دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑیں گے، 700 بھارتی طلبہ کے وزیراعظم نواز شریف کو خطوط!
ہمیں بے حد خوشی ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ بیداری ہو رہی ہے اور ہر طرف سے دہشت گردوں پر پھٹکار برس رہی ہے۔ اب بھارتی طلبہ کا یہ عزم ہمارے لئے باعث تقویت ہے کہ بھارت میں بھی دہشت گردی کے خلاف عوام بیدار ہو رہے ہیں۔ بس گزارش یہی ہے کہ ہمارے یہ امن دوست طلبہ ذرا فرصت کے سمے کشمیر پر بھی نگاہ ڈالیں جہاں گزشتہ 67 برسوں سے وحشت اور دہشت گردی کا ایسا بازار برپا ہے کہ اسکی نظیر شاید دنیا بھر میں نہیں ملتی ہو ماسوائے اسرائیل کے جہاں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی دہشت گردی آئے روز کوئی نہ کوئی نیا تماشہ لگا دیتی ہے، مقتل سجا دیتی ہے۔
دنیا بھر سے احتجاج کے باوجود بھارت اور اسرائیل کشمیر اور فلسطین میں اپنی دہشت گردانہ پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہیں کوئی آہ، فریاد اور اپیل ان پر اثر نہیں کرتی۔ لاکھوں بے گناہوں کا خون بہانے کے بعد بھی بستیوں کی بستیاں اجاڑنے کے باوجود ان دہشت گردوں کے دل ٹھنڈے نہیں ہوتے۔
اب اگر ہمارے یہ پیارے انسان دوست طلبہ اپنی حکومت کی کشمیر میں جاری ظالمانہ دہشت گردانہ پالیسیوں کے خلاف بھی ایک خط بھارتی وزیراعظم مودی کو بھی لکھیں اور ان سے اپیل کریں کہ وہ کشمیر میں جاری ظالمانہ دہشت گردی کا سلسلہ ختم کریں، وہاں کے کشمیریوں کو بھی اپنی مرضی سے اپنی زندگی بسر کرنے اور مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیں کیونکہ دہشت گردی ہمیشہ مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اگر ہم سب مل جُل کر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کام کریں اور اس کا سبب بننے والے عوامل کا خاتمہ کر دیں تو یہ دنیا جنت بن جائے گی جہاں کوئی کسی پھول جیسے بچے کی جان نہیں لے گا، یہی بچے ہم سب کا اور پوری دنیا کا مستقبل ہیں اور ہمیں مل جُل کر انہیں دہشت گردوں سے بچانا ہے تاکہ پوری دنیا کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔
٭....٭....٭....٭
حراستی مرکز گوانتا نامو بے بند کرنے کے لئے جو ہو سکا کروں گا : صدر اوباما۔ چلئے کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے“ بالآخر امریکی حکمرانوں کو اس بدنام زمانہ حراستی مرکز کی بندش کا خیال آ ہی گیا جس میں سینکڑوں بے گناہوں کو بھی گناہ گاروں کے ساتھ رگڑا گیا۔
یہ ظالمانہ مرکز تو ہٹلر کے گیس چیمبر سے بھی بدترین تھا کہ گیس چیمبر میں جانے والے ایک یا چند لمحوں کی اذیت کے بعد ہر دکھ درد سے بے نیاز ہو جاتے تھے مگر اس مرکز میں ایک بار داخل ہونے والا تو بار بار موت کی خواہش کے باوجود بھی قید زندگی سے خلاصی نہیں پا سکتا تھا۔ ہلاکو ہو یا چنگیز، تیمور ہو یا نادر، ہٹلر ہو یا مسیولینی ان کی ہلاکت خیزیاں بے شک بے شمار کہانیوں کو وجود میں لانے کا باعث بنی ہوں گی مگر ان میں سے کسی نے وہ جدیدیت اور نئے تشدد کے انداز نہیں اپنائے ہوں گے جو گوانتا نامو بے میں زیر دام پنچھیوں پر آزمائے گئے، وہ بے چارے تو ....
