اسلام آباد (خصوصی رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ) مبارک ثانی ضمانت کیس میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں سے معترضہ پیراگراف حذف کردیے۔ عدالت نے قرار دیا ہے فیصلے کے مطابق جو پیراگراف حذف کرائے گئے ہیں وہ کسی بھی فیصلے میں بطور مثال پیش نہیں ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو مقدمہ میں عائد دفعات کا قانون کے مطابق جائزہ لینے کا بھی حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مبارک ثانی کیس کے فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی درخواست پر سماعت کی۔ فضل الرحمان سمیت متعدد علماء کرام عدالت میں پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے، 29 مئی کو عدالت کا ایک فیصلہ آیا، علماء کرام اور اراکین پارلیمنٹ نے وفاق کو درخواستیں دیں۔ فیصلے میں کچھ ایسے پیراگراف تھے جن پر عدالت کی توجہ چاہتے ہیں، یہ دینی معاملہ ہے، عدالت مناسب سمجھے تو علماء کرام سے سن لے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو یہ درخواست پارلیمنٹ نے لانے کی ہدایت کی؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزیراعظم کی جانب سے ہدایت کی گئی تھی، سپیکر قومی اسمبلی نے خط لکھا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انسان قول و فعل سے ہی پہچانا جاتا ہے، پارلیمنٹ کی ہر بات سر آنکھوں پر، اچھی بات ہے پارلیمنٹ نے آپ کو حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی کوئی غلطی ہو تو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے ، جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کی ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اگر ہم سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی اصلاح بھی ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون کون سے علماء کرام عدالت میں موجود ہیں؟ جس پر فضل الرحمان عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ تعین کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری کون کون رہنمائی کرے گا۔ چیف جسٹس نے فضل الرحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی یا اعتراض ہے تو ہمیں بتائیں، ہم دیگر اکابرین کو بھی سنیں گے۔ مفتی تقی عثمانی ترکی سے بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے لطیف کھوسہ اور حامد رضا کو بات کرنے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی وکیل کو نہیں سنیں گے یہ واضح کر رہے ہیں۔ جس پر لطیف کھوسہ بولے کہ میں بطور رکن پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹی ممبر پیش ہو رہا ہوں، صاحبزادہ حامد رضا کے نکتہ اعتراض پر ہی سارا معاملہ شروع ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے صاحبزادہ حامد رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ دیگر علماء سے بڑے ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ درس نظامی کا فاضل ہوں، کسی سے بڑے ہونے یا برابری کا دعویٰ نہیں کرتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں اور عدالتی کارروائی چلنے دیں۔ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ عدالت کا پورا فیصلہ ہی غلط ہے، ہم چاہتے ہیں پورا عدالتی فیصلہ ہی واپس لیا جائے۔ مفتی تقی عثمانی نے ویڈیو لنک پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے نظرثانی کیس میں جو رائے دی اس کو شاید نظر انداز کیا گیا، نظر ثانی درخواستوں کے فیصلے میں کچھ قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا، اچھی بات ہے کہ چیف جسٹس پاکستان فیصلوں میں آیات کا حوالہ دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر فیصلے میں کوئی غلطی ہے تو عدالت کی رہنمائی کی جائے، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے، میں کوئی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔ عدالت نے مولانا فضل الرحمان، مفتی شیر محمد اور دیگر علماء سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا۔ ابوالخیر محمد زبیر اور جماعت اسلامی کے فرید پراچہ نے بھی عدالت کی معاونت کی۔ مفتی تقی عثمانی نے فیصلے کے دو پیراگراف حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پیراگراف نمبر 7 اور 42 کو حذف کیا جائے۔ مفتی تقی عثمانی نے مقدمہ سے دفعات ختم کرنے کے حکم میں بھی ترمیم کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت دفعات کا اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ اصلاح کھلے دل کے ساتھ کرنی چاہیے، عدالت نے لکھا کہ قادیانی مبارک ثانی نجی تعلیمی ادارے میں معلم تھا، گویا عدالت نے تسلیم کرلیا کہ قادیانی ادارے بناسکتے ہیں، عدالت نے کہا قادیانی بند کمرے میں تبلیغ کرسکتے ہیں، قانون کے مطابق قادیانیوں کو تبلیغ کی کسی صورت اجازت نہیں، عدالت نے سیکشن 298C کو مدنظر نہیں رکھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم وضاحت کردیں تو کیا یہ کافی ہوگا؟۔ جس پر مفتی تقی عثمانی بولے عدالت وضاحت کے بجائے فیصلے کے متعلقہ حصے حذف کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں قرآن مجید، احادیث اور فقہ کا حوالہ دیتا ہوں مگر شاید میری کم علمی ہے، میرا مؤقف ہے کہ ہم امریکہ برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں اپنی کیوں نہ دیں، کوئی میٹرک کا امتحان نہ دے تو فیل ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ میں آپ کی خدمت میں یہ سب باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ شرمندہ نہ کریں ہمارے بزرگ اور بڑے ہیں آپ کا بہت احترام ہے۔ چیف جسٹس نے مفتی تقی عثمانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق دو پیراگراف ختم ہونے چاہئیں، مزید کچھ کہنا چاہیں تو بتا دیں۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ قادیانی اقلیت میں ہیں لیکن خود کو غیرمسلم تسلیم نہیں کرتے، قادیانیوں کو پارلیمنٹ میں بھی نشستیں دی گئیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2002 کے بعد قانون تبدیل ہوگیا اور قادیانیوں کی ایک نشست تھی جو ختم کر دی گئی، اب صرف اقلیت کی 10 مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے کہاکہ قادیانی مسلم کے بجائے اقلیت کے طور پر رجسٹر ہوسکتے ہیں، اقلیت خود کو مان لیں تو پھر ان کو اقلیتوں کی نشستیں بھی مل سکتی ہیں، میرے پاس ان مسائل سے متعلق کتاب ہے عدالت چاہے تو فراہم کردوں گا۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس نے کہا مولانا صاحب آپ کے آنے کا شکریہ۔ مولانا فضل الرحمان نے مفتی تقی عثمانی کی گزارشات کی حمایت کردی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر مذہبی جماعتوں اور علماء کرام نے آراء دی ہیں، جو تحفظات ہیں سب آپ کے سامنے ہیں، پہلی بار عدالت کے سامنے کھڑا ہوا ہوں، ختم نبوت کے معاملے پر آج یہاں کھڑا ہوں، قادیانی فرقہ پوری امت مسلمہ کو غیرمسلم کہتا ہے۔ انہوں نے استدعا کی کہ عدالت پورے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرے والد کے انتقال پر مفتی محمود صاحب تعزیت کیلئے گھر آئے، باتیں کرنا کچھ اور ہے اور کرکے دکھانا کچھ اور ہے، تاریخ کو دہرانا نہیں چاہتا، گورداس پور اور فیروز پور ہمیں ملتے تو کشمیر ہمارے ہاتھ سے نہ جاتا، پاکستان کیلئے جنگ میرے والد نے بھی لڑی، میرے والد نے ہر چیز پاکستان کیلئے لگا دی، کسی نے مجھے قتل کی دھمکی دی، میں نے کسی سے بدلا نہیں لیا۔ جس پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آپ شکایت کا ازالہ کر رہے ہیں یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، عزت اور ذلت دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، یہ مقدمہ مبارک ثانی کی ضمانت کا تھا، عدالت اپنے فیصلے کو ضمانت تک محدود رکھے، مبارک ثانی کا ٹرائل متعلقہ عدالت میں چلتے رہنا چاہیے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کی جگہ فرید پراچہ پیش ہوئے اور کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں فیصلے میں ترمیم ہونی چاہیے، تمام مسلمان ختم نبوت پر متفق ہیں۔ سید جواد نقوی نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے پیرائے متصادم ہیں، چیف جسٹس نے غلطی تسلیم کرکے شجاعت کا مظاہر کیا، حکومت اور عدالت جب اپنا حقیقی کردار ادا نہ کریں تو عوام میں اشتعال پھیلتا ہے، جج کو دباؤ میں فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جس دن میں نے دباؤ میں آکر فیصلے کئے اسی دن گھر چلا جاؤں گا۔ مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ اکثر فیصلوں میں قرآنی آیات و احادیث کا حوالہ دیتی ہے، چیف جسٹس کی جانب سے اسلامی اصولوں کا حوالہ دینا قابل تحسین ہے، کچھ جگہوں پر قرآنی آیات کے حوالے سے ابہام بھی پیدا ہوجاتا ہے، اسلامی تعلیمات میں ابہام آجائے تو دور کرنا لازمی ہے۔اس دوران مفتی منیب الرحمان کے نمائندے نے بھی دیگر علماء کی رائے سے اتفاق کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کیس کے پہلے فیصلے واپس لے کر نیا فیصلہ جاری کر دے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس تجویز پر ضرور غور کریں گے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا گیا۔ سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈاکٹر عطاء الرحمان نے کہا کہ آیات اور احادیث کا حوالہ درست اور سیاق و سباق کے مطابق دینا ضروری ہے، عدالت یہ بھی تعین کرے کہ آئین کو نہ ماننے والے قادیانیوں سے کیسے نمٹا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں رہنے والے آئین پر عمل کرنے کے پابند ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ قادیانی خود کو اقلیت مانیں تو انہیں آئینی حقوق مل سکتے ہیں، آپ کے اس نکتے سے مکمل اتفاق ہے۔ پروفیسر ساجد میر کے نمائندے ایڈووکیٹ حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ سپریم کورٹ 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلے کو ختم کرکے نیا فیصلہ جاری کرے، اگر پہلے والے فیصلے برقرار رہے تو مستقبل میں ان کا حوالہ دیا جائے گا، اس کیس کے تمام فیصلے ملا کر نیا فیصلہ دیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح فیصلے ملانے کی کوئی عدالتی نظیر ہو تو بتا دیں۔ جس پر حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ اس سے متعلق سپریم کورٹ کو ریکارڈ فراہم کر دوں گا۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی حافظ احسان کھوکھر کی تجویز سے اتفاق کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ اس کیس کے پہلے فیصلے واپس لے کر نیا فیصلہ جاری کر دے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس تجویز پر ضرور غور کریں گے۔ بعد ازاں، سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں نظر ثانی اپیل پر علماء کرام کی تجاویز منظور کرلی، عدالت نے درستگی سے متعلق وفاقی حکومت کی اپیل منظور کرتے ہوئے 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں سے معترضہ پیراگراف حذف کردئیے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ مبارک ثانی نظرثانی فیصلے کے حذف شدہ پیراگراف کو عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کو مقدمہ میں عائد دفعات کا قانون کے مطابق جائزہ لینے کا حکم بھی دیا ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق پیراگراف 7، 42اور 49c کو حذف کیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اگر ہم سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کی اصلاح بھی ہونی چاہئے۔ جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کی ان کا شکریہ۔ کہنا تو نہیں چاہیے لیکن مجبور ہوں، میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کرائے، انسان اپنے قول و فعل سے پہچانا جاتا ہے، میں غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 6 فروری کا فیصلہ نظرثانی کے بعد پیچھے رہ گیا ہے، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے، میرا موقف ہے کہ ہم امریکا برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں اپنی کیوں نہ دیں؟ عطاء الرحمن نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز پر ہم دیگر علماء کی طرح متفق ہیں، مسلمانوں کے جذبات اس معاملے سے جڑے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کے مطابق حقوق دو صورتوں میں ملیں گے؟ قادیانی خود کو غیر مسلم تصور کریں یا پھر ختم نبوت کو مان لیں؟۔ عطاء الرحمن نے جواب دیا کہ آئین کہتا ہے قرآن اور سنت کے برعکس کوئی قوانین نہیں بن سکتے۔
