فرید احمد پراچہ
اسلامی جمعیت طلبہ یقیناً اس ملک کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم ہے جس نے 1947ءمیں اپنے قیام سے لے کر اب تک مسلسل جدوجہد کے ذریعے نوجوان نسل کو اسلام اور نظریہ پاکستان کے ساتھ وابستہ کیا ہے اور انہیں بے مقصدیت یا مغربی تہذیب کے طوفان سے بچا کر ملک و ملت کی حقیقی خدمت کرنے اور پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے گہرے شعور سے آراستہ کیاہے ۔ جس سے ان میں خدا خوفی، فکر آخرت، عقیدہ کی پختگی، امانت و دیانت کی صفات پیدا ہوئیں ہیں۔ الحمدللہ آج اسی کے نتیجہ ہے کہ پورے ملک میں جمعیت سے زمانہ طالب علمی میں وابستہ لاکھوں افراد جہاں اور جس مقام و منصب پر ہیں وہ اپنے کردار و عمل کے لحاظ سے ممتاز و منفرد ہیں۔ جمعیت سے ماضی میں وابستہ بے شمار ایسے افسران، انجینئرز اور جج حضرات ہیں کہ جنہوں نے انتہائی پریشان کن مالی مشکلات کے باوجود رشوت و سفارش اور کرپشن سے اپنے دامن کو پاک رکھا اور کروڑوں روپے کمانے کے مواقع مسترد کرتے رہے ۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ میرٹ پر داخلوں کے لیے مہم چلائی اور بڑی جدوجہد کے بعد اس مطالبہ کو تسلیم کروایا۔ تعلیمی اداروں میں ہفتہ کتب اور کتاب میلوں کی روایت قائم کی اور ہزاروں طلبہ کو قلم و کتاب کے ساتھ وابستہ کر کے کتاب بینی کا شوق پیدا کیا۔ راقم 1974ءمیں جب پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا تو ہم نے ہفتہ کتب کے ذریعے اس زمانے میں لاکھوں روپے جمع کر کے جامعہ پنجاب کی شعبہ جاتی لائبریریوں کو نصابی کتابوں سے بھر دیا ۔جمعیت غریب طلبہ کے لیے فری ٹیوشن سنٹر قائم کرتی ہے اور ہرسال ہزاروں غریب طلبہ کو تعلیمی وظائف دیتی ہے۔ یہ اسلامی جمعیت طلبہ ہی ہے کہ جس نے 37 سال جامعہ پنجاب کے طلبہ کی قیادت و خدمت کی لیکن ایک مرتبہ بھی جامعہ پنجاب کو بند نہیں ہونے دیا جبکہ سندھ و دیگر یونیورسٹیاں کئی کئی ماہ تک بند رہی ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان، سیلاب، زلزلہ و دیگر آفات سماوی کے موقع پر دن رات ایک کر کے غریب بستیوں میں رفاہی کام کرتے رہے ہیں ۔ یہ جمعیت ہی ہے کہ جس نے ہر تعلیمی ادارے میں بلڈ ڈونر سوسائٹیاں قائم کر رکھی ہیں اور سینکڑوں مریضوں کو ہر ماہ خون کے عطیات دیئے جاتے ہیں۔ یہ جمعیت ہی ہے کہ جس نے ہر آمر یت کے مقابلے میں طلبہ کو منظم کیا اور ایوبی آمریت سے لے کر پرویزی آمریت تک مسلسل برسر پیکار رہی۔ یہ جمعیت ہی ہے کہ جس نے علم ودستی کی تحریک چلائی۔ تحریک نظام مصطفی ، تحریک ختم نبوت ، طلبہ یونینز کی بحالی کی تحریک، تحریک بحالی عدلیہ اور اب فوجی آمریت کے خاتمہ کی تحریک میں ہراول دستہ بنی۔ یہ اسلامی جمعیت طلبہ ہی ہے کہ جس کے نوجوانوں نے دفاع وطن کے لیے ایک دو نہیں ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ 1965ءکی جنگ ہو یا 1971ءکی، جنگ میں شریک ہو کر شہید ہوتے رہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم بھائیوں بہنوں کی آزادی کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں یہ نوجوان اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے۔ سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں جمعیت کی کامیابیوں سے پہلے تعلیمی اداروں میں جان لیوا فرسٹ ایئر فولنگ ہوتی تھی اب استقبالیہ کیمپ لگتے ہیں اور نئے آنے والے طلبہ کا خیر مقدم کیا جاتا تھا۔ پہلے بھارتی گانوں پر مشتمل بے مقصد تقریبات ہوتی تھیں پھر مباحثوں ، مذاکروں ، مشاعروں ، طلبہ عدالت ، کوئز مقابلوں وغیرہ کی دلچسپ اور جاندار تقریبات ہونے لگیں۔
