دسمبر 2008ء کا تیسرا دن تھا۔ مملکت خداداد میں اس دن بھی سارے کام معمول کیمطابق ہوئے تھے۔
اس دن بھی وزیراعظم‘ صدر‘ گورنروں اور وزراء اعلیٰ کے محلات میں اخراجات لاکھوں میں تھے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اس دن بھی غریبوں کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جائیدادوں جاگیروں حویلیوں اور دساور کے اپارٹمنٹوں کے کاغذات سنبھال کر رکھے تھے اور ان میں اضافے کی خواہش کی تھی۔
ارب پتیوں نے اس دن بھی نجومیوں‘ زائچہ بنانے والوں‘ ہاتھ دیکھنے والوں اور ’’علم‘‘ الاعداد کے ’’ماہرین‘‘ سے پوچھا تھا کہ ’’مزید‘‘ کب میسر ہو گا۔ اس دن بھی انگور کی بیٹی کے سامنے رکوع کرنے والوں نے معمول کے مطابق وہ سارے فیصلے کئے تھے جو قوم کے مستقبل پر اثرانداز ہونے تھے۔ اس دن بھی شام کے وقت افسر شاہی کے ’’سوشل‘‘ ارکان کے محلات کے ارد گرد گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ کم پڑ رہی تھی اور مغل شرفا کے لباس میں ملبوس ویٹر اور بٹلر بھاگتے پھر رہے تھے۔اس دن بھی عباؤں‘ چُغوں‘ پگڑیوں اور سعودی عرب سے آئے ہوئے چار خانے والے زرد سنہری رومالوں نے دین اسلام کی خاطر سرکاری مراعات کا حصول یقینی بنایا تھا‘ سودے کئے تھے اور نیم خواندہ جذباتی پیروکاروں نے منہ کھول کر اور گلے پھاڑ کر نعرے لگائے تھے۔ اس دن بھی راتب تقسیم ہوا تھا۔
اس دن بھی مرکزی اور صوبائی دفتروں میں‘ پولیس‘ کسٹم اور انکم ٹیکس کے محکموں میں اور ترقیاتی اداروں کے ہیڈکوارٹرز میں حصص بانٹے گئے تھے اور معاملات کے پرامن حل پر اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس دن بھی فائیو سٹار ہوٹلوں‘ مغربی فاسٹ فوڈ ریستورانوں اور ضیافت کدوں میں ہزاروں ٹن انواع و اقسام کے کھانے پکائے‘ بیچے‘ خریدے اور کھائے گئے تھے اور بچا کھچا کھانا جو منوں میں تھا‘ پھینک دیا گیا تھا۔
اس دن بھی اس عجیب و غریب مملکت میں جہاں ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی کے پاس ذاتی گھر نہیں ہیں‘ کئی کئی ایکڑ پر مشتمل مکانوں کی تعمیر پر باقاعدہ کام ہوا تھا۔ درآمد شدہ ٹائلیں‘ مرمر‘ سینیٹری اور بجلی کا سامان نصب کیا گیا تھا اور کرائے کا حساب انچوں اور فٹوں کے لحاظ سے ہوا تھا۔گروتھ ریٹ (GROWTH RATE) یعنی ترقی کی شرح نمو زیادہ ثابت کرنے والے ’’ماہرین‘‘ اقتصادیات نے ائرکنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر اس دن بھی اعداد و شمار ’’ایجاد‘‘ کئے تھے‘ سمندر پار ٹیلیفون کالیں کی تھیں‘ اگلی تعیناتیوں کی یقین دہانیاں تھیلوں میں ڈالی تھیں اور قہقہے لگائے تھے۔ اربوں روپے کے قرضے معاف کرنے کا مسلسل عمل اس دن بھی جاری رہا تھا۔
