عموماً جب دو پاکستان تذکرہ کیا جائے تو لا محالہ طبقاتی تقسیم اور اس کے اثرات کے باعث تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی میں موجود امیر غریب کے مابین تفاوت کی جانب ذہن جاتا ہے۔ لیکن آج ہم جس دوسرے پاکستان کا ذکر کرنے جا رہے ہیں وہ دہیی یعنی دیہاتی پاکستان ہے جو عام طور مین سٹریم میڈیا پہ دکھائے جانے والے پاکستان سے یکسر مختلف ہے۔ویسے تو بنیادی نوعیت کے مسائل یعنی غربت، بیروزگاری، ذرائع رسل و رسائل ، تعلیم ،صحت، معاشرتی ناہمواری وغیرہ کے حوالے سے "دونوں پاکستانوں" میں زیادہ فرق نہیں لیکن مسائل کا سامنے کرنے اور ان سے مسلسل نبردآزما رہنا دیہی پاکستان کی بڑی خوبی ہے۔ تنگی ہائے حالات کے باوجود خوشیاں کشید کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ دیہاتی میلوں ٹھیلوں یا خوشی کی تقریبات میں سجنے والے ثقافتی کھیل ہیں۔ جن میں نمایاں اور تماشائیوں کی کشش کا باعث بننے والے کھیل بیل دوڑ، کبڈی، والی بال، بھاری ٹھوس پتھر اٹھانے کے مقابلے ، ملاکھڑا ، کشتی اور سب سے بڑھ کر گھڑ دوڑ والی نیزہ بازی ہیں۔ ان کھیلوں کے مقابلے تقریباً سارا سال بلا تعطل جاری رہتے ہیں لیکن زیادہ عروج موسم بہار سے لیکر خزاں شروع ہونے تک ہوتا ہے۔ ان مقابلوں کو مقامی سطح پر بغیر کسی حکومتی معاونت اور سرپرستی کے سینکڑوں مقامات پر منعقد کیا جاتا ہے ہر مقابلہ دیکھنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں تماشائی آتے ہیں اور اپنے پسندیدہ مقامی کھلاڑیوں اور ان کے سدھائے جانوروں کی مہارت اور اچھی کارکردگی پہ خوب جوش و خروش سے داد و تحسین پیش کرتے ہیں۔ چند دہائیاں قبل تک ان کھیلوں کا انعقاد جشن بہاراں کے نام سے تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز میں بڑے تسلسل اور پابندی سے ہوتا تھا۔ ان مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے پورا سال بڑے جوش و خروش سے تیاری کی جاتی،کھلاڑی خوب کسرتیں اور مشقیں کرتے جبکہ جانوروں کی نمائش کے شوقین کسان سارا سال اپنے اعلیٰ نسل کے جانوروں کی خدمت کر کے ان کمیٹیوں میں نمائش کیلئے پیش کرتے جہاں داد و تحسین کے ساتھ کچھ وظائف بھی ملتے لیکن پھر ملکی اور خاص طور پر پنجاب کی سیاست پہ غیر کاشتکار گھرانوں کے تسلط سے یہ شعبہ سرکاری سرپرستی سے محروم ہو گیا لیکن دیہاتیوں اور کسانوں نے ہار نہ مانی اور آج تک ثقافتی کھیلوں کے اپنے عظیم ورثے کو گلے سے لگا رکھا ہے۔ان ثقافتی کھیلوں کی تشہیر سوشل میڈیا کی مرہون منت ہے سوشل میڈیا نے ثقافتی کھیلوں کے ان نمائندوں کو پہچان اور شہرت عطا کی ہے ثقافتی کھیلوں کا شعبہ اب باقاعدہ صنعت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہو چکا ہے۔ نیزہ بازی، بیل دوڑ ، والی بال کبڈی ، ملاکھڑا ، گھڑ ڈانس ، گھڑ چال سمیت درجنوں کھیلوں کے کلب بن چکے ہیں جن کو اپنی خدمات پیش کر کے کھلاڑی باقاعدہ اپنا معاوضہ لیتے ہیں یہ بڑی خوش آئند بات ہے تاہم سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہ معاوضے ان کھلاڑیوں کی مہارت کے پیش نظر بہت حقیر ہیں البتہ کچھ نہ ہونے سے کچھ نہ کچھ ہونا بہتر کے مصداق نظام چل رہا ہے۔ ان کھیلوں کے فروغ کیلئے اکیڈمیاں تو درکنار کھیل کے میدانوں کا ہی فقدان ہے۔ ان کھیلوں میں فنذز کی کمی کے پیش نظر حفاظتی لباس اور دیگر اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں یہ جانباز کھلاڑی باقاعدہ حفاظتی لباس کے بغیر ہی خطرناک کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں خدا نخواستہ کسی چوٹ یا فریکچر کی صورت میں کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ پاکستان کی ثقافت کی اصل پہچان یہ عظیم کھلاڑی ہیں لیکن معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ انتہائی منظم سازش کے تحت ناچ گانے کو ہی ثقافت قرار دیکر خزانوں کے منہ اس فن سے وابستہ لوگوں کیلئے کھول دیے گئے ہیں۔ آج تک کوئی میڈل یا وظیفہ کسی مقامی کھیل کے کھلاڑی کو نہیں ملا جبکہ نام نہاد ثقافت کے نمائندے یہ سب لے اڑتے ہیں۔ میں فنون لطیفہ کے خلاف بات نہیں کر رہا لیکن جب بات ثقافت کی ہو تو اصل ثقافت کی جڑ کو نظر انداز نہیں کرنا چاھیے۔لیکن کیا جائے اب تو فنون لطیفہ کی اہمیت سکڑ چکی ہے ثقافت کے نام پہ طوفان بدتمیزی بپاء ہے جس پہ احتجاج کے طور پر یہ چند جملے سپرد قلم کر رہا ہوں۔ اربابِ اختیار اب بھی ہوش کے ناخن لیں اس شعبے کی سرپرستی قومی زمہ داری کے طور پر قبول کریں اور پاکستان کے دہشت گردی ، بیایمانی، افلاس ، نوچ کھسوٹ کے تصور کو ختم کر کے اصل ثقافتی تصور دنیا کے سامنے پیش کریں اور ثقافتی کھیلوں سے وابستہ شہرہ آفاق کھلاڑیوں، اچھے مویشی پال گلہ بانوں اور بہترین فصل اگانے والے کسانوں کے وظائف مقرر کیے جائیں۔ اس سے نوجوان نسل کی اپنی ثقافت سے گہری وابستگی بھی پیدا ہوگی اور روزگار کے انگنت مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ یوں جب لاکھوں لوگ معیشت کے پہیے سے منسلک ہوں گے ملکی معیشت میں بہتری کی گنجائش پیدا ہوگی۔