فرعون سے بڑا کافرِ حق کون ہوگا لیکن فرعون موت کی دہلیز پر بول اٹھا ’’میں نے مان لیا کہ خداوندِ حقیقی اسکے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں‘‘ (یونس: 90) حق اس لمحے سر چڑھ کر بولتا اور نوک زبان سے ادا ہو جاتا ہے باذن اللہ! سیدنا علیؓ بہ اندازِ دگر آخری لمحے حق کی گواہی دیتے ہیں۔ ابن ملجم ملعون کی تلوار موت کا وار کر گئی۔ زخم کھاتے ہی آپ نے پکارا فزت برب الکعبۃ (رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا)۔ یہی پکار وقت شہادت حضرت عامر بن فہیرہؓ کی بھی تھی۔کامیابی کی اطلاع دینے والے یہ دو نفوس قدسیہ اور سچ کے آگے سرجھکاتا فرعون، ہالبروک نے آخری بیان (جس کا ہر بیان شہ سرخی بنتا رہا) دیا۔ جب وہ رگ گردن پھٹ چکی تھی جسے اللہ نے بندے سے نزدیک ترین ہونے اور اس پر قبضۂ قدرت کا استعارہ بنایا ہے۔ ’’ہم اسکی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں‘‘ (ق: 16)۔
ہالبروک نے عالم نزع میں کہا ’’افغانستان میں اب جنگ ختم کر دینی چاہئے‘‘۔ یہ نصیحت، وصیت کسی عام فرد کی نہیں، اس کہنہ مشق یہودی لیڈر کی ہے جس نے زندگی بھر بوسنیا، عراق، افغانستان، پاکستان کے مسلمانوں پر بلڈوزر پھیرا۔ یہی اسکا لقب تھا (بلڈوزر)۔ انتشار، تفریق، تقسیم کے ذریعے اس نے مسلمانوں کو ہر جگہ زیر کیا۔ یہی کھیل اب پاکستان قدم رکھ چکا تاہم اسکی وصیت اسکے محبان کیلئے بہترین نصیحت ہے۔ ہم مسلمان غلامی کے ہاتھوں فکر و تدبر، غور و تعقل کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ اسکی نصیحت کو ہی رہنما بنا کر ہم ’’فرنٹ لائن اتحادی‘‘ ذرا اس جنگ پر نظرثانی فرما لیں! تاریخ کے صفحات پلٹ کر مسلمانوں کا کفر کے ساتھ اتحاد اور اس کے نتائج ملاحظہ فرما لیں۔بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ جنگ عظیم اول میں عربوں نے اتحادیوں کا اتحادی بننا قبول کیا۔ شریف حسین کو خلافت سونپنے کاوعدہ کیا۔ اتحادیوں نے امت کا شیرازہ بکھیر کر چپہ بھر اردن کا ٹکڑا حوالے کیا۔ عربوں کو اتحاد کا نقد انعام ’’اعلان بالفور‘‘ کی صورت دیا اور قیام اسرائیل کی راہ ہموار کر دی۔ دوسری جنگ عظیم میں ہندوستان سے برطانوی فوج کیلئے بھرتی کھل گئی۔ علمائے سو نے جرمنی کیخلاف برطانیہ کے شانہ بشانہ (فرنٹ لائن اتحادی) لڑنا جہاد فی سبیل اللہ قرار دیدیا۔ شمالی افریقہ کے مسلمان ممالک فرانس کے ہمراہ جہاد فی سبیل اللہ کے نام پر بھرتی ہوئے۔
مصر میں برطانیہ جرمنی کے مابین جنگ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ قرار پائی۔ گذشتہ کل میں اس ’’جہاد‘‘ کا ثمر اسرائیل کے قیام کی صورت نکلا تھا آج مشرق وسطیٰ کے مسلمان اور پاکستان کے مسلمان امریکہ و نیٹو کے ہمراہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ فرما کر گریٹر اسرائیل کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ہالبروک سچ کہہ گیا۔ اب وہ فرشتوں کو ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس تو کرنے سے رہا۔ عقل مند کو اشارہ کافی ہے۔ کہاں وہ مسلمان کہ … ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے… نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر، اور کہاں اب کھلے بندوں اسرائیل کی پاسبانی۔ مسیح الدجال کیلئے برپا کی گئی اس جنگ کا واضح ایجنڈہ جس میں تحریف شدہ تورات میں گریٹر اسرائیل کی ارض موعود کا حدود اربعہ دیکھئے۔ ’’یہ ملک دریائے مصر (نیل) سے لیکر اس بڑے دریا یعنی دریائے فرات تک میں نے تیری اولاد کو دیا ہے‘‘ (کتاب پیدائش: باب 15: آیت 18)
نیز امریکہ یورپ کی اسرائیل کی غیر مشروط مکمل پشت پناہی، عسکری، معاشی فراخدلانہ امداد سیاسی نہیں گہری مذہبی بنیادوں پر استوار ہے۔ بقول جمی کارٹر سابق صدر امریکہ ’’اسرائیل کیساتھ ہمارے تعلقات کی جڑیں ہمارے دلوں، اخلاقیات اور عوام کے عقیدے میں ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’سات امریکی سابقہ سربراہان معرکۂ ہرمجدون (ہمارے ہاں ملحمۃ الکبریٰ بحوالۂ حدیث) پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ عرب یہود تنازعہ کی نوعیت وہی ہے جو دائودؑ اور جالوت کے مابین تھی (گویا نعوذ باللہ یہودی دائود علیہ السلام اور جالوت سے مراد عرب ہیں) ان کے ہاں درج بالا حوالوں سے نیل تا فرات نیز سعودی عرب تا وسعت پذیر گریٹر اسرائیل کے حصول کیلئے یہ جنگ جاری ہے۔
رچرڈ نکسن واشگاف ’’امور مملکت مسیح علیہ السلام (یعنی مسیح الدجال) سنبھال لیں گے‘‘۔ ’’امریکیوں کی ذمہ داری ان انتظامات کے مہیا کرنے کی حد تک ہے‘‘ (Victory Without War: 1999) پیشین گوئی اپنی مذکورہ کتاب میں فرماتا ہے جبکہ ہم مسلمان قرآن و حدیث بند کئے، سیکولر بننے کے شوق میں بے خدا دانشوری بگھارتے اپنے مسلمان بھائیوں کیخلاف کفر کے اتحادی بنے بیٹھے ہیں! عیسائی علماء جیری فال ویل، پیٹ روبرٹسن، مائیک ایونس، جارج اوٹس اپنے سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے میں شریک مشورہ، شریک کار ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کے نزول ثانی کے امیدوار مسلمان آپس کے سرپھٹول اور جماعتی گروہ بندی، تقسیم در تقسیم ہوئے سارا زور ان احادیث کی رد پر صرف کر رہے ہیں کیونکہ فی الوقت جنگ عظیم اول دوئم کی طرح ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ مع کفار درپیش ہے! انکے ہاں اوباما پر دانت پیسے جا رہے ہیں کہ وہ نجیب الطرفین کٹڑ عیسائی نہیں ہے ادھر ہمیں کٹڑ بے دین، ملحد حکمران درکار ہے! جو علماء فتنۂ دجال کی نشاندہی کر رہے ہیں انہیں بے توقیر کرنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے کہ امت سوئی ہے۔ پاکستان یونہی اپنے ہاتھوں خود کو فتح کرتا رہا۔ ڈرون حملے، خود کو لہولہان کرنے والی ماتم زنی، زنجیر زنی ہی تو ہے۔ وزیرستان خون میں نہلا دیا، اپنے بچوں کے ہاتھ پائوں توڑ ڈالے، یتیموں بیوائوں کی ایک نسل تیار کر دی۔
اب باری ہے خیبر ایجنسی کی! تف ہے اس بے غیرتی، بزدلی پر۔ نیز امریکی فوج کا فخریہ فرمان کہ ’’ہم پاکستان میں موجود ہیں اور بوقت ضرورت کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں‘‘ کیا یہ ایک آزاد ملک ہے یا امریکی کالونی؟ افغانستان سے جوتے کھا کر دوڑا اور آپ نے پلکوں پر بٹھایا؟ علقمی، میر جعفر صادق کو شرما دینے والی سیاسی قیادت! پوری قوم کے خون پسینے کی کمائی دفاعی بجٹ کی نذر کر کے یہ حاصل حصول اور مقدر ہے اسکے غریب بے نوا عوام کا؟ 16 دسمبر آیا اور گزر گیا۔ پوری قبائلی پٹی سے ایک اور 16 دسمبر پھوٹنے کو ہے۔ آپریشنوں کا ثمر سقوط ڈھاکہ تھا۔ نجانے ہم کب ہوش سنبھالیں گے؟ فوج ایک مرتبہ پھر پاکستان فتح کرنے پر لگا دی گئی ہے۔ شمالی وزیرستان، کرتے کرتے ہالبروک کی شہہ رگ پھٹ گئی۔ باقی ماندہ وہی راگ الاپ رہے ہیں اور ہم روزانہ بیان دیکر عوام کو ذہناً تیار کر رہے ہیں۔ قوم کا دھیان بٹانے کو ثقافتی جھمیلے بہت ہیں۔ ادھر دنیائے کفر کے ڈیڑھ دو ہزار ٹیلی ویژن مذہبی نشریات میں عوام کو اپنے مسیح کی آمد کیلئے تیار کر رہے ہیں۔ یہاں علمائے حق پوری امت کے پس زنداں ہیں یا شہید کئے جا رہے ہیں۔ جو باہر ہیں وہ عوام کو تھپک تھپک کر سلانے یا نان ایشوز میں الجھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں کہ کہیں ایمان نہ جاگ اٹھے! یاد رہے کہ دجال کے ظہور کا دور وہی ہوگا جب منبر و محراب پر اس کا تذکرہ نہیں ہوگا۔ ایمان، اسلام،پاکستان سب ہی کو بچانے کا اولین تقاضا یہ ہے کہ اس دجالی جنگ سے فوراً نکل کر اپنی صفیں درست کر لیں۔ خالص قرآن و سنت پر یکجائی کا سامان ہو۔ چند ٹکوں کے عوض اپنا آپ لہولہان کرنے کے اس کھیل کو خیرباد کہہ دیں۔ امریکہ ہالبروک کے کہے پر کان دھر نہیں سکتا۔ اس کے ایمان (باطل) کا یہ تقاضا ہے کہ وہ تمام مسلمان ممالک کو تاخت و تاراج کرے۔ پاکستان کو اس کی فوجی، ایٹمی قوت سے محروم کرنا اسرائیلی ایجنڈا ہے جس نے اسکے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ کیا ہم اسکی کامیابی (خاکم بدہن) تک تعاون و اتحاد جاری رکھیں گے؟