دسمبر 2008ء کا تیسرا دن تھا۔ سارے کام اس دن معمول کے مطابق ہوئے تھے لیکن اس دن کچھ اور بھی ہوا تھا۔اس دن چھ سالہ تصور جھلسے ہوئے جسم میں زخموں اور رستی ہوئی پیپ کی تاب نہ لا کر دم توڑ گیا تھا۔ اسی دن فرشتوں نے اس ملک کے نام کے ارد گرد سیاہ روشنائی سے دائرہ بنایا تھا اور سیاستدانوں‘ حکمرانوں‘ افسر شاہی کے گماشتوں اور محراب و منبر کے ٹھیکیداروں کو دیکھ کر ہنسے تھے۔
چھ سالہ تصور کی موت پر اگر کوئی غور کرے (ہاں اگر کوئی اللہ کا بندہ غور کرے) تو اس پر تمام سربستہ راز ایک ثانیے میں فاش ہو جائیں گے۔ اسے معلوم ہو جائیگا کہ ڈرون کس کے حکم سے تباہی پھیلا رہے ہیں۔ بھارت کو چوکس کرنے میں کیا مصلحت ہے اور حفاظت کرنے والا حفاظت کا ذمہ کیوں نہیں لے رہا۔
چھ سالہ تصور دو روز سے بھوکا تھا۔ وہ ایک شادی والے گھر میں گیا‘ وہاں کلف لگے کپڑے پہنے بہت سے لوگ تھے۔ زیورات اور زرق برق پوشاکوں میں ملبوس بیگمات تھیں‘ وہاں بیسیوں دیگیں آگ پر رکھی تھیں اور خوراک کے انبار لگے ہوئے تھے۔ چھ سالہ تصور نے کھانے کیلئے ہاتھ پھیلائے‘ رویا‘ لیکن دو دن کے بھوکے چھ سالہ تصور کو روٹی کا ایک نوالہ کسی نے نہیں دیا۔ اسے دیگوں سے گرم گرم کھانوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس کا پیٹ کمر کیساتھ لگا ہوا تھا۔ اس نے چوری کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دیگ سے چاول نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے تصور دیگ میں گر گیا‘ اسے نکالا گیا تو اس کے ننھے جسم کا پچاسی فیصد حصہ جل چکا تھا۔ خانہ بدوش سرور کا یہ بیٹا ایک ہفتہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہ کر تین دسمبر کو خدا کے ہاں پہنچ گیا۔ سرور دیہاڑی پر کام کرنے والا مزدور تھا۔ دو روز سے اسے کام ملا تھا نہ مزدوری۔
تصور خوش قسمت تھا کہ خدا کے ہاں پہنچ گیا۔ وہ زندہ رہتا تو دیگوں کے حاتم طائی مالک مار مار کر اس کی پسلیاں ٹانگیں بازو کندھے اور چھوٹے چھوٹے ہاتھ پیر توڑ دیتے۔ تصور نے عقل مندی کا کام یہ کیا کہ زخم زخم جسم اور جھلسی ہوئی روح کے ساتھ خدا کے پاس پہنچا تو جاتے ہی اس رحمۃ اللعالمین کا پتہ پوچھا جو اس وقت رو پڑے تھے جب ایک سنگدل شخص نے اعتراف کیا تھا کہ میں نے تو بچوں کو کبھی نہیں چوما۔ وہ اللہ کے رسول کے پاس پہنچا تو بلک کر عرض گزار ہوا۔ ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘ آپ نے تو فرمایا تھا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں غریبوں کو کھانا نہ ملے۔ آپ نے تو فرمایا تھا کہ جس قریے میں ایک ذی نفس بھی بھوکا ہو اس قریے کی حفاظت سے اللہ ہاتھ اٹھا لے گا‘ اے اللہ کے رسول! آپ تو کفار کے بچوں کے قتل پر بھی آزردہ ہو گئے تھے اور میں تو مسلمانوں کا بچہ تھا۔ آخر مجھے بھوکا رکھ کر کیوں قتل کیا گیا؟
