بچوں کا ادب

پاکستان میں بچوں کے ادب کا جائزہ لینے سے بیشتر ان روایات پر ایک نظر ڈالنی ضروری ہے جو قیام پاکستان کے بعد وراثتاً، بچوں کے پاکستانی مصنفوں کو ملی تھیں کیونکہ آغاز کار میں انہی روایات نے وہ خطوط متعین کئے تھے جن کو ہمارے اہل قلم نے بچوں کیلئے ادب تخلیق کرتے وقت پیش نظر رکھا تھا۔ ان روایات سے بغاوت ممکن نہیں تھی اور ادب کی کسی روایت سے بھی ایک دم بغاوت اختیارکرنا ممکن نہیں ہوتا۔ بغاوت بتدریج ہوتی ہے اور جزوی طور پر مستقلاً ہوتی رہتی ہے تو اس ذہنی اثاثے کو سمجھنا ناگزیر ہے کیونکہ اسے سمجھے بغیر تجزیہ مشکل ہوگا۔
برصغیر کی تقسیم سے قبل نظیراکبرآبادی، سورج نرائن مہر، بے نظیر،تلوگ چند محروم،علامہ اقبال، اسمٰعیل میرٹھی، مولانا محمدحسین آزاد، مولوی ممتاز علی،محمدی بیگم، سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، رگھوناتھ سہائے، ابوالاثرحفیظ جالندھری، مولانا تاجور، مولانا عبدالمجید سالک،اخترشیرانی اورمولانا چراغ حسن حسرت نے بچوں کیلئے نظمیں، کہانیاں اورمضامین لکھے تھے۔ان میں سے نظیراکبرآبادی،سورج نرائن مہر،تلوک چندمحروم،علامہ اقبال،اسمٰعیل میرٹھی اور اخترشیرانی نے اپنی توجہ کلیتہ شاعری پرمرتکز کی تھی اور نثرمیں شاذونادر ہی طبع آزمائی کی تھی۔مولانا آزاد،مولانا تاجور،سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، حفیظ جالندھری،مولاناسالک اورمولانا حسرت نے نظمیں بھی کہیں تھیں اور نثر بھی لکھی تھی۔مولوی ممتازعلی،محمدی بیگم اور رگھونا ناتھ سہاتے نے بچوں کیلئے اخلاقی،اصلاحی اور دلچسپ نثری مضامین اور کہانیاں لکھیں تھیں۔ ان لوگوں کی تخلیقات کا تجزیہ کیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ ہم بآسانی ان تحریروں کو ذیل کے عنوانات دے سکتے ہیں۔ منظری نظمیں، اصلاحی نظمیں اور نثرپارے،الف لیلیٰ یاایسی دوسری کتابوںکے قصوںکی تلخیص،تخیلی داستانیں، حکایتیں اورکہانیاںاورکبھی کبھی شکایات بھی، تراجم۔
منظری نظموں کے حصے میںبڑی وسعت ہے، بڑا تنوع ہے، اس عنوان کے تحت ایسی بے شمار نظموںکو شامل کیاجاتاہے جو قدرتی مناظر ، خوبصورت اشیاء، پرندوں اور جانوروں کے متعلق لکھی گئی ہیں۔ ان نظموں کے مصنفوں کے سامنے خاص طور پر کوئی اصلاحی مقصد نہیں ہے۔ یہ اہل قلم قدرت کے دلکش نظاروں اور ان پرندوں اور جانوروں سے متاثرہوئے ہیں جنہیں ہم اور ہمارے بچے اپنی روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے رہتے ہیں اور ان شاعروں نے اپنے تاثرات کو بے شمار چھوٹی چھوٹی نظموں میں پھیلادیاہے۔ نظیراکبر آبادی نے پرندوں، جانوروں کے علاوہ میلوں ٹھیلوں کا جو ذکرکیاہے ان کا شمار بھی انہی منظری نظموں کے شعبے میں ہونا چاہیے۔
منظری نظم کم وپیش ہرشاعر نے لکھی ہے اوریہ وراثت آج بھی محفوظ ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
1857ء کے بعد کا دور ایک اصلاحی دور تھا، ہماری تحریک آزادی ناکام ہوچکی تھی اور برصغیر کی تمام قومیں اپنی ساری توجہات اصلاح احوال پرمرکوز کر چکی تھیں۔مصنفین معاشرے کے ذمے دار افراد ہونے کی حیثیت سے بچوں کی بہتر طور پر تربیت کرنا چاہتے تھے اس مقصد کو عملی صورت دینے کی خاطر وہ ایسی نظمیں لکھنے کی کوشش کرتے تھے جنہیں پڑھ کر بچے نیک بنیں اور زندگی کی اچھی قدروں کو عزیز گردانیں، چنانچہ حکیم الیسپ کی حکایتوں کے انداز میں کافی تعداد میں کہانیاں لکھی گئی تھیں، بعض کہانیوں کے آخر میں نتیجہ لکھا جاتاتھا، اس حصے میںمصنف اپنے پڑھنے والے بچوں سے مخاطب ہوکر اس اخلاقی سبق کو اجاگرکرتاتھاجو اس کی کہانی سے ملتاہے یاباالفاظ دیگرملنا چاہیے۔
