پروردگار پاکستان کو نظر بد سے بچائے

جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اس کے لیے اندرونی اور بیرونی خطرات نے بھی ساتھ ہی جنم لے لیا۔ قائد اعظم اور نواب زادہ لیاقت علی میں اندر ہی اندر ایک دوسرے کے لیے چاہت کے جذبات کا فقدان پایا جاتا تھا۔ اس وجہ سے دیگر سیاست دان بھی اس پوشیدہ کھینچا تانی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دو پارٹیوں میں بٹ گئے۔ وہ جی ایم سید جس نے قیامِ پاکستان کے لیے اسمبلی کے اجلاس میں قراردادپیش کر کے منظور کروائی تھی اس کی خدمات کے اعتراف اور صلے کی بجائے اس کو سرکاری خدمات بجالانے اور اس کی صلاحیت واہلیت کے مطابق ہر ایک سرکاری عہدے سے اس کو محروم رکھا گیا۔ بدیں وجہ وہ عمر بھر پاکستان کے خلاف بیانات دیتے رہے حتیٰ کہ محترمہ فاطمہ جناح 1948ءمیں قائد اعظم کی ڈیڈباڈی کراچی ائیرپورٹ پر لے کر آئیں تو کوئی سرکاری اہلکار بانیِ پاکستان کی ڈیڈ باڈی کو لینے کے لیے ائیرپورٹ پر موجود نہ تھا۔ سیاست دانوں اور تحریکِ پاکستان کے اکثر کارکنوں نے ہندوﺅں کی چھوڑی ہوئی بڑی بڑی عمارات اور زمینوں پر قبضہ جما لیا اور بعد میں اثر ورسوخ سے اپنے نام الاٹ کروا لیں۔ وزارتوں اور اقتدار کے لیے تحریکِ پاکستان کے کارکن سرگرم رہے۔ ان ہی سازشوں کے نتیجے میں 16۔ اکتوبر 1951ءمیں وزیر اعظم لیاقت علی بھی راولپنڈی کے جلسے میں شہید کر دئیے گئے۔
بہرحال وزارتوں، الاٹمنٹوں کے جھگڑوں کے ساتھ ساتھ ایک سازش کے تحت چند ناہنجار احمقوں نے لوگوں کی نظریں اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے 1953ءمیں ختمِ نبوت کا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ اس پر قوم اتنی مشتعل ہو گئی کہ گرفتاریاں پیش کر کے ”جیلیں بھرو“ تحریک شروع کر دی گئی۔ نواب زادہ لیاقت علی کی وفات سے اکتوبر 1958ءتک حکومتیں آئے دن تبدیل ہوتی رہیں۔ حتیٰ کہ بھارت کے وزیر اعظم موتی لال نہرو نے پاکستانی حکومتوں کی تبدیلیوں کے بارے میں ایک طنزیہ بیان جاری کیا کہ ”میں نے اتنی دھوتیاں نہیں بدلیں جتنے پاکستان کے وزیر اعظم انِ سالوں میں بدل چکے ہیں۔“
1958 ءمیں ملک بھر کے کئی بڑے بڑے محکموں کے ملازمین جن میں محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت وغیرہ نے ملک بھر میں مکمل ہڑتالوں کے پروگرام طے کر رکھے تھے۔ ہر طرف انتشار ہی انتشار نظر آتا تھا۔ بدیں وجہ اکتوبر 1958ءمیں ایوب خاں نے صدر سکندر مرزا کی رضا مندی سے ملک میں مارشل لاءنافذ کر دیا۔ مارشل لا کے نفاذ سے سیاست دانوں کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ لیکن عوام الناس نے سکھ کا سانس لیا۔ ایوب خان نے ملک بھر کے لیے پانی اور بجلی کا ایک الگ محکمہ (واپڈا) بنا دیا۔ کالا باغ ڈیم کی تیاریاں بھی کر لی گئی تھیں۔ پختہ سڑکیں تعمیر کرائی گئیں۔ جن سڑکوں کی مرمت کی ضرورت تھی ان کی مرمت کرائی گئی۔ ملک ترقی کی راہ پر چل پڑا تھا مگر ایوب خان کا تختہ الٹ دیا گیا۔ لیکن بعد میں آج تک عوام الناس نے مارشل لا کے نفاذ کو کبھی ویل کم (Welcome) نہیں کیا۔
1960ءمیں پنجاب یونیورسٹی لاہور کی گراﺅنڈ میں راقم نے ایوب خاں کی تقریر سنی جو بڑی دل آویز تھی۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایوب خاں نے خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے برتھ کنٹرول کا اعلان مذکورہ تقریر میں کیا تھا۔ اگرچہ سابقہ کالم میں راقم 1960ءسے 1978ءکے ملکی حالات کے بارے میں تحریر کر چکا ہے تاہم تاریخ کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے ایک دو واقعات کا بیان کر دینا ضروری ہے۔ ہماری ملکی سیاست میں تشدد (Violence) کا عنصر غالباً 1970ءمیں پیپلز پارٹی کے چند جیالوں کے احمقانہ رویہ کے سبب شروع ہوا۔ مولانا مودودی رحیم یار خاں کے ضلع میں اپنی جماعت کے کسی جلسہ کی صدارت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر صادق آباد کے ریلوے پھاٹک پر ان کی کار کھڑی تھی۔ یہ دیکھ کر پیپلز پارٹی کے چند بے قوف جیالوں نے مولانا مرحوم کی کار پر ڈنڈے برسانے شروع کر دئیے۔ بہرحال ریلوے پھاٹک پر رُکے ہوئے لوگوں نے ان کو لعن طعن کر کے پیچھے ہٹا دیا مگر یہ حادثہ آئندہ ہمیشہ کے لیے سیاسی پارٹیوں کی روایات کا حصہ بن گیا۔ دوسرا اہم واقعہ 1977ءکا الیکشن بھٹو صاحب نے اپنی ٹرم پوری ہونے سے کچھ پہلے کروا دیا تھا۔ 1976ءمیں بھٹو نے الیکشن مہم مختلف ناموں سے ایک نئی روایت سے شروع کی۔ ہفتہ افواجِ پاکستان منایا گیا، ہفتہ خواتین، ہفتہ مزدور اور ہفتہ کسان وغیرہ بھی منائے گئے۔
لیکن 1977ءکے الیکشن میں بھٹو کے مقابلے میں سندھ کے جان محمد عباسی جماعت اسلامی کے نامزد امید وار الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ بھٹو کے لوگوں نے ان کو الیکشن آفس پہنچنے سے پہلے ہی اغوا کر لیا اور الیکشن کے لیے کاغذات جمع کروانے کی آخری تاریخ گزر جانے کے بعد ان کو رہا کیا گیا، اس طرح وہ الیکشن میں حصہ لینے سے محروم ہو گئے اور بھٹو بلامقابلہ الیکشن جیت گئے۔ عدالتوں میں بھی جان محمد عباسی کی نہ سنی گئی۔ چنانچہ بھٹو نے جن امیدواروں کو اسمبلی کی ممبرشپ کے ٹکٹ جاری کیے تھے پولنگ اسٹیشنوں پر انہوں نے بھی جو کر سکتے تھے کیا۔ اس سے پیشتر کسی بھی عوامی الیکشن میں ایسی دھاندلی کی روایت نہ تھی۔ مذکورہ الیکشن اگرچہ پیپلز پارٹی جیت گئی لیکن کچھ سیٹوں پر اس قدر دھاندلی ہوئی کہ ووٹوں والے بکس پیپلز پارٹی کے ورکر لے کر بھاگ گئے۔ رائے خالد کھرل 1977ءمیں لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر تھے وہ بھی بھٹو کو پسند کرتے تھے اس لیے اپوزیشن والوں کو انصاف نہ مل سکا۔ بعد میں بے نظیر کے دور میں مذکورہ کھرل صاحب وفاقی وزیر بھی رہے۔ بہرحال متحدہ قومی محاذ نے اس الیکشن کے خلاف ایسی مہم چلائی کہ 5۔ جولائی 1977ءکو ضیا الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
1985ءمیں ضیا الحق نے غیر جماعتی جنرل الیکشن کروائے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ کو فعال کر کے جونیجو صاحب کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ 10۔ اپریل 1988ءکو اوجڑی کیمپ راولپنڈی میں فوجی اسلحے کے ڈپو میں آگ بھڑک اٹھی پنڈی اور اسلام آباد میں املاک کے علاوہ بہت ہی جانی نقصان ہوا۔ اس حادثے کی انکوائری کرائی گئی۔ جس کا جونیجو صاحب اعلان کرنے والے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اعلان سے پہلے جونیجو کو رخصت کرنا ضروری تھا اس لیے مئی 1988ءمیں ضیا الحق نے جونیجو کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کر دیا۔
راقم ملک کے عوام سے التجا کرنا چاہتا ہے کہ جس نازک دور سے آج کل ملک گزر رہا ہے آﺅ ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ملک کے ایک ایک انچ کی خیر ہو، قوم کے ہر فرد کی خیر ہو، ہمارے سیاست دانوں اور دیگر اربابِ بست وکشناد کو رب العالمین ملکی حفاظت، ملکی استحکام اور ملکی بھلائی کی توفیق عطا فرمائے۔
جو لوگ معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔ سکولوں اور مذہبی درسگاہوں پہ حملے کر رہے ہیں۔ مسلمانوں اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کر رہے ہیں ان سب کو پروردگار ایسے کاموں سے باز رکھے۔ ملک وقوم کو جس بھی بدبخت کی نظر لگ گئی ہے۔ ساری قوم مل کر استغفار پڑھے تاکہ کائنات کا خالق، دن رات، چاند سورج اور زمین وآسمان بنانے والا رب پاکستان کو اور پاکستان کے ہر باشندے کو ہر ایک شر والے کے شر سے محفوظ رکھے۔ تمام اندرونی اور بیرونی خطرات اور انتشار سے ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں۔ توبہ کرنے والوں کو رب العالمین معاف فرمانے والے ہیں۔ ہم سب اپنے گناہوں کی معافی مانگیں تاکہ ربِ شعرہ (سورة نجم میں اللہ تعالی نے شعرہ ستارے کی قسم کھائی ہے) پاکستان کے لیے اپنی رحمتوں کے دہانے کھول دیں۔ اللہ تعالی کی رحمتیں اور برکتیں ہم پر نازل ہو سکتی ہیں بشرطیکہ ہم ایک ہو جائیں اور صحیح اسلامی روح کی روشنی میں مسلمانوں والے کردار کے حامل ہو جائیں۔ اقبال نے فرمایا تھا:
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغاں بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاﺅ تو مسلمان بھی ہو

ای پیپر دی نیشن