صرف کراچی ہی نہیں پورے ملک میں ”انتخابی ہلچل“ عروج پر ہے لیکن افراتفری اور قتل و غارت میں کراچی سرفہرست ہے!
نہ جانے کراچی کو دشمن کی نظرِ بد نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے یا معاملہ اس شعر کا سا ہے
بنا گلاب تو کانٹے چُبا گیا اک شخص
ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص
مصلحتوں کے گرداب میں پھنسی کراچی کی سیاست کے سائے پورے ملک پر ہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ کراچی کی سیاست بھی کالا باغ ڈیم سیاست کی طرح ہے‘ جو ہے تو بند گلی لیکن کچھ کیلئے کھلا راستہ۔ لیکن چشم فلک گواہ ہے کہ قیادت وہی قرار پاتی ہے جس میں بند گلیاں کھولنے کا دم خم ہو اور اگر بھٹکے بھی تو نیا راستہ بنا جائے۔ اگر کوئی عوام اور اپنے ملک کیلئے راستے ہموار کرنے کی اہلیت اور قابلیت نہیں رکھتا‘ تو پھر وہ لیڈر کیا ہے؟ قیادت کے نمونے ہماری تاریخ سے روزِ روشن کی طرح نمایاں ملتے ہیں۔ محمد علی جناحؒ کسی ”سیاسی کلاکاری“ کسی خانقاہ‘ کسی مذہبی رحجان یا کسی جاگیردارانہ سیٹ اپ سے نہیں طرزِ عمل اور بصیرت سے قائداعظم بنے تھے۔ اقبال کو کسی میڈیا‘ کسی پراپیگنڈے یا برادری اور لسانی فلسفے نے مصور پاکستان اور شاعرِ مشرق نہیں بنایا تھا بلکہ اقبالیات نے ان کا اقبال بلند کیا تھا.... لیکن .... ع
نہ سلیقہ تجھ میں کلیم کا‘ نہ قرینہ مجھ میں خلیل کا
پچھلے دنوں جماعت اسلامی نے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک نشست کا اہتمام کیا‘ جس میں فہم و فراست سے مالامال احباب اور سیاست کی ”سیاہ ست“ کو سمجھنے والے چند اہم تجزیہ کار جلوہ افروز ہوئے۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اس بزم کے روحِ رواں تھے تاہم اس محفل کو سجانے والوں میں نائب امیر جماعت اسلامی پنجاب امیر العظیم اور فاروق چوہان پیش پیش تھے۔ اس پروگرام میں جو گفتگو پیش کی گئی اس کا تعلق کراچی کی سیاسیات سے تھا اور کراچی کے امیر محمد حسین محنتی اور کچھ مقامی رہنماﺅں نے بھی اظہار خیال کیا۔ اس نشست میں سہ جہتی معاملہ نظر آیا:
(1) کراچی کی حلقہ بندی اور ٹھپہ کلچر کا تذکرہ تھا (2) کراچی کی بدانتظامی ”بدکلامی“ اور لڑائی مارکٹائی پر اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ سیاسی منظرکشی تھی۔ (3) جماعت اسلامی کی قیادت بالخصوص لیاقت بلوچ اور امیر العظیم دانشوروں اور قلم کار قبیلے کے تاثرات کو غیر محسوس انداز میں جذب کرنا چاہتے تھے کہ‘ جماعت اسلامی نے اتحاد کے دریچے مسلم لیگ ن سے کھولے یا تحریک انصاف سے۔ آٹے میں نمک کے برابر ایم ایم اے میں کردار ادا کرنے کی چھیڑخانی بھی زیرِ بحث رہی۔ اس نشست میں بھی 3 مرحلے یا ذیلی نشستیں تھیں: قبل از طعام‘ دوران طعام اور بعد از طعام تینوں مرحلوں کا رنگ سیاسی لیکن ہر مرحلے کی کسوٹی مختلف تھی۔
پریشان چیزوں کی ہستی کو تنہا نہ سمجھو
یہاں سنگ ریزہ بھی اپنی جگہ اک جہاں ہے
