اگست کا مہینہ اپنی آمد کے ساتھ جذبات کے ایک گہرے طوفان کو جنم دیتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہم اپنے ملک کی آزادی کا پْر وقار انداز میں جشن مناتے ہیں اور اپنی خودمختاری کا فخر سے اظہار کرتے ہیں۔ اس موقع پر ہمارے لیئے اپنے ماضی پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے، اور ان قربانیوں کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے جو ہمارے پیارے وطن کی بنیادوں کے لیے دی گئی تھیں۔ میرے لیے یہ حقائق پیش کرنا بے حد مشکل ہے، مگر سچائی کبھی نہیں چھپتی، چاہے ہم اسے کتنی ہی شدت سے چھپانے کی کوشش کریں۔ یہ سچائی خاص طور پر ان لوگوں کے لیے ناگوار ہوسکتی ہے جنہوں نے پاکستان کے لیے کوئی قربانی نہیں دی، جو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے۔ ایسے افراد اکثر اْن مہاجروں کی مشکلات کو سمجھ نہیں پائے، یا جان بوجھ کر، انہوں نے اس صورتحال کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اس معاملے کا آخری فیصلہ تاریخ کرے گی۔ میرا کردار صرف ان حقائق کو قلمبند کرنے کا ہے کیونکہ ہم میں سے بہت سے لوگ ان تلخ حقائق سے ناواقف ہیں۔1947ء کی تقسیم ہند برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے، جس نے لاکھوں لوگوں کو نئی بننے والی سرحدوں کے آرپار بے گھر کر دیا۔ اس افراتفری کے دوران، پاکستان میں مہاجر کیمپ، جنہیں ابتدا میں حفاظت اور بحالی کی جگہوں کے طور پر بنایا گیا تھا، شدید المیے کے مقامات بن گئے، جہاں مصیبت زدہ لوگوں کی امیدیں دھوکہ دہی اور استحصال کے ذریعے چکنا چور ہو گئیں۔
تقسیم کے فوری بعد، ایک نوزائیدہ قوم پاکستان نے خود کو مہاجرین کے ایک بے پناہ سیلاب کے سامنے بے بس پایا، جو اپنے گھروں میں ہونے والی قتل و غارت اور بدامنی سے بچنے کے لیے بھاگ کر یہاں پہنچے تھے۔ یہ بے گھر لوگ، جو اپنی تباہ شدہ زندگیوں کی باقیات اٹھائے ہوئے تھے، کیمپوں میں اس امید کے ساتھ جمع ہوئے کہ وہ پاک سرزمین میں پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ اپنی زندگیوں کو نئے سرے سے تعمیر کر سکیں گے، ان خوفناک خوابوں سے نجات پا سکیں گے جو انہوں نے پیچھے چھوڑ دیے تھے۔ تاہم، کیمپوں کی افسوسناک حقیقت ان کی توقعات سے بہت دور تھی۔ یہ کیمپ گنجان آباد‘ بنیادی وسائل سے محروم، بیماری اور غذائی قلت سے متاثرہ تھے۔ تاہم، جسمانی مشکلات، چاہے کتنی ہی شدید کیوں نہ ہوں، اس اخلاقی اور نفسیاتی تباہی سے کم تھیں جو ان عارضی بستیوں کے اندر رونما ہوئی۔ مہاجر کیمپ امید کے بجائے استحصال کی زمین بن گئے۔ بے گھر، بے یار و مددگار اور مایوس لوگ جاگیرداروں اور متمول افراد کے رحم و کرم پر آ گئے، جنہوں نے ان کی بدحالی میں اپنے ذاتی فائدے کی راہ دیکھی۔ ان طاقتور افراد نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے مہاجرین کو استحصال کا نشانہ بنایا اور ان کی مایوسی کا فائدہ اٹھا کر اپنے اختیار کو مضبوط کیا۔ ایک تلخ ستم ظریفی کے طور پر، وہی زمین جو پاکیزگی اور انصاف کی علامت سمجھی جاتی تھی، بدعنوانی اور اخلاقی گراوٹ کا گہوارہ بن گئی۔