تصور کا مقدمہ جس عدالت میں پیش ہوا ہے‘ اس عدالت کا سوچ کر میں لرز رہا ہوں۔
اس دن بھی وزیراعظم‘ صدر‘ گورنروں اور وزراء اعلیٰ کے محلات میں اخراجات لاکھوں میں تھے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اس دن بھی غریبوں کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جائیدادوں جاگیروں حویلیوں اور دساور کے اپارٹمنٹوں کے کاغذات سنبھال کر رکھے تھے اور ان میں اضافے کی خواہش کی تھی۔
ارب پتیوں نے اس دن بھی نجومیوں‘ زائچہ بنانے والوں‘ ہاتھ دیکھنے والوں اور ’’علم‘‘ الاعداد کے ’’ماہرین‘‘ سے پوچھا تھا کہ ’’مزید‘‘ کب میسر ہو گا۔ اس دن بھی انگور کی بیٹی کے سامنے رکوع کرنے والوں نے معمول کے مطابق وہ سارے فیصلے کئے تھے جو قوم کے مستقبل پر اثرانداز ہونے تھے۔ اس دن بھی شام کے وقت افسر شاہی کے ’’سوشل‘‘ ارکان کے محلات کے ارد گرد گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ کم پڑ رہی تھی اور مغل شرفا کے لباس میں ملبوس ویٹر اور بٹلر بھاگتے پھر رہے تھے۔اس دن بھی عباؤں‘ چُغوں‘ پگڑیوں اور سعودی عرب سے آئے ہوئے چار خانے والے زرد سنہری رومالوں نے دین اسلام کی خاطر سرکاری مراعات کا حصول یقینی بنایا تھا‘ سودے کئے تھے اور نیم خواندہ جذباتی پیروکاروں نے منہ کھول کر اور گلے پھاڑ کر نعرے لگائے تھے۔ اس دن بھی راتب تقسیم ہوا تھا۔
اس دن بھی مرکزی اور صوبائی دفتروں میں‘ پولیس‘ کسٹم اور انکم ٹیکس کے محکموں میں اور ترقیاتی اداروں کے ہیڈکوارٹرز میں حصص بانٹے گئے تھے اور معاملات کے پرامن حل پر اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس دن بھی فائیو سٹار ہوٹلوں‘ مغربی فاسٹ فوڈ ریستورانوں اور ضیافت کدوں میں ہزاروں ٹن انواع و اقسام کے کھانے پکائے‘ بیچے‘ خریدے اور کھائے گئے تھے اور بچا کھچا کھانا جو منوں میں تھا‘ پھینک دیا گیا تھا۔
اس دن بھی اس عجیب و غریب مملکت میں جہاں ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی کے پاس ذاتی گھر نہیں ہیں‘ کئی کئی ایکڑ پر مشتمل مکانوں کی تعمیر پر باقاعدہ کام ہوا تھا۔ درآمد شدہ ٹائلیں‘ مرمر‘ سینیٹری اور بجلی کا سامان نصب کیا گیا تھا اور کرائے کا حساب انچوں اور فٹوں کے لحاظ سے ہوا تھا۔گروتھ ریٹ (GROWTH RATE) یعنی ترقی کی شرح نمو زیادہ ثابت کرنے والے ’’ماہرین‘‘ اقتصادیات نے ائرکنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر اس دن بھی اعداد و شمار ’’ایجاد‘‘ کئے تھے‘ سمندر پار ٹیلیفون کالیں کی تھیں‘ اگلی تعیناتیوں کی یقین دہانیاں تھیلوں میں ڈالی تھیں اور قہقہے لگائے تھے۔ اربوں روپے کے قرضے معاف کرنے کا مسلسل عمل اس دن بھی جاری رہا تھا۔
