پاکستان ہے تو ہم ہیں !

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو کسی بھی بین الاقوامی منصوبہ بندی یا عالمی سطح پر تیار کی گئی سازش کے ذریعے نہیں بلکہ برطانوی ہند میں جاری تحریک آزادی کے نتیجے میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ قائداعظم محمدجناح کے ہندوستان میں مسلمانوں کی ہندو اکثریت سے جداتہذیب وتمدن، لباس وخوراک اور خاص طورپر ذات پات کی تفریق میں لتھڑے ہوئے علاقائی سطح کے مذہب سے قطعی مختلف دین اسلام پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کے حوالے سے موقف کے جواب میں نہ تو ہندوقیادت کے پاس کوئی دلیل تھی نہ ہی انگریزوں کے پاس قائداعظم محمدعلی جناح کے مضبوط موقف کو رد کرنے کیلئے کوئی جواز تھا۔ 14 اگست 1947ء کو جب ہندوستان کو چیر کر اس کے اندر سے پاکستان کاقیام عمل میں آیا تو اسے عالمی سطح پر معجزے سے تعبیر کیاگیا۔ شاید ہماری آج کی نسلوں کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ ہندوستان کے جغرافیے کو چیرتے ہوئے اس کے اندر سے پاکستان کا قیام کسی معجزے سے کم نہیں تھاجسے بھارت کا ہندو کسی صورت فراموش کرنے کو تیارنہیں۔ویسے بھی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں جغرافیائی طور پرایک ایسی ریاست وجود میں آئی ہو۔ جس کے نام یا شناخت کے حوالے سے کوئی تاریخ نہ ہو۔ ہزاروں برس سے دنیا میں جاری جنگ وجدال اور طاقتور حکمرانوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے نتیجے میں ریاستوں کا جغرافیہ بڑھتا گھٹتا رہا ،سلطنتیں تباہ ہوکر ٹکڑے ہوتی رہیں، ان کے اندر سے ایسے نئے ممالک وجود میں آئے جو پہلے سے اپنی شناخت اور نام رکھتے تھے۔ یوں ان کی شناخت اور نام برقرار رہے۔ دوقومی نظریہ کی بدولت دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک نئے ملک کے طور پر ابھر کر ضرور سامنے آگیا لیکن اسے ہندوستان کی طرف سے ختم نہ ہونے والی دشمنی بھی ورثے میں ملی۔
اس دشمنی کی پہلی بنیاد تو تقسیم ہند کے ساتھ ہی برطانوی ہند کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ جو اہرلال نہرو کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی پر مشتمل ضلع گورداس پور کو 14اگست 1947ء کے دو روز بعد بھارتی پنجاب کاحصہ قراردے کر ہی رکھ دی گئی تھی۔ضلع گورداس پور میں رہنے والے لاکھوں مسلمان پاکستان ہجرت پر مجبور ہوگئے جس نے مستقبل میں پاکستان کیلئے گھمبیر مسائل پیدا کیے۔ اسی ہجرت کے دوران ہزاروں کی تعداد میں مسلمان بہو بیٹیاں، سکھوں نے اغوا کر لیں۔ سینکڑوں کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا۔ یہ ساری کارروائی ریاست جموں وکشمیر کو مستقبل میں بھارت کا حصہ بنانے کیلئے ہندو اور انگریز اتحاد کی مشترکہ سازش کا نتیجہ تھی۔ ساتھ ہی تین دریاؤں اور ان پر تعمیر شدہ ہیڈ ورکس کو پاکستان کی ملکیت میں جانے سے روکنا بھی اسی سازش کا حصہ تھا۔ کمزور معیشت کے حامل پاکستان پر لاکھوں کی تعداد میں مشرقی پنجاب سے آنے والے مسلمان مہاجرین کی آباد کاری کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ 12اکتوبر 1947ء کو بھارت نے اپنی فوجیں ریاست جموں و کشمیر میں اتار دیں۔ بھارت کے حکمرانوں کو علم تھا کہ پاکستان میں پاک فوج کے پاس اول تو بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے ضرورت کے مطابق اسلحہ نہیں ہے۔یہ اسلحہ بھارت میں پاکستان کے حصے میں آنے کے باوجود پاک فوج کے حوالے کرنے سے انکار کردیا گیا تھا۔ دوسرا یہ کہ پاک فوج بذات خود تقسیم ہند کے بعد نئے وجود میں آنے والے ملک میں انگریز کی بنائی ہوئی چھاؤنیوں میں خود کو ازسر نوترتیب دینے کے عمل سے گزر رہی تھی۔ علاوہ ازیں بھارت میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آنے والے مہاجرین کوتحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی پاک فوج ہی ادا کررہی تھی جبکہ بھارت تقسیم ہند سے قبل ہی طے کر چکا تھا کہ اس نے پاکستان کو واپس بھارت کا حصہ بنانا ہے۔