جماعت اسلامی کا پاکستان میں ہمیشہ ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس جماعت کی سیاسی تاریخ مختصر ہے نہ فلاحی و رفاہی تاریخ مختصر۔ لیکن سیاسی منظرنامہ دیکھنے پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی نے دو ضلعی انتخابات میں ناظموں کے الیکشن میں جس سیاسی بصیرت اور لچک کا مظاہرہ کیا تھا وہ 1993ءمیں اسلامک فرنٹ کے الیکشن میں دکھا جاتے‘ تو آج حالات بہت مختلف ہوتے۔ جماعت اسلامی کے امراءکی کارکردگی وہ میاں طفیل محمد ہوں یا قاضی حسین احمد اور سید منور حسن ہمیشہ ہی کامیاب و کامران رہی اور ان کی تحریکوں کے علاوہ ان کے رفاہی و فلاحی پروگرام بھی ہمیشہ جاندار اور شاندار رہے ہیں لیکن حلقہ کی سطح پر ان کی سیاست ہمیشہ صفر رہی ہے۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کے گرد و نواح میں وہ اثرات کبھی دیکھنے کو نہیں ملے جو مطلوب ہیں۔ جماعت اسلامی نے اسلامک فرنٹ سیاست سے یہ ضرور سبق سیکھا ہے کہ ”پاپولر سیاست“ بڑے جلسے اور شعلہ بیانی پر مشتمل تقریریں محفلیں اور رنگ تو جما سکتی ہیں لیکن حلقہ سیاست میں ووٹوں کے حصول کیلئے ہوم ورک کچھ اور ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ہم اس سے قبل ایک سیاسی تجزیہ میں تذکرہ کر چکے ہیں کہ ہوم ورک سیاست سے اگر کوئی جماعت اسلامی میں آشنا ہے‘ تو وہ میاں مقصود احمد (لاہور)‘ میاں محمد اسلم (اسلام آباد)‘ عبدالحق بلوچ مرحوم (بلوچستان)‘ اسداللہ بھٹو (سندھ)‘ ڈاکٹر معراج صدیقی (سندھ) اور ظہور وٹو (لاہور) ہیں۔ یاد رہے کہ اب سیاست سیاسی افسانوں سے نہیں پریکٹیکل سیاست ہی سے ممکن ہے۔
ن لیگ اور پی پی پی اگر کامران و کامیاب ہیں تو انہوں نے جائز و ناجائز طریقوں سے اپنے ووٹرز کو فائدہ پہنچانے کی کوشش محض تقریروں اور تحریروں میں نہیں کی بلکہ گھر گھر دستک دے کر فائدہ پہنچایا ہے۔ لاہور‘ گوجرانوالہ‘ فیصل آباد‘ سیالکوٹ‘ شیخوپورہ اور راولپنڈی کے شہروں میں اگر ن لیگ ن لیگ ہوتی ہے‘ تو وہاں مقامی قیادت دروازے کھٹکھٹا کر کارکنان کے کام کرتی ہے۔ ایسا ہی سیاسی نقشہ پی پی پی کا بھی سندھ اور مختلف شہروں میں ہے۔ ذاتی ڈیرے رکھنا‘ کارکنان کو جیب خاص سے نوازنا‘ آدھی رات کو اٹھ کر ہسپتالوں اور تھانوں میں جانا پڑتا ہے۔ جماعت اسلامی‘ منصورہ حلقہ کا عالم یہ ہے کہ وہاں پر کچھ لوگ جماعت اسلامی کے ملازم بھی ہیں اور لیڈربھی۔ کیا یہ بات سمجھنی مشکل ہے کہ لیڈر اور ملازم میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ لیکن کراچی میں جماعت اسلامی لاہور سے بہت مختلف ہے۔ وہاں اخلاص اور محنت زیادہ ہے۔ وہاں سادگی اور جانبازی ”ویسٹ کوٹ اور کَلف“ کلچر پر غالب ہے۔ بلاشبہ اور بلامبالغہ کراچی کی جماعت اسلامی آج بھی کراچی میں سب سے زیادہ منظم اور محترم ہے‘ سیاسی اعتبار سے کراچی میں جماعت اسلامی ایم کیو ایم کا مقابلہ کرنے والی واحد جماعت ہے۔ پی پی پی اور ن لیگ بعد میں آتی ہیں۔
ویسے تو جماعت اسلامی ضرورت سے زیادہ سیانوں کی جماعت ہے لیکن پھر بھی ان کیلئے سیاسی مشورہ ہے کہ وہ کراچی میں ن لیگ‘ پی پی اور اے این پی سے فوری اتحاد کرے۔ کراچی کی سطح پر‘ وہ ضلعی ناظم نعمت اللہ والی تاریخ دہرا دے۔
جماعت اسلامی اچانک ”گولڈن آرم“ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے‘ کراچی میں بھی اور کراچی کے باہر بھی۔ چشمِ بینا سے کام لیا جائے تو تیرگی میں بھی سب واضح دکھائی دیتا ہے۔ لاہور سے خیبر پختون خواہ تک اور کراچی سے بلوچستان تک جماعت اسلامی کا اتحاد ن لیگ ہی سے م¶ثر اور معتبر رہے گا۔ ہاں‘ تحریک انصاف کی بالغ نظری تک پہنچ میں ابھی وقت لگے گا.... وقت!!! جہاں تک کراچی کا معاملہ ہے وہاں جماعت اسلامی کو لکڑ ہضم پتھر ہضم پالیسی سے کام لینا ہو گا.... کراچی میں ایک ”کراچی سیور اتحاد“ کی ضرورت‘ اس وقت کراچی سیور اتحاد ملک و ملت کا حق ہے اور جماعت اسلامی و پی پی پی و ن لیگ کا فرض ہے.... فرض!!!