دسمبر 2008ء کا تیسرا دن تھا۔ سارے کام اس دن معمول کے مطابق ہوئے تھے لیکن اس دن کچھ اور بھی ہوا تھا۔اس دن چھ سالہ تصور جھلسے ہوئے جسم میں زخموں اور رستی ہوئی پیپ کی تاب نہ لا کر دم توڑ گیا تھا۔ اسی دن فرشتوں نے اس ملک کے نام کے ارد گرد سیاہ روشنائی سے دائرہ بنایا تھا اور سیاستدانوں‘ حکمرانوں‘ افسر شاہی کے گماشتوں اور محراب و منبر کے ٹھیکیداروں کو دیکھ کر ہنسے تھے۔
چھ سالہ تصور کی موت پر اگر کوئی غور کرے (ہاں اگر کوئی اللہ کا بندہ غور کرے) تو اس پر تمام سربستہ راز ایک ثانیے میں فاش ہو جائیں گے۔ اسے معلوم ہو جائیگا کہ ڈرون کس کے حکم سے تباہی پھیلا رہے ہیں۔ بھارت کو چوکس کرنے میں کیا مصلحت ہے اور حفاظت کرنے والا حفاظت کا ذمہ کیوں نہیں لے رہا۔
چھ سالہ تصور دو روز سے بھوکا تھا۔ وہ ایک شادی والے گھر میں گیا‘ وہاں کلف لگے کپڑے پہنے بہت سے لوگ تھے۔ زیورات اور زرق برق پوشاکوں میں ملبوس بیگمات تھیں‘ وہاں بیسیوں دیگیں آگ پر رکھی تھیں اور خوراک کے انبار لگے ہوئے تھے۔ چھ سالہ تصور نے کھانے کیلئے ہاتھ پھیلائے‘ رویا‘ لیکن دو دن کے بھوکے چھ سالہ تصور کو روٹی کا ایک نوالہ کسی نے نہیں دیا۔ اسے دیگوں سے گرم گرم کھانوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس کا پیٹ کمر کیساتھ لگا ہوا تھا۔ اس نے چوری کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دیگ سے چاول نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے تصور دیگ میں گر گیا‘ اسے نکالا گیا تو اس کے ننھے جسم کا پچاسی فیصد حصہ جل چکا تھا۔ خانہ بدوش سرور کا یہ بیٹا ایک ہفتہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہ کر تین دسمبر کو خدا کے ہاں پہنچ گیا۔ سرور دیہاڑی پر کام کرنے والا مزدور تھا۔ دو روز سے اسے کام ملا تھا نہ مزدوری۔
تصور خوش قسمت تھا کہ خدا کے ہاں پہنچ گیا۔ وہ زندہ رہتا تو دیگوں کے حاتم طائی مالک مار مار کر اس کی پسلیاں ٹانگیں بازو کندھے اور چھوٹے چھوٹے ہاتھ پیر توڑ دیتے۔ تصور نے عقل مندی کا کام یہ کیا کہ زخم زخم جسم اور جھلسی ہوئی روح کے ساتھ خدا کے پاس پہنچا تو جاتے ہی اس رحمۃ اللعالمین کا پتہ پوچھا جو اس وقت رو پڑے تھے جب ایک سنگدل شخص نے اعتراف کیا تھا کہ میں نے تو بچوں کو کبھی نہیں چوما۔ وہ اللہ کے رسول کے پاس پہنچا تو بلک کر عرض گزار ہوا۔ ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘ آپ نے تو فرمایا تھا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں غریبوں کو کھانا نہ ملے۔ آپ نے تو فرمایا تھا کہ جس قریے میں ایک ذی نفس بھی بھوکا ہو اس قریے کی حفاظت سے اللہ ہاتھ اٹھا لے گا‘ اے اللہ کے رسول! آپ تو کفار کے بچوں کے قتل پر بھی آزردہ ہو گئے تھے اور میں تو مسلمانوں کا بچہ تھا۔ آخر مجھے بھوکا رکھ کر کیوں قتل کیا گیا؟
تصور کا مقدمہ جس عدالت میں پیش ہوا ہے‘ اس عدالت کا سوچ کر میں لرز رہا ہوں۔