اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) کالعدم تحریک طالبان کی نئی قیادت کی طرف سے مذاکرات میں عدم دلچسپی نے حکومت کو شدت پسند گروپوں سے الگ الگ بات چیت کی دوبارہ راہ دکھائی ہے۔ ایک مستند ذریعہ کے مطابق کئی گروپوں نے حکومت کے ساتھ روابط استوار کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکیم اللہ کا تنظیم پر مکمل کنٹرول اور اس کے دبدبہ نے ذیلی گروپوں کو حکومت کے ساتھ بات چیت سے باز رکھا لیکن اب کئی اعتبار سے صورت حال مختلف ہے۔ فضل اللہ کی عدم موجودگی کے باعث تنظیم پر اس کے مکمل کنٹرول کا کوئی امکان نہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے محسود شدت پسندوں میں اختلافات کی وجہ سے پہلی بار تحریک کی قیادت محسود قبیلہ سے باہر گئی۔ اس کے باوجود محسود شدت پسند کمانڈر ہی تنظیم کی اصل طاقت ہیں اور ان میں سے کئی کمانڈر حکومت کے ساتھ بات چیت کے حق میں ہیں تاکہ محسود قبائل کی پناہ گزین کیمپوں سے اپنے آبائی گھروں کو واپسی ممکن ہو سکے۔ قابل اعتماد علماء کے مختلف گروپوں سے انفرادی روابط بھی گروپوں کے ساتھ الگ الگ بات چیت کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ فوج نے طویل عرصہ کے بعد شمالی وزیرستان میں بڑی فوجی کارروائی کرکے یہ پیغام دیا ہے بات چیت کا آپشن کامیاب نہ ہونے کی صورت میں فوجی آپریشن کی توقع رکھنی چاہئے۔ یہ صورتحال شمالی وزیرستان کے مقامی قبائل کیلئے باعث تشویش ہے جو اپنے علاقہ کو جنوبی وزیرستان کے حشر سے بچانا چاہتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کی تجویز آتے ہی حکومت نے ان کے مختلف گروپوں کی درجہ بندی کر لی تھی۔ حکومت کی مذاکراتی حکمت عملی سے واقف ایک ذریعہ کے مطابق شدت پسندوں کے مختلف گروپوں کی درجہ بندی کیلئے انہیں فاٹا کے مختلف علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تھا اور چھوٹے بڑے تمام گروپوں کی فہرست سازی کرلی گئی تھی۔ کسی بھی گروپ کے ساتھ بات چیت کی صورت میں حکومت کا ہوم ورک مکمل ہے۔