نوجوان خواتین خاص طور پر اس استحصال کی سب سے زیادہ شکار بنیں۔ بہت سی خواتین پہلے ہی اپنے سفر کے دوران ریپ اور تشدد کا ناقابل بیان صدمہ برداشت کر چکی تھیں۔ ان کے جسم اور روح ان خوفناک تجربات سے داغدار ہو چکے تھے، اور وہ کیمپوں میں حفاظت اور شفا کے لیے آئی تھیں۔ مگر کیمپوں کی حدود میں انہیں دوبارہ درندگی کا شکار بنایا گیا۔ حفاظت سے محروم اور انصاف کی راہ سے دور، ان خواتین کو اکثر ان حالات میں دھکیل دیا گیا جہاں انہیں محض زندہ رہنے کے لیے اپنے جسم بیچنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کیمپ، جو بحالی اور تعمیر نو کے مقامات ہونے چاہیے تھے، مزید تذلیل کے مقامات بن گئے، جہاں نئے آغاز کی امیدیں بے دردی سے ختم ہو گئیں۔ ان خواتین کا استحصال پاکستان کے ان ہی اصولوں کی گہری خلاف ورزی تھی جن پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی، یہ ایسی خیانت تھی جس نے قومی ضمیر پر گہرے زخم چھوڑ دیے۔ مہاجر کیمپوں کا المیہ اس نفسیاتی اثر سے بھی بڑھ گیا جو اس نقل مکانی نے مہاجرین پر ڈالا۔ وہ مہاجرین جو ایک بہتر زندگی کی امید کے ساتھ بھاگے تھے، اس تلخ حقیقت کا سامنا کر رہے تھے کہ ان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔
خواتین اور بچے شدید نفسیاتی صدمات سے دوچار ہوئے، جو طاقتور شکاریوں کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ تھے۔ تشدد کے مسلسل خطرے، عدم تحفظ اور استحصال کے خوف نے مسلسل اضطراب کو جنم دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جسمانی مشکلات نے بہت سے مہاجرین کو گہری مایوسی میں دھکیل دیا۔ کیمپ نفسیاتی قید خانے بن گئے تھے، جہاں وہ پھنس گئے، اور ان کے لیے کوئی واضح راہ فرار نظر نہیں آئی۔ مہاجر کیمپوں کی تاریخ ایک گہرے المیے سے عبارت ہے۔ ان کی حدود کے اندر استحصال اور مصائب انسانی فطرت کے تاریک پہلو اور بحران کے دوران ظلم کی انتہاء کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ کیمپ بحالی اور شفا کے لیے پناہ گاہوں کے بجائے اکثر مستقبل کی امیدوں کو بجھانے والے مقامات بن گئے۔
تاہم، اس المیے کے اندر عزم اور ثابت قدمی کی کہانیاں بھی ابھر کر سامنے آئیں۔ شدید مشکلات کے باوجود، بے شمار مہاجرین نے اپنی زندگیوں کی تعمیر نو میں کامیابی حاصل کی، اور شدید مصائب کے باوجود نئی کمیونٹیز اور شناختیں قائم کیں۔ اتنی گہری تکلیف برداشت کرنے میں انسانی روح کی طاقت ان لوگوں کی غیر معمولی مزاحمت کو اجاگر کرتی ہے جنہوں نے کیمپوں کے اندر زندہ رہنے میں کامیابی حاصل کی۔1947ء کی تقسیم کے بعد کے اثرات اور پاکستان میں مہاجر کیمپوں کا المیہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ مہاجرین کی برداشت کی جانے والی تکالیف اور ان کے ساتھ ہونے والا استحصال، ایک قیمت ہے، جو ان لوگوں کی اجتماعی یادداشت میں گونجتی ہے جنہوں نے پاک سرزمین کے لے اپنا سب کچھ قربان کیا۔ مہاجر کیمپ، جو کبھی امید کی علامت سمجھے جاتے تھے، دھوکہ اور نقصان کی علامت بن گئے۔ ان کیمپوں کی کہانی محض مصیبت کی کہانی نہیں، بلکہ بقا کی کہانی بھی ہے، ایک ایسی کہانی جسے یاد رکھنا چاہیے، نہ صرف ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اسے جھیلا، بلکہ ان اسباق کے لیے بھی جو یہ آئندہ نسلوں کے لیے رکھتی ہے۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں پناہ گزین کیمپوں کا المیہ
Aug 23, 2024