غلط سینٹ انتخابی عمل کے فوری خاتمے کا مطالبہ

 الحمد للہ یہ بڑی اطمینان کی بات ہے کہ ماشا ءاللہ چیف الیکشن کمشنر محترم ومکرم فخرو بھائی جیسے تجربہ کار قانون دان اب انتخابی قوانین اور عمل کے ذمہ دار ہیں۔ مگر ماضی میں چیف الیکشن کمشنر ایک چیف جسٹس آف سپریم کورٹ بھی رہ چکے ہیں ہمارا ان کے حوالے سے ذاتی تلخ ترین تجربہ ہے کہ کس طرح اس منصب پر فائز شخصیت حکمران خود یا جماعت کیلئے ”مخصوص“ اور ”پراسرار“ حالات پیدا کرکے سینٹ الیکشن کراتے رہے ہیں پہلے ہمارا ذاتی تلخ تجربہ غور کیلئے حاضر خدمت ہے۔جنوری 11/9 کے منفی اثرات پر غور و فکرکے حوالے سے انعقاد پذیر ہونیوالے اپنے اور اس وقت کے کراﺅن پر نس عبداللہ بن عبدالعزیز ان اہل علم،اہل دانش اور اہل قلم کے میزبان تھے اور سعودی حکومت سرکاری سطح پر مدعو ین کو دعوت نامے بھی جاری کرچکی تھی تو یہ بھی اس میں مدعو تھے ہماری خواہش تھی کہ ہم سینٹ کے انتخابی عمل میں شریک ہونگے مگر اچانک سینٹ الیکشن عمل کا شیڈول جاری کردیا گیا جس کے مطابق امیدوار کو حتمی طورپر خود کاغذات جمع کرانا تھے اور تصدیق کنندگان ارکان اسمبلی کو بھی ساتھ لانا تھا ۔یہ سب کچھ صرف شریف برادران جو جدہ میں مقید اور محترمہ بینظیر بھٹو جو بیرون ملک تھی کے نامزد کردہ افراد کا راستہ روکنے کی صدر جنرل مشرف کو خوش کرتی حکمت عملی تھی لہٰذا فوراً ہم چیف الیکشن کمشنر سے ان کے دفتر میں ملنے چلے گئے مگر وہ وزیر خارجہ خورشید محمود کے طویل انتظار میں تھے ان کے آفس کی انتظار گاہ میں ہمارے ساتھ خانیوال سے ایک رکن قومی اسمبلی بھی موجود تھے جو چیف الیکشن کمشنر سے ملنے کے متمنی تھے۔ جب ایک گھنٹہ تک وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نہ آئے تو ممبر قومی اسمبلی جو بعد ازاں وزیر مملکت قانون و پارلیمانی امور بنائے گئے کو ملاقات کے شرف سے نوازا گیا اور ہمیں دو گھنٹے بیٹھا کر بھی ملاقات سے پہلو تہی کرلی گئی جب چیف الیکشن کمشنر جو بد قسمتی سے سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ تھے اپنے دفتر سے نکل جانے کیلئے باہر آگئے تو ہم نے ان سے کھڑے کھڑے اپنا مسئلہ بیان کیا اور سارے درپیش معاملات بتائے مگر کھڑے کھڑے انہوں نے شائد تین چار منٹ میں بات سنی ۔ہمارا تقاضا صرف یہ تھا کہ کاغذات جمع کرانے کی تاریخ میں ابھی کافی دن موجود ہیں اور جب کاغذات جمع ہونگے تو ہم دو عشروں کیلئے سعودی عرب میں ہونگے لہٰذا چیف الیکشن کمشنر ہمارے کاغذات فوری طورپر ہم سے وصول فرمالیں یا ہم اپنے بیٹے کو اپنا نمائندہ مقرر کردیتے ہیں وہ بعد میں کاغذات جمع کرادیں گے ۔
 اب بلوچستان اور پنجاب سے دو اراکین سینٹ کی وفات سے سیٹیں خالی شدہ ہیں مگر ہمیں لگتا ہے کہ ”مخصوص فرد“ کی جماعت یا ”مخصوص سیاسی جماعتوں“ کو خوش کرنے اور صرف انہی کے نامزد افراد کو سینٹ میں آجانے کی ”سہولت“ فراہم کرنے کیلئے پُراسرار اور مخصوص قسم کا طریقہ کار اپنایاجائیگا تاکہ کوئی تیسرا فرد جسے اراکین اسمبلی کی خاموش حمایت حاصل ہوسکتی ہو وہ کاغذات جمع کرانے کے عمل میں شریک ہی نہ ہوسکے۔ ہمارا یہ خدشہ اور اندیشہ اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک فخرو بھائی ذاتی مداخلت کرکے”مخصوص“ اور ”پراسرار“ انتخابی عمل کی جگہ کاغذات جمع کرانے کیلئے نیا فطری اور مناسب وقت کا فوری طورپر نیا حکم جاری نہیں فرماتے۔
 براہ کرم ہماری استدعا پر فوراً غور کیاجائے اور ان خالی شدہ سینٹ سیٹوں پرانتخابی عمل کو فطری ،جائز اور با سہولت و باوقار بنایاجائے بلکہ مناسب مدت کاغذات جمع کرانے کیلئے فراہم کی جائے گو ایک یا دو دن بھی مقرر کرنے ہیں تو اس کا اعلان اور انداز ایسا تو اپنایاجائے کہ امیدوار بننے کے خواہش مند مطلوبہ عمل میں آسانی سے حصہ لینے کے قانونی و آئینی ضروری تقاضے تو پورے کرنے کی سہولت سے فیضاب ہوسکیں کچھ نئے امید وار بھی تو ہوسکتے ہیں بلکہ اخلاقی مقام محمود پر فائز اچھے افراد کو لازماً اب سامنے آنا ہوگا توقع ہے کہ جناب فخرو بھائی فوری ذاتی توجہ فرمائیں گے اور صرف مخصوص فرد کی پارٹی یا مخصوص سیاسی پارٹیوں کیلئے مہیا شدہ فضا کو فوراً تبدیل کرکے خود شناس، عزت نفس رکھنے والے اور سچ مچ کے مخلص و مدبرافراد کو بھی سینٹ میں آسانی سے آنے کا انتخابی اور قانونی جائزراستہ فراہم کریں گے ورنہ جعلی ڈگری والوں کی طرح صرف خوشامدی افراد اگر سینٹ میں آتے رہیں گے تو قوم کو اور جمہوریت کو ان سے کیا فائدہ ہوگا؟ ہاں اس سے صرف خوشامدی اور کرپشن میں ہی اضافہ ہوگا ویسے کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ سیاسی پارٹیاں از خود ایسے افراد کو سٹیٹ میں لائیں جو ان کیلئے اخلاقی مقام محمود کی علامت بن سکتے ہوں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...