پنجاب جیل خانہ جات کا محکمہ 1854میں قائم کیا گیا۔ ’’ڈاکٹر سی ہیتھ وے ‘‘ پہلا آئی جی جیل خانہ تھا۔ آزادی کے وقت پنجاب کے حصہ میں ’’19جیلیں‘‘ آئیں۔ ’’21‘‘نئی جیلوں کی تعمیر کے بعد لمحہ موجود میں ’’40جیلیں‘‘ کام کر رہی ہیں۔ پاکستان اْن ممالک میں شامل ہے جہاں گنجائش سے بڑھ کر لوگ قید ہیں۔2022تک گنجائش سے 100%سے زیادہ لوگ تھے۔ استعداد سے زیادہ استعمال نے جیلوں میں صحت کی سہولیات میں مزید کمی پیدا کر دی ہے متعدی امراض تیزی سے پھیلتے ہیں۔ اکثریت علاج۔ ادویات تک رسائی سے محروم رہتی ہے۔ ’’2020‘‘ میں ایک رپورٹ کے مطابق اور 2022 کے وسط میں تباہ کن سیلاب نے بھی صورتحال مزید مخدوش بنا دی۔ قیدیوں کی صحت کے معاملہ میں غفلت ہی ایک پہلو نہیں دیگر معاملات مثلاً تشدد۔ بد سلوکی عام رہی ہے یہ تمام پہلو ٹوٹ پھوٹ کے شکار نظام انصاف کی بڑی علامتیں ہیں۔ ماضٰ میں ناکافی۔ غیر معیاری خوراک۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کے منافی طرز زندگی۔ ادویات ناپید ہونا۔ علاج تک آسان رسائی بہت گھمبیر مسائل رہے ہیں۔جو آج بھی کافی حد تک موجود ہیں۔
اِس خطہ میں نو آبادیاتی دور سے ہی جیلوں کے حالات خراب ہیں جیل کا قانون بھی اْسی عہد کا ہے۔ دہائیاں گزرنے کے باوجود اصلاح۔ تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اور پاکستان کی اکثریتی آبادی سے براہ راست جْڑا ہوا ہے آزادی کے بعد یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں اور سیاسی زعماء کرام۔ جماعتوں۔ سماجی تنظیموں نے جیل قوانین میں مثبت تبدیلیوں کو نہ صرف پس پشت ڈالے رکھا بلکہ اصلاحات جیسے اہم قدم کو بھی یکسر نظر اندازی کی ٹوکری میں دبائے رکھا ہے۔ بد سلوکی۔ تشدد کی بھیانک مثالیں ہر عہد کی پارلیمان کی شاذ ہی توجہ کھینچ سکی ہیں۔ مسلسل عدم توجہ ، کِسی بھی خیر۔ فلاح۔ اصلاح کی تبدیلی کو جنم دینے کا سب سے بڑا سبب ہے۔
جیلوں میں بند لوگوں کی اکثریت معاشرے کے محروم طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ گاؤں۔ چھوٹے شہروں کے لوگوں کی زندگیوں میں تھانے۔ کچہری کے علاوہ کچھ اہم نہیں۔ اْن کے نزدیک جیل جانا کچھ زیادہ بْرا فعل تصور نہیں کیا جاتا۔ خاندان در خاندان مقدمات۔ پیشیاں بْھگتتے رہتے ہیں۔ ’’زن۔ زر۔زمین‘‘ تینوں سنگین امراض کم ترقی یافتہ ان پڑھ لوگوں کی زندگیوں کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔افسوس تو اِس بات کا ہے کہ اب تو یہ وبائیں زیادہ خوشحال۔ تعلیم یافتہ افراد۔ قبیلوں میں بھی شدت سے در آئی ہیں۔ معمولی بات پر قتل۔ طلاق۔ تشدد عام ہے۔
کچھ عرصہ سے جیلوں میں قید لوگوں کی صحت۔ خوراک پر کچھ نہ کچھ کام ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اب ’’وزیر اعلیٰ پنجاب۔ مریم نواز‘‘ کی خصوصی توجہ کی بنا پر جیل اصلاحات کا آغاز ہو چکا ہے۔ جیل سے عدالت پیشی پر قیدیوں کو کھانا۔ ٹھنڈے پانی کی بوتلیں فراہم کی جاتی ہیں۔ بخش خانے میں دوران قیام قیدی دوپہر کا کھانا کھا سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کی 43جیلوں میں روزانہ کی بنیاد پر ’’7ہزار‘‘ قیدیوں کو پیش کے لیے لائے جانے کے دوران دوپہر کا کھانا۔ ٹھنڈا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ معیاری آٹا کی فراہمی کے لیے ’’آٹا چکیوں‘‘ کی تنصیب کی منظوری کی خبر ہے جیلوں میں ٹریکٹر۔ زرعی آلات پہنچانے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ انتہائی مثبت تبدیلی ہو گی کہ واقعی میلوں پر محیط جیلوں کی زمین کو قابل کاشت بنا دیا جائے۔ گندم۔ پھل۔ سبزیاں اْگانے کی طرف خصوصی توجہ دے دی گئی تو ہر ’’جیل‘‘ اپنا خرچ خود اْٹھانے میں مکمل خود مختار ہو جائیگی۔ کھانا۔ پانی چاہے مجرم ہے یا صادق امین ہرایک کا حق ہے بنیادی ضروریات پر اعترض نہیں۔ جیلوں کو ’’سہولت کدہ‘‘ نہیں ’’اصلاح گھر‘‘ بنانے کی طرف چند اقدامات از حد ضروری ہیں۔ کچھ ماہ قبل جیلوں میں متوقع سہولیات فراہمی کی تفصیلات پڑھنے کو ملی تھیں۔ مینیو سادہ کر دیں۔ مجرمان کو اتنی لش پش خوراک دینے کا سادہ سا مطلب جیلوں کو زیادہ اور ہمیشہ آباد رکھنا ہے۔ عید۔ قومی تہواروں کے مواقع پر اچھا کھانا فراخدلی۔ بڑی وسعت کی فکر‘ سوچ ہے۔ ائرکنڈیشنر اور کولرز کی کیا ضرورت ہے ؟ سطور کا مطلب اذیت نہیں اصلاح ہے ابدی درستگی۔ فلاح ہر کِسی کو مطلوب ہے تو جرائم کی بیخ کنی کے اقدامات بھی اْتنے ہی قابل پذیرائی ہونے چاہیے۔ بڑی اچھی بات ہے کہ پنجاب حکومت قیدیوں اور جیل حکام کی بہبود پر خاص توجہ دے رہی ہے یہاں پھر سے دہرارہی ہوں کہ اخلاقی تربیت سب امور سے بڑھ کر ہے۔ پیٹ کی شافی تسلی لازمی ہے وہاں دل۔ دماغ کی لائنوں کی صفائی بھی بھر پور تقاضا کرتی ہے صرف دین حنیف کی ابدی۔ لازوال تعلیمات پر عمل ہی ہم کو خواری۔ ذلت سے بچا سکتا ہے۔