قیام پاکستان کی طرح ریاست جموں وکشمیر نے غیر متوقع طور پر پاک فوج کو اپنے مدمقابل دیکھنا بھارت کی حکومت اور فوجی کمانڈروں کو حیرت زدہ کرنے کیلئے کافی تھا۔ بھارتی فوج کے ساتھ ایک سال تک جاری رہنے والی اس جنگ نے بھارتی فوج کے اوسان خطا کردیے۔ بھارت کی ملٹری انٹیلی جنس کی یہ رپورٹس تاریخ کا حصہ ہیں جس میں بھارت سرکار اور بھارتی فوج کی قیادت کو خبردار کیا گیا کہ اگر ریاست جموں و کشمیر میں جنگ کومزید طول دیا گیا توبھارتی فوج شکست سے دوچار ہوسکتی ہے۔ شکست کے اسی خوف کی بدولت برطانوی حکومت کے مشورے اور تعاون سے جواہر لال نہرو نے جنگ بندی کیلئے اقوام متحدہ کے در پر امن کی بھیک کیلئے دستک دی جو قبول کر لی گئی اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کشمیریوں کو خوداردیت کاحق دینے کی قرار داد منظور کرتے ہوئے نہ صرف تقسیم ہند کے فارمولے کو روند دیا گیا ساتھ ہی اقوام متحدہ جیسا ادارہ کشمیریوں کو اور پاکستان کو دھوکہ دینے کا مرتکب بھی ہوا۔ پاک فوج ایک سال تک جاری رہنے والی جنگ میں محسود قبائل کے ساتھ ملک کر ایک تہائی کشمیربھارتی قبضے سے ضرور آزاد کراچکی تھی لیکن اس جنگ کی بدولت بھارت کویہ سمجھ آگئی کہ پاک فوج کے ہوتے ہوئے اس کیلئے پاکستان کی سلامتی کا خاتمہ اور اسے واپس بھارت میں شامل کرکے ''مہابھارت''کا خواب پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی ادراک کے پیش نظربھارت سرکار نے پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے کیلئے ایک ایسی منظم مہم کا آغاز کیاجو آج تک جاری ہے۔ اس مہم میں اسے پاکستان کے اندر سے ایسے بہت سے عناصر کی حمایت بھی حاصل ہوگئی جو قوم پرستی کی بنیاد پر پاکستان کے حصے میں آنے والے صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ )کو آزاد یا افغانستان میں شامل کرنے کے خواہشمند تھے۔
پاک فوج کے خلا ف پروپیگنڈے کا دوسرا اہم جزو اپریل 1948ء میں قائد اعظم محمدعلی جناح کے حکم پر بلوچستان کے علاقے قلات میں کیاجانے والا آپریشن تھا۔ اس آپریشن کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب پرنس عبدالکریم خان نے اپنے بھائی خان آف کلات احمد یار خان کے پاکستان کے ساتھ الحاق سے بغاوت کرتے ہوئے بلوچستان کے دیگر چند پاکستان مخالف بلوچ سرداروں کو ساتھ ملاکر پاک فوج پر حملے شروع کردیئے۔ پاک فوج کا یہ آپریشن دوسال تک جاری رہا۔ باغی سردار اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ جنہیں پہلے سے افغانستان میں موجود صوبہ سرحد (خیبرپختونخواہ)سے تعلق رکھنے والے پاکستان مخالف عناصر نے خوش آمدید کہا اور دونوں مخالفین نے مل کر افغان حکومت کی سرپرستی میں پاکستان کے خلاف جارحیت پر مبنی سازشوں کا آغاز کردیا۔یہ عناصر کبھی پاکستان میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظام رائج کرنے کی آڑ میں پاکستان پر وار کرتے تو کبھی دوقومی نظریہ کی نفی کرتے ہوئے پاکستان میں مادر پدر آزاد معاشرہ قائم کرنے کی بات کرتے۔ ان عناصر کو بھارت کی طرف سے مالی مدد کے علاوہ بھی ہر طرح کی پذیرائی ملی جس کا سلسلہ آج 77برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود جاری ہے تو ساتھ ہی پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ مہم میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ہمیں پاک فوج پر تنقید کا شوق پورا کرتے ہوئے ماضی کی اس تاریخ کو نہیں بھولنا چاہیے جو پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھیانک منظرنامہ رکھتی ہے۔ 
پاکستان اپنے قیام کے وقت سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے یہ پاک فوج ہی ہے جو اپنی جان کی قربانیاں دے کر پاکستان کی سلامتی اور پاکستانی عوام کے تحفظ کا فریضہ ادا کرتی چلی آرہی ہے ورنہ پاکستان دشمن کب کا پاکستان کو لیبیا، عراق ، شام یا سوڈان بناچکے ہوتے۔

ای پیپر دی نیشن