تعلیمی اداروں کے یونینز انتخابات میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مسلسل کامیابیوں کے بعد تعلیمی اداروں پر حکومتی گماشتوں کی یلغار ہو گئی جبکہ نہتے طلبہ نے ان اسلحہ برداروںکا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہر دور میں حکومتوں نے طلبہ میں جمعیت کی مقبولیت کو ختم کرنے کے لیے نام نہاد طالبعلم رہنماﺅں کی سرپرستی کی۔ یہ طالبعلم نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد تھے، انہوں نے ہاسٹلوں پر قبضے کئے، جوئے کے اڈے قائم کئے، ویگنوں سے جگا ٹیکس لیا، چوری کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو ہاسٹلوں میں تحفظ دیا۔ متنازع جائیدداوں پر قبضے کیے اور بالآخر ان ہی قبضوں اور جگا ٹیکسوں کی وجہ سے ان کے آپس میں تصادم ہوئے اور یہ نوجوان اس باہمی لڑائی میں مارے گئے۔
تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کی مقبولیت کا راز ان کا دعوتی کام اور ان کے رہنماﺅں کی ذاتی قابلیت، شاندار تعلیمی ریکارڈ، طلبہ کی بے لوث خدمت اور ان کی بے خوف قیادت نیز دلائل سے بھر پور ولولہ انگیز تقاریر میں مضمر ہے۔ ان میں سے اکثر طالبعلم رہنما یوینورسٹی ٹاپ کرتے رہے اور انہوں نے میرٹ پر سکالر شپ حاصل کئے۔ اسی وجہ سے حکومتوں کی مخالفتوں کے باوجود اسلامی جمعیت طلبہ سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں مسلسل کامیاب رہی۔ خود جامعہ پنجاب میں عثمان غنی، بارک اللہ خان مرحوم ، نصراللہ شیخ مرحوم ، سید محمد عارف مرحوم، حافظ محمد ادریس ، حفیظ خان، جاوید ہاشمی، راقم (فرید احمد پراچہ)، عبدالشکور ، مسعود کھوکھر ، لیاقت بلوچ ، امیر العظیم ، سعید سلیمی ، جہانگیر خان ، احسان اللہ وقاص ، وغیرہ بھاری اکثریت سے سٹوڈنٹس یونین کے صدر و سیکرٹری چنے گئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے کم و بیش65 نوجوان کراچی، لاہور، بہاولپور و دیگر مقامات پر اس بیدردی کے ساتھ شہید کیے گئے کہ ان کے زندہ جسموں پر ڈرل مشینوں سے سوراخ کیے گئے تھے ۔ ان کے ناخن اکھاڑے گئے تھے، ان کے جسموں پر گرم استریاں پھیری گئی تھیں، گرم تارکول ڈالا گیا تھا اور کود کود کر ان کی ہڈیاں توڑ دی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک ایک داستان ۔۔۔ اتنی المناک، دردناک اور اتنی کربناک ہے کہ زبانیں بیان کرنے اور کان سُننے کی تاب نہیں رکھتے ۔
امسال اسلامی جمعیت طلبہ اپنا67واں یوم تاسیس منا رہی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک تعلیمی اداروں میں طلبہ و تعلیم کے لئے جو خدمات سرانجام دی ہیں انہیں جھٹلانا کسی کے لئے بھی ممکن نہیںاور کسی ایک واقعے کو بنیاد بنا کر اسلامی جمعیت طلبہ کی 66 سالہ قربانیوں اور استقامت پر مبنی تاریخ پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
روشنی کا سفر نہیں رکتا‘چاہے جس قدر تیز ہو ہوا چاہے
روشنی کا سفر نہیں رکتا‘چاہے جس قدر تیز ہو ہوا چاہے
Dec 23, 2013