امانت داری ایمان کا بنیادی تقاضا ہے

حافظ محمد ابراہیم نقشبندی
دین اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑامحافظ ہے یہی وجہ ہے کہ دین اسلام ان اعمال وافعال کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعہ انسانی حقوق کی حفاظت ممکن ہو سکے ایسے بہت سے اعمال میں سے ایک عمل’’امانت داری‘‘ بھی ہے، امانت امن سے مشتق ہے جس کے معنیٰ مطمئن اور مامون کرنے کے ہیں، امانت کو امانت اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کہ ذریعہ سے انسان اپنے حقوق دوسرے کے سپرد کر کے مطمئن اور مامون ہو جاتا ہے، مومن کی شان امانت کی حفاظت کرنا اور سامنے والے کے اعتماد واعتبار پرپورا اترنا ہے۔
آپس کے معاملات اور لین دین میں امانت اخلاقیات ہی نہیں بلکہ ایمانیات کا بھی حصہ ہے جیسا کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اس شخص کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں جس میں امانت داری نہیں۔‘‘(مسند احمد)
یعنی اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کسی پر بھروسہ کرے اور جس پر بھروسہ کیا گیا ہے وہ اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ایمان میں ابھی نقص ہے اور وہ درجہ کمال تک نہیں پہنچا۔
نبی کریم ؐ کی زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی ذات بابرکات میں امانت داری کا وصف بہت نمایاں تھا،آپ ؐپورے مکہ میں صادق و امین کے اعلیٰ القابات سے پکارے جاتے تھے،مشرکین مکہ آپؐ سے شدید ترین اختلافات کے باوجود بھی اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھواتے تھے حالانکہ مکہ کا سردار ابو جہل تھا لیکن اہل مکہ کا اعتمادابوجہل کے بجائے نبی کریم ؐپر تھا،کیوں کہ ابو جہل کی بددیانتی کے قصے سارے شہر میں زبان زد عام تھے، جس کی ادنیٰ سی جھلک اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی دکھلائی ہے فرمایا  ترجمہ:  ’’وہ شخص جو یتیم کو دھکے دیتا ہے‘‘(سورۃ الماعون: 2)۔مفسرین کے مطابق یہ آیت ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی،اس کی عادت تھی کہ جب مکہ کا کوئی رئیس مرض الوفات میں ہوتا اور اس کی اولاد نابالغ اور بے سمجھ ہوتی تو اس کو جا کر یقین دلاتا کہ اپنی جمع پونجی میرے حوالے کر دو،میں وقت آنے پر آپ کے بچوں کو لوٹا دوں گا،وہ شخص سردار ہونے کی وجہ سے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنا تمام وراثتی مال اس کے سپرد کر دیتا،پھر جوان ہونے کے بعد وہ یتیم اولاد اس سے امانت کی ادائیگی کا مطالبہ کرتی تو اسے دھکے دے کر واپس بھیج دیتامعلوم ہوا کہ دیانت داری اسوہ پیغمبر اور بددیانتی  ابوجہل کی خصلت ہے۔
ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ امانت کا تعلق صرف اس مال سے ہے جو کسی کی پاس بطور امانت رکھوایا جائے اور وہ مال پوری مقدار میں کوئی عیب پیدا کیے بغیر مالک کے حوالے کر دیا جائے،اس میں شک نہیں کہ یہ بھی امانت کے مفہوم میں داخل ہے لیکن احادیث نبوی ؐ کے مطالعہ سے بہت سی ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں جنہیں نبی کریمؐنے بجا طور پر امانت داری میں شمار کیا ہے۔
اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کسی سے رائے طلب کرے تودیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ اس کودرست مشورہ دے اگر مشورہ دینے والا سمجھتا ہے کہ اس کام میں اس کا نقصان ہے پھر بھی اس کواس کے کرنے کی تجویز دیتا ہے تو یہ سراسر خیانت کامرتکب ہو رہا ہے،چنانچہ ارشاد نبویؐ ہے’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔‘‘(بخاری ومسلم)