ادھر آستگمر ہُنر آزمائیں
تُو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
کی عملی تفسیر بن کر ہر ظلم اور ستم پر ظالم کے ہُنر کی داد دیتے رہے، اب امریکی صدر اوباما نے اس قید خانے میں باقی بچ جانے والے زندہ قیدیوں کی رہائی کی امید دلاتے ہوئے چند مزید قیدی رہا کر دئیے ہیں، اب باقی بے چارے کہیں رہائی کی گھڑیاں گنتے گنتے نہ گزر جائیں۔ صدر امریکہ کو چاہئے کہ وہ ان پر بھی رحم فرمائیں اور ان سب کی رہائی کے خسروانہ فیصلے کا جلد از جلد اعلان کریں تاکہ یہ قیدی بھی دوبارہ اس زندگی کی طرف آئیں جو ان سے چھینی جا چکی ہے۔ انسانیت کے نام پر دھبہ بننے والے ایسے مراکز کا وجود ہی مٹا دینا چاہئے جو ناسُور بن کر انسانوں کو چاٹ رہے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
فرانس : ایک شخص نے نعرہ تکبیر لگا کر ہجوم پر گاڑی چڑھا دی، 111 افراد زخمی!
”نعرہ تکبیر“ مسلمان فتح و نصرت اور خوشی کے موقع پر لگا کر اپنی قلبی مسرت کا اظہار کرتے ہیں یہ ان کا طرہ امتیاز ہے، یا پھر مرغی، دُنبے، بکرے، بیل، گائے یا اونٹ جیسے حلال جانور کو ذبح کرتے وقت پڑھتے ہیں، یہاں تک تو اس کا استعمال خیر ہی خیر کے زمرے میں آتا ہے اور کبھی کسی نے اس بارے میں اعتراض نہیں کیا مگر یہ ایک علیحدہ سوچ رکھنے والے مسلمانوں نے جنہیں علماء”ملاحدہ“ بھی کہتے ہیں اور خوارج بھی انہوں نے ایک علیحدہ منطق نکال رکھی ہے، ہر وہ غلط کام جو ان کے نزدیک درست ہے کرتے وقت نعرہ تکبیر لگاتے ہیں یا لگواتے ہیں۔ ان کی اس طرح کی احمقانہ حرکات کی وجہ سے مسلمانوں کی بدنامی ہوتی ہے۔ بھلا اب کارِ ہجوم پر چڑھنا کونسا اسلامی فعل ہے یا اس سے وہ اپنے دین کی کیاخدمت کر رہا ہے اُلٹا اس گناہ کے ساتھ ساتھ وہ نعرہ تکبیر کی بھی بے حرمتی کا مرتکب ہو رہا تھا، ایسے ہی کم عقلوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے لوگ مسلمانوں کو دہشت گرد اور نجانے کون کون سے ناموں سے پکار رہے ہیں۔
اور جب ایسے ہی واقعات کی بنیاد پر ان ممالک میں مسلمانوں پر شک کیا جاتا ہے انہیں پوچھ گچھ کے نام پر تنگ کیا جاتا ہے تو یہی کم عقلے جن کی عقلوں پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے اسے اسلام اور کفر کے مابین جنگ قرار دے کر مزید کم عقلوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ یوں ان ممالک میں رہنے والے لاکھوں مسلمانوں کی پُرامن زندگی میں بے اطمینانی پیدا کر جاتے ہیں اس لئے تو ”ایسے نادان دوستوں سے دانا دشمن کو بہتر“ قرار دیا گیا ہے۔ اب یہ ہم سب کا اور خاص طور پر علماءکا فرض ہے کہ وہ ایسے نادان دوستوں کی اصلاح کے لئے آگے بڑھیں جو اسلام کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں تارکین وطن مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بنانے پر تُلے ہوئے ہیں جن کے حُسنِ سلوک کی وجہ سے ان ممالک میں اسلام تیزی سے پھیلنے والا بڑا مذہب بن چکا ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