چند روزقبل معروف دانشور اور صحافی جناب محمد نواز کھرل صاحب کی دعوت پرشہر لاہور کے ایک بڑے مقامی ہوٹل میںمنعقد ایک پر وقار تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔یہ تقریب عالمی سطح پر خدمت خلق کے ایک پاکستانی ادارہ ’’ المصطفٰی ٹرسٹ ‘‘ کے زیر اہتمام ایک پاکستانی سپوت جناب اسرار خان کاکڑ کے اعزاز میں منعقد ہوئی۔اسرار خان کاکڑ کو اللہ پاک نے بڑی عزت سے نوازا اور وہ امسال دنیا کی ایک بڑی یونیورسٹی آکسفورڈ یونیورسٹی میں طلباء یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ملک عزیز کے صوبہ بلوچستان کے ایک انتہائی دور افتاد ہ علاقہ قلعہ عبداللہ کے پرائمری سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کا اتنے بڑے مقام پر پہنچنا اہل علم و دانش کے لیے بڑے اسباق لیے ہوئے ہے۔المصطفٰی ٹرسٹ کے بانی جناب عبدالرزاق ساجد صاحب کی کاوشیں یقیننا قابل تحسین ہیں جنہوں نے اس ہیرے ایسے نوجوان سے ملاقات کروائی ورنہ ساری قوم تو جناب ارشد ندیم کو کندھوں پر اٹھائے پھر رہی ہے۔ارشد ندیم کا کارنامہ بھی بہت بڑا ہے لیکن اسرار احمد کاکڑ نے بھی پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کیا ہے اور مملکت خدا د کا سفیر بن کر خدمات سر انجام دے سکتا ہے۔ملک کے نظام تعلیم اور حالات سے مایوس نوجوانو مایوسی گناہ ہے۔محنت کرو۔اللہ پاک کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔محنت کا پھل ضرور ملتا ہے۔شارٹ کٹ مارنے سے پرہیز کرو اور نام نہاد موٹیویشنل مقررین سے بچ کر رہو۔یہ مایوسی اور بد دلی پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔
ایک اور مثال ایک پسماندہ علاقہ کے نوجوان کی بھی پیش خدمت ہے اس میں بھی حوصلہ افزائی کے خزانے پوشیدہ ہیں۔ ریاض احمد کا تعلق ضلع میانوالی کی تحصیل عیسٰی خیل کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ گا?ں شیخ آباد سے ہے۔ریاض احمد نے قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی تو تجوید و قرآت کے بہترین مرکز ادارہ معین الاسلام بیربل شریف تحصیل شاہ پور ضلع سرگودھا میں داخل ہو گئے۔بوقت داخلہ عصری علوم میں مڈل پاس تھے۔مڈل بھی ایسا کمال کہ نہ لکھ سکتے تھے اور نہ ہی پڑھ سکتے تھے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس وقت شادی شدہ بھی ہو چکے تھے۔ان حالات میں تعلیم کے سلسلہ کو بحال کرنا جوئے شیر لانے یعنی دودھ کی نہر کھودنے کے برابر تھا۔ادارہ کے منفرد نظام میں رہتے ہوئے انہوں نے دوسالہ تجوید و قرآت کا کورس مکمل کیا،ادیب عربی ،عالم عربی اور فاضل عربی کے امتحانات سرگودھا بورڈ سے پاس کیے۔دینی علوم ثانویہ عامہ( میٹرک) ، خاصہ(ایف اے) عالیہ(بی اے) اور عالمیہ(ایم اے) تنظیم المدارس کے زیر اہتمام مکمل کیے۔عصری علوم میٹرک اور ایف ا ے سرگودھا بورڈ سے پاس کیے۔بی اے اور ایم (عربی )سرگودھا یونیورسٹی سے مکمل کیا۔ریاض صاحب اتنے باہمت ہیں کہ ایم اے عربی میں سیکنڈ ڈویڑن آئی تو ان کی غیرت نے اس کو قبول نہ کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے امتحان دے کر فرسٹ ڈویڑن حاصل کر لی۔