آرمی پبلک سکول پشاور میں تاریخی قتل عام پر ملک بھر میں سوگ ، آنسوئوں، دہشت گردوں سے آخری حدوں کو چھوتی نفرت، ماتم یکجہتی، خود احتسابی کا سلسلہ جاری ہے۔ بے گناہ 150 بچوں اور ان کے پورے خاندانوں کو قتل اور جیتے جی زندہ درگور کرنے والے ان نسلی درندوں کی ملامت کا سلسلہ جاری ہے۔ پھٹے دل، زخمی جگر، سرخ آنکھیں، دعائوں کے لئے اٹھے ہاتھ نہ تھمنے والے آنسو زندہ قوم کی علامت ہیں ان آہوں آنسوئوں نے ساری قوم کو ایک نئے عزم سے سرشار کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی عالمی رسوائی کا باعث بننے والے ان درندوں نے قرآنی تعلیمات و احکامات اور اسوہ رسولؐ اور اسوہ صحابہ ، خلفاء کے جنگی اصولوں کو نہ مان کر انسانیت پر بدنما داغ لگایا ہے! ساری قوم ایسے قبیح عناصر کے خلاف یکسو ہو چکی اب فیصلے اور بڑے فیصلے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف اور سینئرترین جرنیلوں نے کرنے ہیں! تیز تراقدامات، پالیسی فیصلے مشکل اور سخت فیصلے کہ بچوں کے خون کا قومی کفارہ جرنیلوں اور وفاقی حکمرانوں پر بڑا قرض بن گیا۔ ان بچوں کے خون کی قسم… اب بے رحم حساب ہو گا!گذشتہ پانچ سالوں میں اسی قلم سے اپنے کالموں میں فوج اور آئی ایس آئی کے قومی اداروں کا دفاع کیا ہے اور ایسے وقت میں جب تمام میڈیا فوج اور آئی ایس آئی سے اگلے پچھلے حساب چکا رہا تھا! آج جرنیل ذرا حوصلے سے اور ٹھنڈے دل سے میرا کالم پڑیں یہ وہی کالم نگار ہے جس نے کسی مفادکے بغیر فوج اور خفیہ اداروںکو میڈیا محاذ پر دشمنوں کے حملوں سے بچایا یہ اس لئے کہ قومی سلامتی ہر حال میں عزیز ہے لیکن اب 200 گولیوں سے بھون دینے والے بچوں کی نعشوں اور زخمی دل و جسم کا سوال ہے اور یہ ساری قوم اور ریٹائرڈ جرنیلوں کا بھی سوال ہے!
آرمی پبلک سکول اور دیگر تعلیمی اور قومی اداروں کے انتہائی اہم علاقے وارسک روڈ اور کینٹ کو ان میں ملٹری انٹیلی جنس اور آپریشن ، آئی ایس آئی جاسوسی نظام اور آئی بی جاسوسی نظام کو جاسوسی نظام، سی آئی ڈی جاسوسی نظام، ایف سی جاسوسی یونٹ، گیریژن ، ملٹری پولیس سکیورٹی نظام بیک وقت کیوں ناکام ہوئے؟ ملحقہ قبرستان اور نزدیکی افغان بستی اور قرب و جوار میں جاسوسی اور آپریشن نظام کی ناکامیاں کس آفیسر اور چھوٹے فیلڈ آفیسران کی نالائقی، لاپرواہی ، غلط اور کمزور سکیورٹی پلان کے ذمہ ہیں ؟ جو بھی انکوائری میں قصور وار ثابت ہو اسے بلارعایت و سفارش ’’انتظامی سبق‘‘ سخت ترین کارروائی کی زد میں لیا جائے گا خواہ وہ وردی والا سینئر آفیسر ہو یا سول آئی ایس آئی ، آئی بی آفیسر … 200 بچوں اور خاندانوں کا قتل بے رحم ایکشن کا متقاضی ہے۔ البتہ قصور وار کا تعین ایمانداری سے لازماً کیا جائے فوج آئی ایس آئی، آئی بی اور دیگر پر ’’دشمنوں‘‘ نے کاری وار کئے ہیں۔ جی ایچ کیو حملے سے لے کر کامرہ، کراچی، نیوی ڈاکیارڈ یا آئی ایس آئی دفاتر اور بے شمار جگہ کئے جا چکے! دشمنوں کا علم ہے اب ٹھنڈے دل سے غلطیوں سے پاک ملک میں نئے اقدامات اٹھانا لازم ہیں اب نالائق ٹیم کے ساتھ کام نہیں چلے گا۔ خصوصاً آئی ایس آئی … کیس ٹو کیس ناکامیاں، کامیابیاں، کارکردگی دیکھ کر سخت فیصلے لے۔ ری سٹرکچرنگ وسائل، ٹیکنالوجی، وژن والے افراد کی تعیناتیاں کی جائیں ادارے کو نئے اور بڑی وژن والے تجربہ کار افراد کی ضرورت ہے۔ خصوصاً ٹرانسپورٹ، پے پیکج، میڈیکل سہولتوں، آلات کی فراہمی کا ہنگامی اصلاحی آپریشن درکار ہے۔ نیز جاسوسی نیٹ ورک، انسانی ذرائع کو بہت وسعت دینے کی ضرورت ہے فوری ضرورت! وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف موٹر وے کے 250 ارب روپے اگلے سال خرچ کر لیں لیکن آج آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس، آئی بی کو کم از کم 20 تا 30 ارب روپے فوراً دینے کا سنجیدگی سے سوچیں! غیر ملکی ایجنسیاں تو ڈالروں میں انسانی جاسوس کا معاوضہ دے رہی ہیں پاکستان دشمن ایکشن اربوں کے سرمائے سے مکمل ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم یہ فوری فیصلہ لے لیں پہلے ملکی سلامتی پھر موٹر وے !!!
میاں صاحبان کو ادراک تو ہو گا کہ اسلام آباد، لاہور، کراچی، راولپنڈی میں خدانخواستہ چار بڑے دہشت گردانہ حملے مزید ہو گئے تو قوم حکمرانوں سے نجات کی آواز بلند کر سکتی ہے۔ پہلے میاں صاحب قومی سلامتی کے تقاضے نبھائیں ترجیحات غلط ہیں!! سڑکیں میگا پراجیکٹ، میٹرو بس، قومی شاہراہ کی تعمیر اس وقت سود مند ہوں گی جب بم دھماکوں، خودکش حملوں سے قوم کو نجات مل جائے گی ورنہ نہ آپ حکمران رہیں گے نہ ملک میں اقتصادی ترقی ہوگی یہ صاف دیوار پر لکھا ہے!!
سینئر جرنیل اور وزیراعظم فوری فیصلے لیں اور نئی پالیسیاں منظور اور نافذ کر دیں، افغان بارڈر پر لوہے کی باڑ اور روشنیاں لگانے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ افغان بارڈر سے دہشت گردوں کا داخلہ روکا جائے۔
بڑے کراسنگ (خفیہ راستوں) کے آگے سیکورٹی فورسز کے مورچے بنائے جائیں ضروری ہو تو بارودی سرنگیں لگا دی جائیں۔ اینٹی سٹریٹ فورس سپیشل گروپ بنایا جائے۔