روح : حقیقت کا چشم کشا پہلو

رب العزت نے فرشتوں کو آگاہ فرمایا،سڑی مٹی سے ایک پتلا بنانے جا رہا ہوں اور اس کو زمین میں اپنا خلیفہ نامزد کروں گا۔فرشتے یہ سن کر ششدر رہ گئے،اپنی عبودیت کی قسم کھائو اور انسان کی سرکشی کا رونا پیٹا۔مالک نے اس پتلے میں اپنی روح پھونک کر جان ڈالی،پر سجدے کا حکم علم تفویض کرنے کے بعد ہوا اور سارے فرشتے سجدہ ریز ہوئے،ماسوائے سرکش ملعون شیطان کے…مٹی کے پتلے میں حرکت روح پھونکنے کے بعد آء،اسے اللہ تبارک تعالی نے اپنے علم کی روشنی سے روشناس کیا اور انسانی دماغ کی گراریاں چل پڑیں۔رحمان و رحیم نے قرآن پاک میں سورہ نور میں اپنے آپ کو طاق کے چراغ کی روشنی سے تشبیہ دی،یہی بجلی موسی علیہ السلام کو کوہ طور پہ دکھائی گئی اور عرش معلی پہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی اسی چکا چوند روشنی کی شہادت دی۔روشنی ،بجلی،برق یہ ساری تواناء کی شکلیں ہیں ،جسے خدا نے انسان کے اندر ڈالس اور ہمارے بیکار پرزے چل پڑے۔اللہ تبارک تعالی فرماتا ہے ،میں تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے،چونکہ اس کی روح ہمارے اندر سرائیت کر کے تیر رہی ہے اور وہی ہماری زندگی کی ضامن ہے۔ہمارے جسم کے اندر بیسیوں تواناء کے مختلف کارخانے چل رہے ہیں،ایک طرف مشینی تواناء سے دل دھڑک رہا ہے اور اس کو بجلی کی تواناء، تاروں کے ذریعہ چلا رہی ہے۔کھانے کو مشینی تواناء توڑتی ہے،پھر کیمیاء عناصر کی مدد سے اس کو ہاضم بنایا جاتا ہے اور اس میں شامل اجزاء  الگ الگ کیمیاء تواناء سے قوت و طاقت فراہم کرتے ہیں۔حواس خمسہ کی کیمیاء بناوٹ، ہمیں اللہ کی تخلیق کردہ نعمتوں سے متعارف کراتی ہے،دماغ کے خلیئے بجلی و کیمیاء توانائی  سے انھیں اپنے اندر محفوظ کرتے ہیں اور وقت مقررہ پر ان کی یاداشت دھراء جاتی ہے۔پیشاب کا عمل اس قدر خوبصورتی سے گندے پانی کی صفاء  و نکاسی کرتا ہے،سارے مضر کیمیاء  اجزاء کو گردے،جسم سے چھان کر باہر نکال دیتے ہیں۔جسم میں پھیلے پانی و نمکیات کا معتدل پھیلاو،ان کی کثافت اور ان کی ضروت کا کیمیاء عملیات سے انسان کو احساس دلایا جاتا ہے۔ بس اسی قسم کا عمل پاخانے کی نالی بھی انجام دیتی ہے،پر اس کا کام ذرا سہل و آسان ہے اور محض فضلے کو باہر خارج کرتی ہے۔ان سارے معمولات کے لیئے توانئی  درکار ہوتی ہے،اس کا سرچشمہ ہماری روح ہے،جسے اللہ نے ہمیں عنایت فرمایا ہے،یہی سارے جسم کی روح رواں ہے۔دل و دماغ بجلی بناتے ہیں،ان دونوں کی کارکردگی کو باہر مشینوں کے ذریعہ دیکھا جا سکتا ہے۔انسانی موت اس وقت واقع ہوتی ہے،جب دماغ کی لکیر سیدھی ہو جاتی ہے اور اس میں کوئی رتعاش دکھاء  نہیں دیتا،یہ روح یعنی تواناء  کا جسم سے اخراج کا عمل ہے۔سائنسی اعتبار سے توانائی ختم نہیں ہوتی،بلکہ اپنی شکل تبدیل کر سکتی ہے اور تعالیٰ تعالی نے قرآن میں اسی بات کی جانب اشارہ فرمایا ہے،تمہاری اچھی و بری روحوں کو علیعین و سجین میں رکھا جائے گا۔اللہ اکبر آج کا انسان قرآنی معجزات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے،اس نے کمپیوٹر میں ساری توانائی محفوظ دیکھی ہے اور اس کو دوبارہ اپنی انگلیوں کی مدد سے نکال لیتا ہے۔جب انسان نے تواناء کے جن پر قابو پا لیا،اسے مختلف طریقوں سے محفوظ کرتا ہے اور تبدیل کرتا ہے،پھر مالک دوجہاں کے لیئے صرف کن فیکون کہنے کی ضرورت ہے۔توانائی کے ذرے حرکت میں آئیں گے،انسان دوبارہ اپنی اصلی شکل میں واپس آئے گا اور اس کا ہر ذرہ گواہی دے گا۔ہماری سائنسی تحقیق کی بناء  پر، ہر خلیئے سے انسان و جانور کی تخلیق متوقع ہے اور جب انسان اس قابل ہو چکا ہے،پھر خالق اس معجزہ کو بارہا دکھاتا ہے۔ہر سال مرے درختوں کو،زندہ کر کے،بیجوں میں سے پھل و پھول نکال کر اور ہمیں روزانہ موت کی نیند سلا کر دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ہر خلیئہ اس قابل ہے کہ وہ اپنا مدعا بیان کرے،مالک کی عدالت میں گواہی دے اور یہ ہمارے لیئے کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیئے۔روح توانائی ہے!اللہ تعالیٰ علم کے تکبر سے محفوظ رکھے،آمین

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی لکیریں

منظر الحق Manzarhaque100@gmail.com  قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا ...