رمز آشنا ، ڈاکٹر افضل صفی

ڈاکٹر محمد افضل کا شمار ایسے صاحبان ِ اخلاص تخلیقی محققین و ناقدین میں ہوتا ہے جو بغیر کسی صلے کی تمنا کے ادب سے اپنی وابستگی کا سچا اور عملی اظہار جا ری رکھے ہوئے ہیں۔ احمد فراز پر ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ تحقیق کا معیار طے کرنے کی سطح کا مقالہ ہے۔ تحقیقی میدان ہو یا تنقیدی ، شاعری ان کا پسندیدہ شعبہ ہے۔
 ْ رمز آشنا ء ان کے تحقیق و تنقید پر مبنی مضامین کا ایک ایسا منفرد مجموعہ ہے جو ادبی مراکز اور یونیورسٹیوں میں بیٹھے کارپوریٹ مدرسین کو گریبانوں میں جھانکنے پر مجبور کرتا ہے۔ میں درجنوں مشہور مدرس ناقدین و محققین کے نام گنوا سکتا ہوں جو بغیر مفاد کے کسی پر ایک جملہ لکھنا حرام سمجھتے ہیں۔ جبکہ افضل صفی کی رمز آشنا کی تخصیص ہی یہ ہے کہ اس میں مضافات کے سولہ ایسے شعراء پر مضامین لکھے گئے ہیں جن کا نام اور کام تسلیم کرنے میں آج تک ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی رہی ہے اور جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایک تو وہ مراکز سے دور رہے اور دوئم انہوں نے ہمارے کئی نام نہاد نوکری اور جی حضوری پیشہ بڑے ادیبوں کی طرح نہ تو کبھی دربار سرکار کی چلمیں بھریں اور نہ کبھی سامراجی ایجنڈوں پر چل کر نوکریاں ، کانفرنسیں اور ایوارڈز حاصل کیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی حقیقی محقق اور نقاد کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بڑا لٹریچر اور تخلیق کار دریافت کرکے سامنے لائے اور دوسرا نظر انداز کیے گئے تخلیق کاروں پر کام کرے اور اپنے عہد میں اپنے کنٹریبیوشن کا احساس دلا ئے۔ کسے نہیں معلوم کے ملکی مراکز سے دور چھوٹے شہروں اور قصبوں میں رہنے والے لوگ کس قدر احساس ِ محرومی کا شکار ہیں۔ طبی سہولتیں ہوں یا تعلیمی ضروریات ، جب انہیں بڑے شہروں کی طرف آنا پڑتا ہے تو ان کی زندگیوں کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہی احساس ِ محرومی مضافات میں رہنے والا فنکاروں اور تخلیق کاروں کو بھی لاحق رہتا ہے۔
 میں تحقیق و تنقید کے طالب علم کی حیثیت سے خود کو ڈاکٹر صفی کا احسان مند محسوس کرتا ہوں کہ انہوں نے مفاد پرستوں کے جتھوں میں رہتے ہوئے حقیقی شعراء پر کام کر کے تنقید و تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔ ورنہ اب تو چوکس مدرسین تو اب سرمایہ داروں کے دیے گئے موضوعات پر کام کرکے ایوارڈز لینے اور کانفرنسیں اٹنڈ کرنے کے سوا ادھر ادھر دیکھتے بھی نہیں۔ ہمارے ایک عزیز نے ماحولیاتی تنقید پر لکھے گئے مضامین کے اردو میں ترجمے پر مشتمل کتاب چھاپ کے اس پر یو بی ایل ایوارڈ بھی لے لیا ہے اور یہ تک نہیں سوچا کہ یہ کوئی ایسا کام نہیں جس سے اردو ادب یا ادب کے طالب علم کو کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں۔ 
 برسبیل تذکرہ یہ بتاتا چلوں کہ مغربی ممالک میں 80ء کی دہائی سے شروع کیے گئے ماحولیاتی آلودگی کے موضوع کو مطالعات میں جگہ دینے کے ٹرینڈ اور ہم جنس پرستی کی شادی کو قانونی حیثیت دلانے کی تحریکوں کے بیک وقت آغاز کے شواہد ملتے ہیں۔ البتہ پچھلے کچھ سالوں سے مختلف انگریزی ادبی میگزینز اور سوسائیٹیوں کی طرف سے ماحولیات پر شاعری ، تنقید اور دیگر ادبی کام کرنے پر بڑے بڑے نقد انعامات کا اعلان بھی کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے جس پر ملنے والے ایوارڈز کی ویلیو ڈالرز میں بتائی جاتی ہے۔ اس کا پس ِ پردہ مقصد اول تو ہمارے عالم فاضل مدرسین یا مصنوعی ادیبوں کو معلوم ہی نہیں ، یا اگر ہو بھی تو ان کی جانے بلا۔ ان کو تو ایوارڈ میں ملنے والی رقم سے غرض ہے۔ 
