ستمبر 1947ءمیں سرکاری ملازمین کو آزادی کو آزادی کی پہلی تنخواہ دینی تھی۔ لیکن خزانہ تو کلکتہ میںتھا۔ اور مشرقی بنگال کی تجوریاں ہندو اور انگریز مل کر خالی کر گئے تھے۔ ڈھاکہ اور کراچی میں کوئی رابطہ نہ تھا اس لئے جناب این ایم خان صاحب نے مجھے حکومت مشرقی پاکستان کا تار دیا جسے ملٹری وائرلیس پر GHQکے ذریعے کراچی پہنچایا گیا۔ تار میں سینٹرل گورنمنٹ سے تین کروڑ روپے تنخواہ اور ضروری اخراجات کے لئے فوری طور پر منگوائے گئے۔ غذا کے سلسلے میں مشرقی بنگال روز اوّل سے ہی کشکول ہاتھ میں لئے ہوئے مشرقی پاکستان بنا۔ اس شدید غذائی قلت میں بھی یہ اس کا بدنام چھوٹا بھائی پنجاب ہی تھا۔جس نے اپنے بڑے بھائی مشرقی بنگال کی مدد کو اولیت دی۔ خوش قسمتی سے اس سلسلے میں جو تار حکومت مشرقی بنگال نے پنجاب گورنمنٹ کو بھیجا جناب وہ این ایم خان کے اپنے دستخطوں سمیت راقم کے پاس محفوظ ہے۔
آزادی سے قبل اور فوراً بعد ڈھاکہ اردو بولنے والا شہر تھا۔ ڈھاکہ ریڈیو پر زیادہ تر پروگرام اردو میں نشر ہوتے ۔ شہر میں اردو مشاعرے، اردو غزلوں کی محفلیں برپا ہوتیں ۔ ان میں سے بعض کی صدارت خواجہ ناظم الدین کرتے۔ پروفیسر عندلیب شادانی اپنا کلام سناتے اور لیلیٰ ارجمند بانو، اردو فارسی کلام میں اپنی آواز کا جادو جگاتیں۔ اس کے ساتھ ہی ڈھاکہ ایک خالصتاً اسلامی شہر تھا۔ مسجد یں تعداد میں استنبول کے برابر اور ان مسجدوں میں ہر نمازتین چار بار با جماعت ادا ہوتی ۔ ہمیں شہر کے وسط میں ایک لائن دکھائی گئی۔ جو ہندو ڈھاکہ اور مسلم ڈھاکہ کو جدا کرتی تھی یہ بھی بتایا گیا کہ آزادی سے قبل ڈھاکہ میں مسلسل ہندو مسلم جنگ جاری رہتی تھی اس لئے اس حد فاصل کی ضرورت محسوس ہوئی۔قیام پاکستان کے بعد وہاں کوئی ہندو مسلم فساد نہیں ہوا۔ بظاہر تو یہ پر امن فضا تھی لیکن حقیقت میں نفرت کا رخ غیر بنگالی مسلمانوں کی طرف موڑا جا رہا تھا اور اندر ہی اندر یہ پروپیگینڈہ ہو رہا تھا کہ پنجابی بنگالیوں کو کھا جائیں گے۔ اس بارے میں سب سے پہلا تلخ تجربہ یو ں ہوا کہ تقسیم کے فوراً بعد کلکتہ حکومت نے سول سپلائی محکمہ کے تمام مسلمان گارڈ نکال کر ڈھاکہ بھیج دئیے ۔ بنگال کے وزیر اعظم سہروردی حکومت نے انہیں پنجاب کے سابق فوجیوںمیں سے بھرتی کیا تھا۔ اسی لئے کلکتہ میں انہیں سہروردی فورس کا نام دیا گیا۔ انہوں نے کلکتہ کے مشہور عظیم قتل عام میں بنگالی مسلمانوں کی حفاظت میں گرا نقدر خدمات سرانجام دی تھیں۔ ڈھاکہ پہنچنے پر مشرقی پاکستان حکومت نے نوکری میں رکھنا تو درکنار ان کو شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ چنانچہ آرمی ہیڈکوارٹر نے محض انسانی بنیاد پر ان کو تیج گاﺅں کیمپ میں ٹھہرایا اور جب تک مغربی پاکستان بھیجنے کا انتظام نہ ہوا ان کے کھانے پینے کا بندوبست کیا۔ انہی دنوں ہم نے سنا کہ اکاﺅنٹنٹ جنرل جناب سعید حسن کو غیر بنگالی ہونے کی وجہ سے بنگالی کلرکوں نے سیکرٹریٹ میں زدوکوب کیا (مشہور یہ ہوا تھا کہ ان کو جو تے مارے گئے) یہ صاحب بعد میں ایوبی دور میں منصوبہ بندی کمیشن کے نائب چئیرمین اور چیف الیکشن کمیشن کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہو سکتا ہے کہ یہ خبر ذرا مبالغے سے مشہور کر دی گئی ہو لیکن ان سے ناشائستہ سلوک ضرور کیا گیا کیونکہ اس حادثے سے شدید متاثر ہو کر ان کے ڈپٹی راجہ سرفراز از خود ڈیوٹی چھوڑ کر اپنے گھر راولپنڈی آکر بیٹھ گئے تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان جانے سے انکار کر دیا۔ بالآخر سال دو سال بیکار بیٹھنے کے بعد ان کو پنجاب کا ڈپٹی اکاﺅنٹنٹ جنرل متعین کیا گیا۔ اس وقت ڈھاکہ کے سیکرٹریٹ میں شاید صرف ایک بنگالی افسر مسٹر کبیر پولیس کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ڈھاکہ کے ڈپٹی کمشنر رحمت اللہ اور ایس پی عبداللہ دونوں ہی بہاری تھے۔ اسی طرح باقی اضلاع میں بھی اعلیٰ افسروں کی غالب اکثریت غیر بنگالی تھی۔ اگست 1947ءمیں سروسز کے اعلیٰ کیڈر میں بنگالیوں کی کمی کے لئے پنجاب یا پاکستان کی مرکزی حکومت کو موردالزام ٹھہرانا قرین انصاف تو نہیں اور نہ ہی یہ بات غیر بنگالی افسروں کے ساتھ زیادتی کا جواز مہیا کر تی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی مشرقی پاکستان میں ماسوائے بہاریوں کے تمام غیر بنگالیوں کو پنجابی کہا جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مشرقی پاکستان میں ہندو بالواسطہ حکومت کر رہے تھے۔ اور غیر بنگالی مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر پھیلا رہے تھے۔ مثال کے طور پرراقم اپنے ایک بہاری دوست کے عزیز کو ڈھاکہ میڈیکل کالج میں داخلہ دلانا چاہتا تھا۔ یہ صاحب جناب حافظ شرف الدین متولی چھوٹی درگاہ بہار شریف کے بھتیجے تھے اورعلی گڑھ کے طالب علم تھے۔ کالج کے رجسڑار سابق کپتان بنگالی مسلمان نے ان کو غیر بنگالی ہونے کی وجہ سے داخلہ دینے سے انکار کر دیا حالانکہ ان کے پاس کئی سیٹیں بنگالی ہندوﺅں کے لئے خالی تھیں کیونکہ بنگالی ہندو داخلہ نہیں لے رہے تھے بالآخر بڑی مشکل سے ایک پنجابی کرنل ایف۔ ایم خان ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کی وساطت سے ان بہاری مہاجر کو داخلہ دلوایا گیا اور پھر سقوط ڈھاکہ تک یہ ڈاکٹر فہیم الدین صاحب بنگالی بھایﺅں کی خدمت کرتے رہے۔
انہی دنوں ایک بنگالی ہندو میجر باسوڈھاکہ میں گیریژن انجینئر تھے۔ تقسیم کے اُصول سے ان کی بھارت جانا تھا اور ان کے کلکتہ جانے کے احکام بھی موصول ہو چکے تھے لیکن پاکستان آرمی ہیڈ کوارٹرز کے لئے نئی تعمیرات کے ٹھیکے دینے تھے اس لئے ہندو ٹھیکیداروں نے انگریزوں سے مل ملا کر انہیں تین ماہ کے لئے روک لیا اور نئے ٹھیکے دینے کے لئے ان کے اختیارات میں خصوصی اضافہ بھی کروا لیا۔ چنانچہ انہوں نے تمام ٹھیکے مخصوص افراد کو دئیے اور بھاری بھر کم کمیشن سمیٹ کر اطمینان سے کلکتہ تشریف لے گئے۔ اسی طرح چٹاگانگ میں پہاڑ تلی کے مقام پر میلوں میں پھیلا ہوا ملٹری کیمپ تھا جس میں بھا شاہٹس (Bhasha Huts)بانسوں کے مکانوں کا ایک شہر بنا ہوا تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد اس کیمپ کو ناقص قرار دے کر اس کا ملبہ فروخت کر دیا گیا اور جیسے ہی ٹھیکیدار ملبہ اٹھا چکے بعینہ اسی مقام پر حکومت پاکستان کے ملازمین اور خصوصاً ایسٹ پاکستان ریلوے کے اسٹاف کے لئے وہی بھاشا مکانات لاکھوں روپے کا ٹھیکہ دے کر دوبارہ بنوائے گئے۔ یہ سب بھی بنگالی ہندوﺅں کا کارنامہ تھا۔
چٹاگانگ میں ایک ٹیریٹوریل آرمی یونٹ ایک انگریز افسر کی زیر کمان تھی۔ آزادی کے نتیجے میں اس قسم کی تمام ٹیریٹوریل یونٹیں توڑ دی گئی تھیں۔ انگریز افسروں نے کلکتہ کے ہندو ﺅں سے ساز باز کر کے یونٹ کا سارا اسلحہ گو لہ بارود اور سازو سامان کلکتہ بھیجنے کا پروگرام بنایا مجھے پتہ چلا تو میں نے اپنے انگریز G.O.Cکو سامان روکنے کے لئے کہا۔ اس نے انکار کر دیا تو میں نے رات کو بحیثیت ڈیوٹی افسر بذریعہ تار چٹاگانگ احکامات بھیج دئیے کہ یہ سارا سامان ڈھاکہ بھیج دیا جائے ۔ صبح میرا تا ر دیکھنے پر مجھ سے تو باز پرس نہ کی گئی مگر ایک نئے پیغام کے ذریعے پھر سے سامان کلکتہ بھیجنے کا حکم دیا گیا۔ اتفاق سے مجھے دوسرے ہی روز چٹاگانگ جانا پڑا ۔ وہاں دیکھا کہ سارا سامان ایک اسپیشل ٹرین میں لوڈ روانگی کیلئے تیار ہے۔ سب سے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ ایسٹ پاکستان ریلوے کے مینجرجناب سہروردی سے ریلوے حکام کے نام حکم نامہ جاری کر وایا کہ کسی قسم کا ملٹری سامان بھارت کے لئے بک نہ کیا جائے ۔ اس کے بعد ڈپٹی کمشنر جناب فضل احمد کریم فضلی سے سارا ماجر ا بیان کیا۔ فضلی صاحب بلا کے جو شیلے مسلمان تھے فوراً ایک تار ڈھاکہ GOCکو بھیجا کہ فوجی سامان کلکتہ بھیجنے کے لئے دیکھ کر مسلمان مشتعل ہو گئے ہیں اور کوئی سانحہ رونما ہوا تو یہ فوجی ہائی کمان کی ذمہ داری ہو گی۔ یہ جناب فضلی کے دماغ کی اختر اع تھی ورنہ مسلمان مزدور تو بڑے مزے سے فوجی سامان کلکتہ کے لئے لوڈ کر رہے تھے اور ریلوے سٹاف بھی ٹرین لے جانے کےلئے بالکل تیار تھا۔ بہر حال ڈی سی کا تار ملنے پر جنر ل صاحب گھبرا گئے اور فوراً اسٹیشن کمانڈر میجر غلام حسین چاچا کو خفیہ احکام بھیجے کہ کمان افسر سے سارا فوجی سامان لے لیا جائے اور اگر وہ انکاری ہو تو اسے فوراً حراست میں لے لیا جائے۔ بالآخر سارا فوجی سامان بھارت جانے سے بچ گیا۔
جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے اس وقت ڈھاکہ میں دو بٹالین فوج تھی ان میں نصف کے قریب نفری ہندوﺅں اور سکھوں پر مشتمل تھی چند دنوں بعد اس ہندو سکھ نفری کو مکمل ہتھیار وں سے لیس کر کے بینڈ با جے کے ساتھ رخصت کر کے کلکتہ بھیج دیا گیا۔ انہی دنوں جو مسلمان فوجی دستے مغربی بنگال سے آرہے تھے ان کو ہندو مکمل طور پر غیر مسلح کر کے بھیجتے تھے لیکن اِن کے ساتھ آنے والے بنگال افسروں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ انہی بنگالی افسروں میں کیپٹن غنی بھی تھے۔ جو خود بھی نہتے تشریف لائے تھے۔ (جاری)
مشرقی پاکستان کے زوال کا آنکھوں دیکھا حال (۳)
Dec 23, 2012