حضرت سیدنا بلال حبشیؓ

محمد سلیم خان قادری
جب سے دنیا بنی ہے بہت سوں نے عشق کیا۔ کسی نے عشقِ حقیقی کسی نے عشقِ مجازی اور اس عشق کی خاطر کوئی سولی پر چڑھا کسی نے بھینسیں چرائیں ۔ کوئی ریت کے نیچے دب مرا ، کوئی کچے کھڑے پر لہروں کی نذر ہو گیا۔ کوئی تیروں سے چھلنی ہو کر مرا اور کوئی دودھ کی نہر کھودتا ہوا جان دے بیٹھا۔ مگر حاصل کچھ نہ کر سکا جبکہ ایک عاشق دنیا میں ایسا بھی ہوا جس نے اللہ واحد لاشریک کی واحدانیت کا اقرار کیا اور اللہ کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے سچا پیار بلکہ عشق کیا اور اس عشق کی پاداش میں ماریں کھائیں ظلم و جبر سہے۔ ظالم و جابر آقا امیہ بن خلف اور مشرکینِ مکہ کے ایسے ایسے مظالم سہے جسے سُن کر انسان کے رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں عرضیکہ جب اس نے اسلام کا نام سنا تو اپنا دل و جاں اس پر نثار کر دیا۔ پھر صلّے میں ربّ کی مقبولیت پائی اور محبوبِ خدا تک رسائی پائی ایسی رسائی کہ پھر ساری عمر اپنے اُسی محبوب آقاءؐ حضور اکرمؐ کے قدموں میں بیتائی۔ موذن، خازن، نقیب، نجیب، دربان اور خادمِ رسول کا اعلیٰ ترین منصب پایا اور دنیا و آخرت میں ایسا نام کمایا کہ نامِ بلالؓ ہر کسی کے دل کو بھایا۔ آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ مساجد کا نام مسجد بلال ہے سب سے زیادہ کاروباری مراکز کا بلال ہے مسلمان گھرانوں میں ہر دوسرے تیسرے گھر میں بلال نام کا فرد موجود ہے۔ پانچوں وقت کی اذانیں بھی یادِ بلال تازہ کرتی رہتی ہیں۔ 
جی ہاں ہماری مراد اُسی عاشقِ صادق عشاقانِ نبیؐ کے سردار جو عشقِ نبی کا استعارہ اور علامت ہے جس کے تذکرے کے بغیر عشق نبیؐ کا کوئی عنوان یا محفل مکمل نہیں ہوتی۔ جنہوں نے ایمان لانے کے بعد تمام عمر حضور کے قدموں میں خدمت کر کے گزاری اور جب سرور کائنات کا وصالِ ظاہری ہوا تو سرکار دو عالمؐ کے دلبر صدمۂ وصال سے دلبرداشتہ ہو کر ملک شام چلے گئے اور وہیں آج بھی باب الصغیر قبرستان دمشق میں دیگر صحابہ کے ساتھ خاک میں پنہاں ہو کر اپنے کریم آقاء ؐ کا انتظار فرما رہے ہیں۔ 
وہ عظیم ہستی جن کا نام بلالؓ ، کنیت ابو عبداللہ، والد کا نام رباح اور والدہ ماجدہ کا حمامہؓ تھا۔
وہ عظیم ہستی جنہیں امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے بھاری رقم اور اپنا غلام بدلے میں دے کر آزاد کرایا تو رسولؐ اللہ نے برکت اور اجرِ عظیم کی دعائوں سے نوازا۔وہ عظیم ہستی جن کا شمار اصحابِ صفہ میں ہوتا ہے جنہیں حضرت سیدنا عمر فاروقؓ سیدنا کہہ کر پکارا کرتے تھے اور فرماتے یہ ہمارے سردار بلالؓ ، ابوبکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہیں۔ وہ عظیم ہستی جن کا شمار السالقون الاولون میں ہوتا ہے۔ جو اُن سات سعیدالفطرت ہستیوں میں سے ایک ہیں جنہیں سب سے پہلے رسول ؐ اللہ پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کمال درجہ کا احسنِ صورت اور فصاحت و بلاغت سے نوازا۔ اور آپ کا قد دراز۔ آنکھیں سرخ انگاروں کی طرح چمکتی۔ رخساروں پر گوشت کم، سینہ کشادہ، آواز بہت بلند پُرسوز میٹھی اور بارعب تھی۔ آپ کے جسم پر کثرت سے بال تھے سر کے بال گھنے خمدار تھے مگر داڑھی مبارک ہلکی تھی۔ 
وہ عظیم ہستی جن پر اسلام قبول کرنے کے بعد کفار و مشرکین کی طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے مگر پھر بھی حق پر ثاتب قدم رہے اور تمام تکالیف کو ڈٹ کر برداشت کیا۔ آپ کو اسلام کے پہلے موذن ہونے کے ساتھ یومِ فتح مکہ پر کعبتہ اللہ کی چھت پر چڑھ کر کعبے کے …یعنی رسولؐ اللہ کی طرف منہ کر کے اذان دینے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ عظیم ہستی جن کو نبی کریم ئروف و رحیمؐ سے انتہا درجہ کا عشق تھا جن کی واحد تمنا جلوۂ جانِ جاناںؐ کا دیدار تھا جنہیں خواب میں رسول اللہ نے فرمایا۔ بلال یہ کیسی جفا ہے ہماری زیارت (ملاقات) کرنے نہیں آتے۔ اُسی وقت سفرِ مدینہ کیلئے روانہ ہو گئے تھے۔ 
وہ عظیم ہستی جن کو حسنین کریمینؓ نے ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے بلالؓ آج ہم آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ ہمارے نانا جانؐ رسول اللہ ؐ کو مسجد نبوی میں سناتے تھے یہ وہی آخری موقعہ تھا جب آپ اپنے آقاء کے بلاوے پر دمشق سے مدینہ آئے تھے۔ 
وہ عظیم ہستی جنہوں نے اپنا ہر لمحہ دربار رسالت ؐ کی غلایم میں بسر کیا حتیٰ کہ آپ رسول ؐ اللہ کے پیغام رساں نقیب چوب دار اعصا بردار خزانچی، دربان، بازار سے سوداسلف لانے والے، مہمانوں کے قیام و طعام کے منظم اور کل قیامت کو بھی جنت میں جاتے ہوئے حضور شافعٔ روزِ منشور کی سواری کی لگام تھامے آگے آگے ہوں گے۔ 
حضرت سیدنا بلالؓ کی فضیلتیں اور خصائص بے شمار ہیں جن کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ آپ کا وصال 20 محرم الحرام 20 ھ؁ کو دمشق (شام) میں 63 سال کی عمر میں ہوا اور آپ کو باب الصغیر قبرستان (دمشق) میں دفن کیا گیا جہاں آپ کا مزار پُرانوار آج بھی مرجع خلائق اور عشاقانِ مصطفیؐ کے لیے مرکزِ تجلیات ہے۔ اللہ پاک اپنے حبیبؐ کے اس عاشقِ صادق کے عشق کے سمندر میں سے ایک قطرہ عشق کا ہمیں بھی عطاء فرمائے آمین۔ آئیے ہم بھی اس دن تجدیدِ عشق مصطفیؐ کا عہد کریں کہ اپنی ہر سانس اپنے پیارے آقاؐ پر درود و وفا میں گزاریں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن