گوادر میں 3 بسوں پر فائرنگ سے ایران کے راستے یورپ جانیوالے 11 افراد جاں بحق ہو گئے۔ مرنے والوں میں پنجابی اور افغان شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل گوادر میں ایسے ہی واقعہ میں کئی افراد مارے جا چکے ہیں اسکے بعد یہ دوسرا واقعہ ہے جب ایران کے راستے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔گوادر سے ایران بہت قریب پڑتا ہے۔ سمندری اور زمینی دونوں راستوں سے یہاں سے انسانی سمگلنگ عرصہ دراز سے جاری ہے اور سیکورٹی ایجنسیاں اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ گوادر سے ایران وہاں سے ترکی کے راستے یورپ جانے والی سنہری مستقبل کا خواب لے کر اکثر راستے ہی میں جاں سے گزر جاتے ہیں اسکے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔انسانی سمگلر بڑی رقوم لے کر یہ دھندا کر رہے ہیں۔ آثار سے لگتا ہے کہ قتل و غارت گردی انہی سمگلروں کی باہمی رقابت کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے تاکہ اس راستے پر اجارہ داری برقراہ رہ سکے۔ دوسری طرف اس میں فرقہ واریت بھی شامل ہو سکتی ہے کیونکہ اس راستے کو ایک مسلک کے افراد زیادہ استعمال کرتے ہیں ان کا تعلق افغانستان سے ہو یا پنجاب یا دیگر علاقوں سے دیگر افراد اس طرف سے کم ہی نقل مکانی کرتے ہیں۔اس بنا پر دوسرے گروپ نے ان تارکین کو نشانہ بنایا ہو اس شبہ کو تقویت اس لئے بھی ملتی ہے کہ کوئٹہ شہر سے بڑی تعداد میں خوفزدہ ہو کر ہزارہ قبیلے کے افراد ہزاروں کی تعداد میں بیرون ملک جا چکے ہیں اور اس میں سے اکثریت غیر قانونی طریقہ سے گئے ہیں اور تواتر سے سمندری راستے میں حادثے میں ہلاکتوں کی خبریں بھی اس طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اب سیکورٹی حکام کو چاہئے کہ وہ نا صرف ہزارہ قبیلے کی نسل کشی کے ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لائیں تاکہ ہزارہ افراد کو پاکستان میں حفاظت سے زندگی بسر کرنے کی ضمانت بھی ملے۔ یہ ہزارہ ہی نہیں‘ پاکستان میں ہر شہری‘ ہر فرقے اور ہر مذہب کا حق ہے۔
گوادر میں فائرنگ اور سیکورٹی حکام
Dec 23, 2012