محبت ہو کہ نفرت ان میں ایک چیز بہرحال یکساں ہے اور وہ ہے تعصب! یہ تعصب وہ بلا ہے جس پر اُسی طرح کنٹرول نہیں ہوتا جس طرح محبت اور نفرت پر قابو نہیں رہتا۔ اگر اس تعصب کو نیست و نابود کر دیا جائے تو کئی محبتیں ٹوٹ جائیں اور کئی نفرتوں کا قلع قمع ہو جائے!
سیاست میں محبتیں اور نفرتیں جوان رہتی ہیں۔ کبھی ضرورت کی بنیاد پر کبھی تعصب کے سبب۔ اگر یہی نفرتیں اور محبتیں ضرورت اور تعصب کے بجائے قومی خدمت اور حب الوطنی کی خاطر پلنے، بڑھنے، سنورنے اور چلنے لگیں توہم یہ دو نہیں تو تین سالوں میں چائینہ اور امریکہ کے بغیر عزت و آبرو کے ساتھ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہی نہیں کراچی اور بلوچستان میں ”را“ ایرانی و افغانی سرحدوں کے ساتھ ساتھ موساد اور اندرونِ ملک سی آئی اے بمعہ اپنے چمچوں اور پیروکاروں کے ہر کارروائی چھوڑ کر اور دُم دبا کر بھاگ جائیں گے۔
پرسوں ترسوں وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنی طرف سے خوبصورت بات کی ہے کہ پاکستان، بھارت اور افغانستان کے پاس صرف دوستی کا آپشن ہے۔ مان لیا، چلیں مان لیا کہ یہ آپشن سو فیصد درست ہے لیکن میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، چوہدری نثار علی خان اور پرویز رشید و خواجہ آصف یہی دوستی مالی آپشن کو داخلی حقیقت میں کیوں نہیں آزماتے؟ سیانے کہتے ہیں آزمائش اور استعمال شرط ہُوا کرتے ہیں۔ افغانستان کے ”سرکاری“ رگ و پے میں بھارت کے ساتھ محبت بلکہ اندھا دھند محبت کے پیچھے ایک خاص فلاسفی کے علاوہ ”را“ اور موساد جیسے فتنوں کی محنتیں اور محبتیں موجود ہیں۔ بھارت نے سقوطِ ڈھاکہ اور کشمیر پر قبضے کے جو زخم دے رکھے ہیں اُن پر وہ فاتحانہ جوش و جذبہ رکھتا ہے، اب ایسے میں آپشن کا حال کیا ہو گا۔ اس آپشن کی یقیناً ضرورت ہے۔ وزیراعظم کا کہنا اور سوچنا درست ہے لیکن اسی آپشن کے معاملے میں اپنے گھر کے اندر نرگسیت پسندی کیوں؟ سچی بات ہے کہ حکومت معاشی بحالی میں سرتوڑ کوشش میں مصروف ہے لیکن معاشرتی ترقی اگر دکھائی نہ دے اور قدم قدم پر جمہوریت سے عام شہری تک اور انصاف سے اعتدال پسندی تک کو نقصان کاسامنا ہو تو معاشی ترقی کی اُمید کسی انقلابی اقدام کا پیش خیمہ نہیں ہو گی۔ جب حکومت کے ایک بزرگ وزیر (کوئی عابد شیر علی یا ولن سٹائل رانا ثنااللہ نہیں) یعنی سنجیدہ اور تجربہ کار ”وزیر اطلاعات و نشریات و طنزیات“ اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق عمران خان کے جمہوری حق کے استعمال کو ”سرکسی امور“ اور اپنے سابق ہم پیالہ و ہم نوالہ شیخ رشید کے سیاسی عمل کو ”کرتب“ گردانیں گے تو یہ جمہوری آپشن کیسی ہے۔ ہم نہیں کہتے تحریک انصاف درست ہے اور واقعی لاہور کے حلقہ 122 اور 125 میں دھاندلی ہوئی ہے جہاں حلقہ 122 میں سپیکر صاحب نے 93,389 اور عمران خان نے 84,517 ووٹ حاصل کئے۔ حلقہ 125 سے خواجہ سعد رفیق وزیر ریلوے نے 123,416 اور حامد خان نے 84,495 ووٹ حاصل کئے تھے۔ ہاں! دھاندلی ہوئی یا نہیں ہوئی اس کا فیصلہ الیکشن کمشن، اعلیٰ عدالت یا کوئی ٹربیونل ہی کر سکتا ہے۔ عمران خان کا قلمکار کوئی وکیل یا مسلم لیگ (ن) کا کوئی متوالا حرف کار نہیں کر سکتا --- نہیں!
