن اس کے راستے میں ایک راہب یعنی اللہ کے نیک بندے کا بھی گھر پڑتا تھا۔اب جب بھی وہ بچہ وہاں سے گزرتا تو اس کے کانوں میں اللہ کے کلام کی آواز بھی پڑتی اور وہ آواز اسے بہت اچھی لگتی۔ یوں آہستہ آہستہ وہ اپنے سچے رب کی طرف بھی مائل ہونے لگا اور ایک عجیب صورتحال پیدا ہو گئی کہ ایک طرف اپنے زمانے کا شدید ترین جادو سیکھنے میں مصروف ہے اور دوسری طرف اپنے رب ذوالجلال کا بابرکت کلام سیکھ رہا ہے۔بچہ یہ بھی جان گیا راہب اللہ کا ایک ایسا نام جانتا ہے کہ جو انتہائی اوصاف والا ہے اور جس کے ذریعے جو بھی دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔بچہ نے راہب سے اس اسم اعظم کا علم  سیکھنا چاہتا تھا اور راہب اس پر آمادہ نہ تھا پھر بھی اس نے یہ طریقہ نکالا کہ جن جن ناموں کے متعلق اسے اسم اعظم ہونے کا گمان تھا اس نے انہیں تیروں کے اوپر لکھا اور آگ کے اوپر بیٹھ کر ایک ایک تیر آگ کے اندر پھینکنے لگا۔جس تیر پر اسم اعظم لکھا ہوا تھا وہ تیر آگ کے اندر گرتے ہی اچانک سے اچھل کر واپس آگیا اور اسے پتہ چل گیا کہ اسم اعظم کون سا ہے۔  شہر میں ایک  مرتبہ عجیب سا خوفناک جانور نکل آیا ہے ، اس وقت اس لڑکے نے اسم اعظم کی طاقت آزمانے کا  فیصلہ کیا۔لہذا اس نے ایک چھوٹا سا پتھر اٹھایا اور اسم اعظم پڑھ کر دل میں دعا کرتے ہوئے معمولی سے اس کنکر کو بڑی آہستگی سے جانور کومارا ہی تھا کہ وہ جانور وہیں کچلا گیا۔
اب جن لوگوں نے یہ واقعہ ہوتے دیکھا تو وہ یہ سمجھے کہ جادوگر نے لڑکے کو اس قدر طاقت ور جادو سکھا دیا ہے ۔لوگ اس کے پاس اپنے اپنے مسائل کا حل نکلوانے آنے لگے انہی لوگوں میں سے ایک شخص بادشاہ کا وزیر تھا۔جس نے اس بچے کو جادو سیکھنے کے لیے بھیجا تھا اب وزیر کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ مکمل طور پر نا بینا ہو چکا تھا۔لہذا اس نے بچے کے سامنے بڑے بڑے اور مہنگے تحفے رکھوائے اور اس سے کہا کہ اگر تم میری نظر مجھے واپس کر دو تو یہ سب کچھ تمہارا ہوگا اس لڑکے نے جواب دیا کہ شفا میں نہیں بلکہ میرا رب دیتا ہے۔پھر اس نے اسم اعظم پڑھ کر دعا کی اور اسم اعظم کی برکت سے واقعی اس وزیر کی آ نکھیں ٹھیک ہو گئیں۔سارا قصہ بادشاہ کو سنایا گیا بادشاہ نے اس لڑکے کو بلایا اس کے فن کی تعریف کی یعنی اس کے جادو کی تعریف کی اور کہا کہ واقعی تم نے جادوگر سے بہترین جادو سیکھا ہے ، مگر اس لڑکے نے کہا :نہیں شفا تو میرا رب دیتا ہے میں تو صرف اس سے دعا کرتا ہوں اب یہ بات بادشاہ کو پسند نہ آئی اور اس نے سزا سنا دی اسے پہاڑ کے اوپر لے کر گرا دو۔ پہاڑ پر ایک مرتبہ پھر سے اس لڑکے نے اسم اعظم سے دعا کی اور وہ پہاڑ ایک زلزلے کی طرح کاپنے لگا جس کی وجہ سے اس پر موجود وہ تمام لوگ نیچے گر گئے،سوائے اس لڑکے کے وہ نیچے اتر کر آیا ۔پھر بادشاہ اسے زندہ دیکھ کر حیران رہ گیا  اسے  سمندر کی تہوں میں ڈبونے کا حکم دیا گیا۔ ایک دفعہ پھر اسم اعظم سے دعا کر کے اس کی جان بچ گئی ۔وہ کشتی چلا کر دوبارہ پھر سے زمین پر آ گیا۔اس دفعہ بادشاہ کے سامنے پیشی پر وہ لڑکا بھی آمنے سامنے بول اٹھا کہ اے بادشاہ تو جو چاہے مرضی کر لے تو مجھے نہیں مار سکے گا۔ حتیٰ کہ تو ویسے ہی کر جیسا میں کہتا ہوں اگر تو نے ویسے ہی کیا جیسے میں کہتا ہوں تو تو دیکھے گا کہ میری جان بہت آسانی سے نکل جائے گی ۔لڑکے نے کہا لوگوں کو بڑے سے میدان میں جمع کرو پھر فلاں فلاں الفاظ بسم اللہ کہہ کر مجھ پہ تیر چلا  دوتب تو دیکھے گا کہ تیر مجھ سے آر پار ہو جائے گاا۔ بادشاہ نے اس کی بات پر عمل کیا اور تیر اس کی کنپٹی پر لگا اور وہیں اس کی شہادت ہو گئی ۔لیکن یہی تو اس لڑکے کی حکمت تھی کہ دعوت حق نہ ماننے والے بادشاہ کی کی اپنی زبان سے’’ اس اللہ کے نام سے جو اس غلام کا رب ‘‘ نکلوا لیا۔
کیا ہی حیران کن واقعات ہیں ان نصوص کے پیچھے اور کتنا ہی صفات والا وہ اسم اعظم تھا اس واقعے کے پیچھے۔ابن اسحاق لکھتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کے دور میں نجران سے انہیں کسی نے خط لکھا جو خط حضرت عمرؓ کو بھیجا گیا اس میں لکھا تھا کہ نجران کے ایک بنجر ویران بے آب علاقے میں کسی شخص نے اپنے کام سے زمین میں کھدائی کی،تو وہاں سے اچانک ایک جسم نکل آیا جو بیٹھی ہوئی حالت میں تھا اس کی کن پٹی پر تیر سے لگے زخم کا نشان تھا جن لوگوں نے اسے دیکھا وہ بتاتے ہیں کہ جس جگہ چوٹ لگی تھی وہاں اس نے اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا جب لوگ ہاتھ کو ہٹاتے خون بہنے لگتا جب اسے چھوڑ دیتے تو ہاتھ اپنی جگہ واپس جا کر خون کو روک لیتا اس شخص کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس پر ربی اللہ لکھا تھا یعنی’’ میرا رب اللہ‘‘ ہے۔جب حضرت عمرؓ کو اس بات کی  اطلاع بھجوائی گئی تو انہوں نے کہا اسے یوں ہی رہنے دو اور جو مٹی وہاں سے اٹھائی ہے اسے واپس اسی جگہ پر ڈال دو اور اس جگہ کو بالکل بے نشان کر دو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آج تک کسی کو نہیں پتہ کہ وہ جگہ کون سی تھی۔ امید ہے کہ آپ کو اسم اعظم کے غیر معمولی اوصاف کا اندازہ ہو گیا ہو گا، دعا کریں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس نعمت سے اللہ کا قرب حاصل  ہو جائے۔

ای پیپر دی نیشن