سرمایہ دارانہ سماج دشمن اور انسان غارت مشن اپنی تکمیل کے لیے زندگی کے ہرشعبے میں بربادی کی نئی سے نئی سمتیں نکالتا رہتا ہے۔ ماحولیاتی ادب کوئی ادب نہیں ہوتا اور ہو بھی تو اس لیے نہیں ہوتا کہ اسے دنیا میں ہونے والے ظلم ، خوں ریزی ، بے انصافی اور معاشی بربریت سے توجہ ہٹانے والے ٹول کے طور پر استعمال کیا جائے۔ آپ خود سوچیں کہ کیا اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ غربت اور معاشی بے انصافی نہیں ؟ کیا پوری دنیا جنگوں کی آگ میں نہیں جھونک دی گئی۔ کیا انسان کو مادیت پرستی کی لعنت کا شکار نہیں کردیا گیا۔ فلسطین ، عراق ، شام ، لیبیا اور یوکرین میں عورتوں ، بچوں سمیت معصوم سویلئنز کا قتل ِ عام کیا ادب کا موضوع نہیں ہونا چاہیے۔ ہونا کیا چاہئیے ہوتا ہے اور ہوتا چلا آیا ہے۔ لیکن صیہونی سامراج اور سرمایہ دارانہ عفریت ان حقیقی ایشوز سے توجہ ہٹانے کے لیے دو دو ٹکے کا لالچ دے کر لالچی اور مفاد پرست سرقہ جاریہ والے مائکل ، ڈکسن ، ہیری تلاش کرکے اور انہیں انعامات کا لالچ دے کر انسانیت کے خلاف کام کرنے پر لگائے رکھتا ہے۔ اور یہ صرف ادب کے شعبے میں نہیں بلکہ آپ کو ایسے سفاک اور ہولناک منصوبے فارماسوٹیکل سے لیکر فوڈ تک اور سیاست سے لیکر قیادت تک ہر شعبے میں جاری و ساری نظر آئیں گے۔
ماحولیاتی ادب ، ماحولیاتی فکر و فلسفہ اور ماحولیاتی ایکٹیوازم اسی ہولناک فریب کا ایک حصہ ہے۔ عہد ِ حاضر کے ایک بڑے المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ جو کچھ ہمیں یا ہمارے بچوں کو سکولوں ، یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا رہا ہے وہ کیا ہے ، کیوں ہے اور کیسے نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ البتہ قانون قدرت انسانی ریشہ دوانیوں کے مطابق نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام نامساعد حالات کے باوجود فطرت انصرام و اہتمام سے تمام کاروبار ِحیات کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ ایک طرف سامراجی جتھے ذاتی اور انفرادی مفادات کی دوڑ میں ادب ، ادیب اور سماج کو کچل کچل کے بے نام نشان بنانے پر تْلے ہوئے ہیں اور دوسری طرف افضل صفی جیسے اللہ کے برگزید مدرس اور ادیب ایسے ایسے ادبی جواہرات کو چْن چْن کر سامنے لا رہے ہیں کہ جن سے اردو ادب کی کہکشاؤں میں نئی کہکشاؤں کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر افضل صفی کی تنقیدی و تحقیقی کتاب رمز آشناء میں مرحوم دوست اطہر ناسک پر لکھا گیا مضمون مجھے رلا گیا۔ اطہر ناسک کے علاوہ انہوں نے کمال حسنِ انتخاب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ شاعر پر نہایت عمدہ مضامین لکھے ہیں۔ 
ذیل میں رمزآشنا میں شامل شعراء کی فہرست اوران پر مضامین کے عنوانات دیے جارہے ہیں جو کتاب کے اجمالی جائزے کی چھب سی ضرور دکھائیں گے۔
ڈاکٹر خیال امروہوی کی شاعری کا جمالیاتی طرز احساس ، ڈاکٹر خیال امروہوی کی نظم المیہ کا اسلوبیاتی مطالعہ، ڈاکٹر خیال امروہوی کی شاعری میں صنائع بدائع کا خصوص ، منیر نیازی کی شاعری کا بدیعی رنگ و آہنگ ، رضا ٹوانہ مزاحمت کا استعارہ ، ڈاکٹر افتخار بیگ تاباں سویروں کا ہم نوا شاعر ، قاسم راز تقدیس ِحرف کا پاسباں شاعر ، ڈاکٹر قاسم جلال دشت فکر میں رومان کے پھول اگانے والا شاعر ، جسارت خیالی ہمہ جہت ادیب
 ، اطہر ناسک جدید لہجے کا منفرد شاعر ، خالد محمود باریاب حرفوں کا ہم راز شاعر ، سلیم مکانی جدت و روایت کا نغمہ گر ، نعیم ناز گاؤں کی تہذیبی شناخت کا امین ، ندیم ملک شعری افق پر دمکتا ستارہ ، بلال انجم عشق کے نیلے سمندروں کا ہم مزاج شاعر ، قلب عباس عابس کیفیات و احساسات کا تو انا شاعر ، جمشید ساحل نثری نظم کا آئینہ گر

ای پیپر دی نیشن