اگر ہم یہ بات کریں کہ کم از کم خواجہ سعد رفیق کو ”سیاسی“ نہیں اخلاقی اور لیڈرانہ طورسے الگ بیٹھ کر (ٹرین پر بیٹھ کر نہیں) دھاندلی کے حوالے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کروا لینا چاہئے تو یہ بات غلط نہیں ہو گی بلکہ میاں نواز شریف اور انصاف کی حکمرانی کا بول بالا ہو گا جبکہ خواجہ سعد رفیق نے ووٹ بھی 38921 سے زائد ”حاصل“ کر رکھے ہیں --- پھر ڈر کاہے کا؟ یہ تو معاملہ ہے حلقوں کا۔ یاد رکھئے دہشت گردی اور ڈرون کا معاملہ قومی مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کے حل کیلئے سب سے پہلے دوستی اور قومی سوچ کی دوستی کا اہتمام تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں ضروری ہے (پی پی پی تو فرینڈلی اپوزیشن کا احسان اتارنے کے قرض کی ادائیگی میں مصروف ہے!) ۔ چھوڑئیے صاحبانِ عنانِ اقتدار! حلقوں کی سیاست سے نکلیں اور قومی سیاست کی نکیل تھامئے۔ یہ وقت کا زیاں ہے اور پہلے ہی نادرا کے چیئرمین اور پیمرا کے ذمہ دار کے وقتی حشر نشر کو زمانہ دھاندلی ہی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ چیئرمین نیب کی تقرری میں پہلے ہی ایک جگ ہنسائی نے جنم لیا تھا۔ ان تین معاملات بلکہ ”سانحات“ کا نقصان یہ ہوا کہ حکومت 25 سے زائد محکموں کے سربراہان کی تقرری سے ڈر رہی ہے کہ کہیں مزید قانونی، اصولی اور سیاسی توپوں کا رُخ اس کی جانب نہ ہو جائے۔ تساہل پسندی اور دیدہ دلیری کے فقدان کے سبب روایات اور قوانین سے ہٹ کر کہیں بلا ضرورت کمیٹی کی تشکیل کا عندیہ دیا جا رہا ہے کہ لوگ چپ رہیں اور کہیں ایڈہاک ازم کے اشارے ہیں۔ ارے صاحب! دوستی کی آپشن کو گھر اور دوستوں میں بھی کھولیں، ایک دو وزراءکے علاوہ آپ کے سبھی وزیر بھی آپ کی بیورو کریسی سے دوستی کی نذر ہیں وہ اپنے سیکرٹری تک تبدیلی نہیں کر سکتے۔ لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے چند بیورو کریٹس وزارت کا قلمدان رکھنے والوں اور ہزاروں ووٹ لیکر اسمبلی میں پہنچنے والے ممبران پر حاکم ہیں، صرف شریف خاندان کی دسترس ہے۔ اللہ کرے معاشی اور جمہوری ترقی کے اشارے بھی واضح ہو جائیں ابھی تک تو مستقبل میں مرکز میں مریم نواز شریف اور صوبہ پنجاب میں حمزہ شہباز شریف کی گرفت کی مضبوطی ہی کے اشارے ہیں۔ پرویز رشید، اسحاق ڈار اور چوہدری نثار کے علاوہ زیادہ تر وزراءانہی کی خوشنودی کیلئے بھاگتے دوڑتے نظر آتے ہیں۔
ہاں ایک آپشن اور یاد آئی۔ متحدہ پاکستان کے حامیوں کیلئے حکومت میں دو رُخ رہے۔ وزارتِ خارجہ کا مو¿قف اور تھا اور وزیر داخلہ کا مو¿قف کچھ اور۔ عبدالقادر مُلا کی بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسی پر حکومت کا مو¿قف دوٹوک ہونا چاہئے تھا --- دو ٹوک! تضادات کے اس خاتمے کی آپشن بھی ضروری ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کا یہ کہنا ہے کہ اسمبلی میں قرارداد کی منظوری محض پاکستانی قوم کی رائے کا منظرنامہ تھا تاہم بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا عنصر نہیں۔ پاکستان کی حمایت کے جرم میں پھانسی چڑھ جانے والا، متحدہ پاکستان کا حامی، سابق پاکستانی، نظریہ پاکستان کی روح تھا اور نظریہ پاکستان سے تضاد کیسا؟
بہرحال گڈ گورننس، سرحدوں کے تحفظ، دہشت گردی اور ڈرون حملے کے خاتمے، توانائی کے حصول، مختلف محکموں کے سربراہان کی میرٹ پر تقرری، بھارت سے دوستی تک کیلئے بھی آپ ہر آپشن استعمال کر لیں --- بالکل کر لیں! لیکن یاد رکھئے محمود و ایاز سے لے کر داخلی سطح اور جمہوری و سیاسی سطح پر یہ آپشن خارجی آپشن سے بھی زیادہ اہم اور ضروری ہے --- ورنہ! ورنہ ہم کہیں گے کہ....
کوئی ایسی بات ضرور تھی شب وعدہ وہ جو نہ آ سکا
کوئی اپنا وہم تھا درمیاں یا گھٹا نے اُس کو ڈرا دیا