اس شق میں قصے کہانیاں آتی ہیں،مصنفوں نے الف لیلہ کی بہت مشہور کہانیوںمثلاً الہ دین اور چراغ، علی بابا چالیس چور،بوتل کا جن وغیرہ لکھی ہیں اور ایسی ہی دوسری کہانیوںکو اختصارکے ساتھ آسان، سہل اور سلیس زبان میں بیان کردیاہے۔
چوتھی یعنی شق دان تمام کہانیوں، قصوںکا احاطہ کرلیتی ہے جو تخیلی ہیں۔ یہاں ان کہانیوںکو زیادہ اہمیت حاصل ہے جو پریوں ، دیووں اور جنوںکے بارے میں لکھی گئی ہیں۔یہ سراسرتخیلی کہانیاں ہیں،مصنفوں نے کسی پری کا انتخاب کرکے اس کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کردیاہے۔ پریوںِِ، دیووں، جنوں کے علاوہ جادوگروں کے واقعات بھی قلم بندکئے گئے ہیں۔ ہرمصنف کی شروع سے لے کر آخرتک کوشش یہ رہی ہے کہ وہ اپنی کہانیوںمیں جادوگروںکو شامل کرکے پراسرار اورہیبت ناک قصے لکھیں تاکہ بچے انہیں بڑی دلچسپی سے اور شوق سے پڑھیں، اس نوعیت کے سینکڑوں قصے لکھے گئے ہیں ان قصوںکے عناصر ترکیبی میں ایک یا چند جادوگر، ایک خاص قسم کی طلسماتی فضا،کوئی شہزادہ جو ان جادوگروں سے جنگ کرکے ان پر فتح پاتاہے، اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔
تراجم میں وہ کہانیاں اور قصے شامل ہیں جو ترجمے یا تلخیص کی شکل میں بچوں کے ادب کا حصہ بنے ہیں یہاں ڈنمارک کے مشہور عالم مصنف ہنیز کرسچین اینڈرسن اورجرمنی کے گرم بردوز کی کہانیاں خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
ہینز اینڈرسن کی سنڈریلا، خوابیدہ شہزادی اور بدصورت بطخ، کوکئی لکھنے والوں نے اپنے اپنے انداز میں لکھاہے۔ یہی معاملہ گرم بردرز کے ساتھ بھی پیش آیاہے، ان کی پریوں کی کہانیاں ساری دنیا کے بچے بڑے ذوق وشوق سے پڑھتے ہیں۔ اردو میں ان کہانیوں کا کہیں تو ترجمہ کیاگیاہے اورکہیں محض تلخیص پر اکتفاکیاگیاہے، بیرونی زبانوں کے اور بھی کئی ناول اور قصے اردو میںمنتقل کئے گئے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
یہ ہیں وہ نمایاں عنوانات جن میں ہم بچوں کے اس ادب کو تقسیم کرسکتے ہیں جو برصغیرکی تقسیم سے پہلے لکھاگیاہے اور جس کی بیشتر روایات بچوں کے پاکستانی مصنفین تک بھی پہنچی ہیں۔ اس کامطلب یہ ہرگزنہیں کہ ہمیں فقط اسی ادب کی روایات ملی ہیں اور کوئی روایت ہمارے حصے میں نہیں آئی۔
قیام پاکستان کے بعدجب پاکستان معرض وجود میں آیا توبڑوںکے ادب کے ساتھ ساتھ چھوٹوں کے ادب کی بھی ضرورت پیش آنی چاہیے تھی، اور پیش آئی، اس وقت پہلی ضرورت یہ محسوس کی گئی کہ بچوں کیلئے ایسی کتابیں لکھی جائیں جنہیں پڑھ کر بچوںکو تحریک پاکستان، مقاصد پاکستان اور جدوجہد آزادی سے آشنا ہونے کا موقع ملے چنانچہ اس باب میں معلوماتی کتابیں بھی تصنیف ہوئیں اورایسی کتابیں بھی جو تحریک پاکستان کے احوال وکوائف میں واضح کرتی ہیں مثلاً زاہدحسین انجم کی ’’پاکستان‘‘سیدہاشمی فریدآبادی کی’’پاکستان کی پہلی کتاب، کلیم احمد کی پاکستانی تہذیب کی کہانی، زینت غلام عباس کی دیس ہمارا پاکستان، سید قاسم محمودکی قائداعظم کا پیغام وغیرہ۔
مرزا ادیب کی کتاب بچوں کے ادب سے خصوصی اقتباس
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

پاکستان : منزل کہاں ہے ؟

وطن عزیز میں یہاں جھوٹ منافقت، دھوکہ بازی، قتل، ڈاکے، منشیات کے دھندے، ذخیرہ اندوزی، بد عنوانی، ملاوٹ، رشوت، عام ہے۔ مہنگائی ...