ریاض احمد نے تیرہ سال کی مدت میں چودہ امتحان پاس کر کے ماہرین تعلیم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔دوران تعلیم ادرہ کے مضافات میں ایک بستی ’’ سیدل بنگلہ ‘‘ کی مسجد میںدس سال امامت و خطابت کے فرائض ادا کرتے رہے۔بی ایڈ اور ایم ایڈ کے کورسزعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کرنے کے بعد اپنے آبائی ضلع میںبطور پرائمری سکول ٹیچر ملازمت کا آغاز کیا۔پھر پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ایلیمینٹری سکول ٹیچر منتخب ہوئے۔امسال عربی زبان و ادب میں سرگودھا یونیورسٹی سے ہی ایم فل کی اعلیٰ ڈگری حاص کر کے ملک عزیز کے مایوس نوجوانوں کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے۔اس باہمت نوجوان کی اگلی منزل پی ایچ ڈی کرنا ہے۔ اللہ پاک ان کو کامیابیاں نصیب فرمائے۔مفکر پاکستان حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے سچ فرمایا تھا کہ
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تویہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی
ر یاض احمد صاحب تدریس کے ساتھ ساتھ دین متین کی تبلیغ، ترویج و اشاعت میں بھر پور کردا ر اد کر رہے ہیں۔مادر علمی سے محبت اور خدمت کا جذبہ جنون کی حدیں پھلانگ چکا ہے۔ہر ویک اینڈ پر اور تعطیلات کے دوران طویل سفر کر کے ادرہ میں تشریف لاتے ہیں اور ادارہ میں تدریسی ذمہ داریاں بھر پور انداز میں ادا کرتے ہیں۔
دریائے جہلم کے کنارے آباد ضلع سرگودھا کی تحصیل شاہ پور کی ایک دور افتادہ بستی ’’بیربل شریف‘‘میں واقع دینی و عصری علوم کے ادارہ ’’معین الاسلام ‘‘کی نصف صدی پر محیط تاریخ ایسی بے شمارمحیر العقول مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ادارہ کے سات کیمپسز میں بارہ سو طلبا ء کے لیے مفت تعلیم ، مفت رہائش اور مفت طعام کی سہولت میسر ہے۔ طلباء کی عزت نفس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ،چندہ مانگنے قربانی کی کھالیں اکھٹی کرنے کے لیے در در پر نہیں بھیجا جاتا۔معیاری تعلیم کے ساتھ تربیت،شخصیت سازی اور کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ادارہ معین الاسلام کے بانی و ناظم پروفیسر صاحبزادہ محبوب حسین صاحب چونکہ بذات خود ایک ماہر تعلیم اور ماہر نصاب ہیں،انہوں نے ایک ایسا نصاب تعلیم ڈیزائین کیا ہے جس میںطالب علم کا وقت ضائع نہیں ہوتا اور وہ ملازمت کے لیے زائدالعمر ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔دینی تعلیم اور عصری علوم ایک وقت میںمکمل کروائے جاتے ہیں۔اس نصاب تعلیم کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ طالب علم فارغ التحصیل ہونے کے بعد معاشرہ کا فعال رکن بن جاتا ہے ، معاشی لحاظ سے خود کفیل ہو جاتا ہے اور ملک عزیز کی ترقی کے ساتھ دین کی خدمت کے قابل ہو جاتا ہے۔یہ نصاب تعلیم ایسے حفاظ کے لیے بہت مفید ہے جو دوران حفظ عصری علوم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ادارہ میں ان کو دو سال میںتجوید و قرآت کے ساتھ دینی کورس عامہ اور میٹرک کروایا جا تا ہے۔یوں چھ سال کی تعلیم دو سال میں دے کر طالب علم کا وقت بچایا جاتا ہے۔