پنجاب حکومت کا مثالی ریلیف پروگرام

پنجاب حکومت کی جانب سے تعلیم، موسمیاتی تبدیلی اور زراعت کے شعبے میں جامع ریلیف پیکجز کا اعلان ایک خوش آئند قدم ہے، خاص طور پر بجلی کے ان صارفین  کو دو ماہ کے لیے 14 روپے فی یونٹ ریلیف دینے کے لیے 45 ارب روپے کی فراہمی جو 200 سے 500 یونٹ بجلی استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کا ایک چینی کمپنی کے ساتھ پنجاب میں سولر پینل اور اسمبلی پلانٹس کی تیاری کا معاہدہ بجلی کے مسئلے کے مستقل حل کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔ اس  سے نہ صرف صوبے کی توانائی کی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ ضرورت سے زیادہ بجلی کی برآمد کا موقع بھی ملے گا۔ اس بات سے ہم سبھی واقف ہیں کہ زرعی شعبہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکنبد قسمتی سے مہنگی بجلی اور دیگر متعلقہ مسائل نے مطلوبہ پیداوار میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔تاہم امید کی جارہی ہے کہ سات ہزار ٹیوبوں کو آسان اقساط پر سولر سسٹم میں تبدیل کرنے کے فیصلے سے کسان اپنی فصلوں کی زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں گے۔اس کے علاوہ ہاؤسنگ سیکٹر میں شہری علاقوں میں 1-5 مرلہ اور دیہی علاقوں میں 1-10 مرلہ اراضی کے مالکان کو 15 لاکھ روپے تک کے بلاسود قرضیبھی دینے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس ضمن میں مزید کہا کہ ان کی حکومت اس سکیم کو پنجاب بھر میں پانچ سالوں میں وسعت دے گی تاکہ جن لوگوں کو مکانات کی ضرورت ہے وہ انہیں حاصل کر سکیں۔ تعلیمی شعبے  کی اگر بات کی جائے تو جدید ترین تعلیمی معیارات اور ڈیجیٹل دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیئے مالی طور پر غیر مستحکم گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء  کے لیے اسٹوڈنٹس اسکالرشپ پروگرام اور لیپ ٹاپ اسکیم بھی شروع کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری کالجوں کی طالبات کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی فراہمی کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اس سے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والی ان لڑکیوں کے لیئے تعلیم کا حصول ممکن ہوگا جو نقل و حمل کے مسائل کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ مزید برآں، نقل و حمل کی سہولت پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر سے منسلک سیکورٹی خدشات کو بھی دور کرے گی۔  موسمیاتی تبدیلی (climate change) سے نمٹنے کے لیئے پنجاب حکومت کی جانب سے نوجوانوں کے لیے ای بائیک سکیمیں بھی متعارف کرائی گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے کے مطابق "اگر 2030 تک 90 فیصد موٹر سائیکلیں الیکٹرک موٹرسائیکلوں پر منتقل ہو جائیں تو 2050 تک کاربن کے اخراج میں 11 بلین ٹن کی کمی ہو جائے گی"۔ یہ زیرو ایمیشن گاڑیاں نہ صرف فضا میں آلودگی کی سطح کو کم کریں گی بلکہ ڈیزل اور پیٹرول پر انحصار بھی کسی حد تک کم ہوگا۔مختصراً، یہ مثبت اقدامات نہ صرف عوام کو ریلیف فراہم کرتے ہیں بلکہ دوسرے صوبوں کے درمیان صحت مند مقابلے کا آغاز کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہی ایک ملک کی معیشت ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی وجہ سے مفاد عامہ کی پالیسیاں  کامیابی کی سند نہ پا سکیں۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں عوام کی خدمت کے لیے مل کر کام کریں اور مہنگاء کی ستاء عوام کے لیے آسانیاں پیداکریں۔

ای پیپر دی نیشن