جمعۃ المبارک‘ 17 صفر المظفر1446ھ ‘ 23 اگست 2024ء

خیبر پی کے میں 4 چینی سیاحوں کو داخلے سے روک دیا گیا۔
اس قسم کی حرکتوں سے سوائے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ 4 سیاح جن کا تعلق چین سے ہے سائیکلوں پر افغانستان اور پاکستان کی سیاحت کے لیے نکلے ہیں۔ گزشتہ روز جب یہ پنجاب سے خیبر پی کے میں داخل ہوئے تو وہاں کی چیک پوسٹ پر انہیں روک کر صوبے میں داخل ہونے نہیں دیا گیا۔ واپس پنجاب بھیج دیا گیا۔ معلوم نہیں ان کے کاغذات پورے نہیں تھے یا خیبر پی کے کوئی اور عشق ممنوع کی طرح ممنوعہ علاقہ ہے۔ ایسا تو افغانستان میں نہیں ہوتا۔ ایک طرف ہم سیاحت کو انڈسٹری کا درجہ دینے اور اسے منافع بخش کاروبار بنانے کے اعلانات کرتے پھرتے ہیں۔ دوسری طرف سیاحوں کے داخلے پر بھی پابندی لگا کر نجانے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ چینی سیاح تھے۔ اسرائیلی نہیں کہ ان کا پاکستان میں داخلہ ممنوع ہے۔ امید ہے صوبے کی انتظامیہ اصل حقائق کا پتہ لگائے گی کہ اس قسم کے احمقانہ غلط احکامات کس نے اور کیوں جاری کیے جس کے مضر اثرات خود اپنے ملک پر پڑ سکتے ہیں۔ کچھ عناصر کو سی پیک کے بعد پاک چین دوستی بالکل ہضم نہیں ہو رہی وہ شاید اب ایسا کر کے اپنے مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سائیکل سوار کونسا خیبر پی کے کی حکومت گرانے کا سائفر لے کر آ رہے تھے کہ سازش پکڑی گئی اور انہیں روکا گیا جبکہ سائفر والے متاثرین نیتو پرانے گلے شکوے بھلا کر پھر امریکہ سے یاری گانٹھ لی ہے اور وہاں لابسٹ فرمیں ہائیر کر کے تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں تو اب چین اور سی پیک کے حوالے سے یہ معاندانہ رویہ کیا حب الوطنی کہلائے گا۔ خیبر پی کے کے ذمہ داران اس حرکت پر معذرت کریں تاکہ دوستوں کا گلہ جاتا رہے اور ہمارے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔ 
٭٭٭٭٭
جے یو آئی اور جماعت اسلامی کی اپنی اپنی سولو پرواز کا فیصلہ۔ 
لگتا تو یہ پہلے سے تھا کہ جماعت اسلامی والے دھرنے سے اٹھنے کے بعد اس کے نقصان کا ازالہ کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے۔ پنجاب میں بجلی کے ریٹ میں جو تھوڑی سی رعایت ملی ہے دو ماہ کے لیے اس کا کریڈٹ بھی حکومت پنجاب نے لے لیا ہے۔ جماعت اسلامی والوں کا ذکر خیر تک کسی نے نہیں کیا۔ اس لیے اب جماعت والے یکم ستمبر سے سجدہ سہو کر کے اپنے سر سے بوجھ اتارنا چاہتے ہے۔ جبکہ ان کی اس تحریک میں کوئی اور ان کے ساتھ نہیں آ رہا۔ تنہا پرواز کا شوق وہ پورا کرنا چاہتے ہیں۔ جماعت والوں کو امید ہے کہ عوام ان کا ساتھ دیں گے۔ اسی طرح جے یو آئی والے بھی اب اِدھر اْدھر ہاتھ مارنے کے بعد ناامید ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بھی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ کوشش تو ان کی یہی تھی کہ اس کارخیر میں پی ٹی آئی والوں کا ساتھ بھی انہیں حاصل ہو۔ مگر لگتا ہے۔ پی ٹی آئی والوں نے کوئی خاص لفٹ نہیں کرائی دوسرے درجے کی قیادت کو فضل الرحمن کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ اب اس سے زیادہ بے قدری اور کیا ہو گی کہ جے یو آئی کے درجہ اول کے قائد سے عام وفد ملاقات کر کے معاملات طے کرتا رہا۔ یوں لوگوں میں بھی یہ تاثر اْبھرا کہ پی ٹی آئی کے بانی کی فضل الرحمن کے بارے میں یاوہ گوئی مولانا کیسے بھول گئے اور پی ٹی آئی والے کس طرح مولانا کو گلے لگا رہے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ اس حمام میں سب بے لباس ہیں۔ کسی کے بدن پر ایک دھجی بھی نہیں۔ اپنی زبان اور عزت کا پاس نہیں۔ اب دیکھنا ہے مولانا کا تنہا شوق پرواز انہیں کس طرف لے جاتا ہے۔ یہ اونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ سڑکوں پر آنے کا شوق اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کے سر پر سوار ہے۔ بنگلہ دیش کے واقعات نے ان سب کے شوق کو مہمیز لگا دی ہے۔ سب اپنی اپنی قسمت اور طاقت آزمانا چاہتے ہیں۔ دیکھنا ہے اس مہم جوئی میں کوئی کامیاب ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ کہیں مہم جوئی صرف ایک بے کار کی مشق ثابت نہ ہو۔ 
٭٭٭٭٭
بانی پہلے ہماری محبت، پھر عشق تھا۔ اب ضد بن گیا ہے۔ علی امین گنڈا پور۔