لاہور+ اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار+ خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) مولانا فضل الرحمان نے مبارک ثانی کیس میں متنازعہ پیرا گراف حذف کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر آج یوم تشکر منانے کا اعلان کر دیا ہے۔ جبکہ جے یو آئی کے رہنماؤں مولانا عبدالغفور حیدری‘ مولانا محمد امجد خان‘ مولانا فضل علی حقانی‘ مولانا محمد یوسف اور دیگر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حق سچ کی فتح ہے، اس پر پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ قوم آج اﷲ کا شکر ادا کرے گی کہ عقیدہ ختم نبوت اور پاکستان کے آئین اور قانون کے خلاف ایک گہری سازش کو اﷲ نے ناکام کیا اور ختم نبوت کا پرچم پھر ایک مرتبہ سر بلند ہوا ہے۔ فضل الرحمن نے کیس کا فیصلہ آنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا اچھا فیصلہ آ گیا ہے اب تفصیلی فیصلہ آئے گا تو حتمی رائے اسی وقت دی جائے گی۔ تمام فیصلہ ریورس کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ دنیا کی کوئی طاقت عقیدہ ختم نبوت کے خلاف سازش نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کے حتمی فیصلے کا اعلان کیا ہے۔ عدالت نے قابل اعتراض تمام شقوںکو ختم کر دیا ہے۔ دینی جماعتوں نے سپریم کورٹ کو فیصلے سے متعلق قائل کیا۔ چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ جب کوئی یہ کہہ دے کہ انسان سے غلطی ہو سکتی ہے تو یہ بات کافی ہے۔ تمام دینی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس موضوع پر پارلیمنٹ میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ سات ستمبر کو یوم فتح منایا جائے گا۔ دینی جماعتوں نے اظہار یکجہتی کیا۔ ایک سوال پر کہا کہ سود کے مسئلے پر پوری قوم اور علماء کرام متفق ہیں۔ بنکوں نے سود کے معاملے پر حکم امتناعی لے رکھا ہے۔ بڑی کامیابی پر امت مسلمہ‘ قوم اور دینی جماعتوں کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ عالمی طاقتوں کو کہنا چاہتے ہیں غیر آئینی عمل کو سپورٹ نہ کریں۔ قومی اسمبلی کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے۔ چیف جسٹس نے بہت ہی فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ جس مثبت رویئے کا اظہار کیا ان کو داد دینی چاہئے۔ اس مسئلے پر حکومت اور اپوزیشن سب ایک صفحے پر تھے۔ ہم ان کے انسانی حقوق کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آئین پاکستان کو تسلیم کریں، کوئی شہری دنیا کے کسی حصے میں آئین کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کے شہری حقوق ختم ہو جاتے ہیں۔ لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ توقع ہے کہ فیصلہ کے اعلان کے بعد تحریری فیصلہ میں تمام متنازع امور کا خاتمہ کر دیں گے۔ یہ بھی عدالتی تاریخ کا روشن اقدام ہے کہ ضد اور اصرار کی بجائے حکمت و دانش کے ساتھ تمام مکاتبِ فکر کی بات کو سنا گیا۔ ریاست، حکومت اور تمام آئینی اداروں کو اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اسلامیان پاکستان عقیدہ ختم نبوت، شان رسالت اور شعائر اسلام کے ساتھ کسی چھیڑ چھاڑ کے کسی اقدام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اسلامیان پاکستان میں ہزار اختلاف ہو سکتے ہیں، لیکن عقیدہ ختم نبوت اور مقام مصطفی پر کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما مولانا عزیز الرحمن ثانی، مولانا عبدالنعیم، مولانا علیم الدین شاکر نے سپریم کورٹ کو مبارکباد پیش کی اور ججز کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا سپریم کورٹ نے اچھا فیصلہ دے کر عاشقان مصطفی کے دل جیت لیے، یہ فیصلہ قرآن سنت، آئین پاکستان اور مسلمانوں کی امنگوں کے عین مطابق دیا گیا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر علامہ زبیر احمد ظہیر نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے غلطی تسلیم کر کے مبارک ثانی کیس کے فیصلے سے متنازعہ پیرا گراف حذف کرنے کے عمل کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے اور اسے بالکل بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے مبارک ثانی ضمانت کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے اپنے نمائندہ وکیل حافظ حسان احمد کھرکھر ایڈووکیٹ کو بہترین دلائل دینے پر شاباش دی۔ پروفیسر ساجد میر ناسازی طبع کے باعث سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہو سکے۔ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ قادیانیوں کے ہمنوا بھی سن لیں کہ یہ ملک ختم نبوت کے پروانوں کا ہے، یہاں کسی منکر کی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کے ایمانی جذبات اس معاملے سے جڑے ہوئے ہیں۔