اگر کسی مجلس میں کوئی معاملہ طے پائے اور شرکائے مجلس میں اس کو خفیہ رکھنے پر اتفاق ہوا ہو تو ایسی بات کو ظاہر کرنا بھی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے،نبی کریمؐنے ارشاد فرمایا: ’’مجلس کی باتیں امانت ہوتی ہیں‘‘ البتہ اگر خلاف شرع کام کرنے یا کسی کو نقصان پہنچانے کے متعلق بات چیت ہوئی ہو تو ایسی بات کو ظاہر کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے چنانچہ مذکورہ بالا حدیث میں ہی ارشاد نبویؐ ہے ترجمہ: ’’مگر تین قسم کی مجلسیں ایسی ہیں جن کی بات ظاہر کی جائے گی،وہ تین چیزیں ناحق خون کابہانا یا بدکاری کرنا یا کسی کا ناحق مال لینا ہے‘‘(ابو داؤد)۔
اسی طرح کسی بھی قسم کے عہدہ کو سپرد کرنے کے لیے دو بنیادی شرائط ذکر کی جاتی ہیں: اول یہ کہ مذکورہ شخص اس کا اہل ہومطلب اس کام کے تمام خد وخال کو اچھے طریقہ سے جانتا ہو اور دوسرا یہ کہ وہ ایمان دار ہو جو اس عہدہ کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہ کرے۔قرآن کریم میں حضرت یوسفؑ کے واقعہ کے ضمن میں ہے کہ جب انہوں نے عزیر مصر سے وزارت خزانہ کا مطالبہ کیا تو اپنی انہیں دو خوبیوں کو پیش کیا،چنانچہ ارشاد فرمایا:’’(اے عزیز مصر!)میرا زمین کے خزانوں پر تقرر کیجیے،بلا شبہ میں (مال کی) حفاظت کرنے والا (اوروزارت خزانہ سے متعلق امور کو)جاننے والا ہوں۔‘‘ (یوسف:55) 
 جو شخص کسی کا مزدور یاملازم ہو اسے چاہیے کہ مالک اورذمہ دار سامنے ہو یا نہ ہومکمل دیانت داری کے ساتھ کام کر ے نہ تو وقت میں کمی کرے اورنہ کام میں سستی اورنہ ہی اپنی صلاحیت کو استعمال کر نے سے گریز کرے ان تینوں میں سے کچھ پایاگیا توخیانت شمار ہوگی۔ اس لیے کہ ایک ملازم کی صلاحیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تنخواہ طے ہوتی ہے اگر اس نے کام کر نے میں پوری صلاحیت خرچ نہ کی اورکسی بھی وجہ سے دلچسپی لیے بغیر محض ظاہری طور پر کام کر دیا تو کام میں وہ معنویت پیدا نہیں ہوگی جو ذمہ دار کو مطلوب تھی تو یہ بھی خیانت کا ہی ایک حصہ ہے۔
دیانت داری سے کام لینے والے انسان کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت کی نعمتوں سے تو نوازیں گے ہی لیکن دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اسے بہت زیادہ نوازتے ہیں امانت دار آدمی لوگوں کی نظر میں بہت زیادہ عزت والا اور قابل احترام ہوتا ہے ۔جو شخص اس اہم دینی تعلیم اور اسلامی ہدایت کو نظر انداز کر دے اور بددیانتی اور کرپشن کو اپنا شعار بنا لے اس کیلئے دنیا اور آخرت میں نقصان ہے۔اس کا روزگار بری طرح متاثر ہوگا،خود کو اور اہل و عیال کو حرام کھلانے کی وجہ سے رزق سے برکت اٹھ جائے گی ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک اللہ اس شخص سے محبت نہیں کرتا جو خائن (اور) گناہ گار ہو‘‘۔(النساء￿ :107)۔ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ اعتقاداََ تو مسلمان رہتا ہے، لیکن عملاََ منافقین کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے، جو کفر کی قبیح ترین قسم ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں امانت دار اور سچا پکا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

ای پیپر دی نیشن