بے شک محبت عشق اورضد کا تقاضہ یہی ہوتا ہے کہ اپنے محبوب کو اچھائیوں اور برائیوں سمیت آنکھیں کان اور زبان بند کر کے قبول کیا جائے۔ علی امین گنڈا پور بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ اسی مخصوص سوچ کو ’’مرشد‘‘ کا نام دے کر اس طرح پروان چڑھایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی والے بڑے فخر سے خان ہے تو پاکستان ہے ورنہ کچھ نہیں جیسے جملے کہتے پھرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں ورنہ کوئی کچھ نہیں۔ 
اب معلوم نہیں کپتان کو نسا نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ کیاوہ بھارت یا افغانستان کو زیر دام لا کر نیا ملک بنائیں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر انہیں چاہے بانی کہیں یا مرشد۔ کوئی نہیں روکے گا۔ ورنہ 24 کروڑ لوگوں کا ایک ہی بانی اور قائد ہے وہ ہیں قائد اعظم محمد علی جناح اور ایک ہی ملک ہے۔ وہ ہے پاکستان جو ان سب کے لیے قابلِ احترام ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ کسی اور کو لانے کا تصور بھی نہیں کرتے کیونکہ یہ عزت انہیں خدا نے عطا کی ہے۔ سیاسی طور پر ہم جسے چاہیں قائد کہیں۔ بانی کہیں ، ثانی کہیں یا مرشد یہ ہر ایک کی اپنی مرضی ہے۔ سیاسی قائدین آتے اور جاتے رہیں گے۔ ’’میں اہم تھا یہی وہم تھا‘‘ کسی کے ہونے یا نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ عشق محبت اور ضد میں آ کر بھی گھر یا باپ کو بدلا نہیں جاتا۔ گھر کو سجایا سنوارا جاتا ہے۔ نظام بہتر کیا جاتا ہے۔ ضد میں آ کر یا محبت میں آ کر گھر خراب نہیں کیا جاتا۔ جبھی تو فارسی کی کہاوت ہے۔ ’’بدقوم باش بے قوم مباش‘‘ بری قوم ہی رہو، مگر بے قوم نہ رہو۔ ایوب، بھٹو، ضیا، بینظیر ، نواز شریف، مشرف اور کپتان جیسے آتے رہیں گے تاریخ میں جگہ بناتے رہیں گے مگر دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک بنانا سب کو نصیب نہیں ہوتا۔ ہاں ملک کو ترقی دینا یا لوٹنا ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ قائد یا بانی کا اعزاز صرف قائد اعظم محمد علی جناح جیسے دیدہ ور کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
افغانستان میں داڑھی نہ رکھنے اور نماز ادا نہ کرنے والے سینکڑوں سرکاری ملازمین برطرف۔
اب اس بات کا کریڈٹ تو طالبان حکومت کو دیا جانا چاہیے کہ کم از کم سرکاری ملازموں پر تو حکومت کا حق ہے کہ وہ ان سے کم از کم نماز کی پابندی تو کرائے۔ ویسے بھی سرکاری دفاتر کے اوقات میں صرف ظہر کی نماز ہی ادا ہوتی ہے۔ افغانستان میں ویسے بھی مذہبی رحجانات اور علما کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پہلے زیادہ تر لوگ نماز ادا کرتے ہیں، بہت کم لوگ بے نمازی ہیں۔ اسی طرح داڑھی بھی سب ہی رکھتیہیں۔ پہلے تو داڑھی نہ رکھنے والے سینکڑوں سرکاری ملازمین کو ملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔ اب بے نمازی بھی اس صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ اب شاید افغانستان میں حکومت بڑی بڑی داڑھیاں رکھنے اور نماز روزہ اور حج پر سختی سے عمل کرنے والے تمام حاجی، نمازی صاحبان کو سودی کاروبار سے بھی رکنے کا حکم دے کیونکہ سود بھی حرام ہے۔ مگر یہ کابلی والے تو پوری دنیا میں پیسے ادھار دے کر خوب سود وصول کرتے ہیں۔ برصغیر ان کا خاص نشانہ رہا ہے۔ ان پر ایک فلم بھی بن چکی ہے جبکہ متعدد فلموں میں ان سود خوروں کو دہلی ڈھاکہ ، ممبئی، کلکتہ، لاہور، ملتان، کراچی، راولپنڈی اور سکھر میں سود وصول کرنے کے واقعات دکھائے گئے ہیں متعدد کہانیاں، ناول اور افسانے بھی لکھے جا چکے ہیں۔ سود پر پابندی سے لاکھوں غریبوں کو آرام ملے گا۔ اگر حکومت واقعی اسی طرح منشیات اور اسلحہ کے سمگلروں کو قانون کا پابند کرے تو پڑوسی ممالک کے ساتھ افغان حکومت کے تعلقات اچھے ہو جائیں گے۔ افغانستان میں بھی امن ہو ، وہاں تعلیم، صحت اور روزگار کے ذرائع پیدا ہوں۔ خواتین پر تعلیم اور روزگار کے دروازے کھولے جائیں۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جن بے چارے موسیقاروں، گلوکاروں کے طلبہ سارنگی ، رباب وغیرہ توڑے گئے ہیں ان کو متبادل روزگار یا معقول مدت کے لیے سرکاری وظیفہ دیا جائے تاکہ وہ بھوکے نہ رہیں۔ برقعہ کی طرح موسیقی بھی افغان کلچر کا حصہ ہے جس کی ساری دنیا میں اپنی شناخت ہے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن